ثریا اور شرافت


کیتلی میں ابھی چائے انڈیلی بھی نہ تھی کہ دروازہ بجا اور والدہ کی آواز گونجی، دیکھ بیٹی شام ہوگئی ہے تیرے چچا آئے ہوں گے ۔

دوپٹا درست کرتے، بڑے قدم اٹھاتے، بہت سی دعاؤں کے ساتھ میں مین گیٹ تک پہنچی اور دروازہ کھول دیا۔

واہ! آج تو ثریا بٹیا حقیقت میں ثریا کی مانند چمک رہی ہے۔ میں نے سلام عرض کیا ان کو اندر لائی اور افسردہ نگاہوں سے دروازہ بند کر دیا آج بھی چچا نینی کو ساتھ نہ لائے تھے۔ میرے مختصر سے خاندان میں میری والدہ، میں اور چچا ہی شامل تھے۔ جانے چچا اپنے مرحوم بھائی کے گھر سے اتنا کیوں مانوس تھے کہ ہر جمعۃ المبارک ہمارے پاس پہنچ جاتے کچھ ضرورت کا سامان مہیا کرتے، خیریت دریافت کرتے، حالات حاضرہ پر جامع لیکچر دیتے اور میرے ہاتھ کی بنی چائے پی کر واپس لوٹ جاتے۔ کئی سالوں سے یہ جملہ ان کے لبوں کی زینت تھا مجھے دیکھتے ہی پیار سے بول اٹھتے : ثریا تو آج حقیقت میں مانند ثریا چمک رہی ہے۔

ان کے اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملتی جو میں چاہتی تھی۔ بچپن سے ہی جب میں چچا کے گھر کھیلنے جاتی تو چچا شرافت کا اکلوتا نینی (نوازش علی) مجھے بھا گیا تھا۔

دن بیت گئے، بچے جوان ہوئے، اور ہم بچوں کا ملنا ملانا خوشی، غمی کی حد تک محدود کر دیا گیا۔

چچا اور امی گفتگو کر رہے تھے کہ میں نے چائے لا کر میز پر رکھی اور اماں کے ساتھ چارپائی پر براجمان ہو گئی۔ چچا نے مخاطب کرتے ہوئے کہا: واہ آج تو خوشبو یہاں تک رنگ بکھیر رہی ہے اور میں نے ازراہ ظرافت جواب دیا، کس کی چچا الائچی کی یا میری محبت کی؟ دونوں، انہوں نے جواب دیا۔

میں دوبارہ اپنے خیالات میں کھو گئی، چچا مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں پھر بھی زیادتی ہے یہ، جانتے ہیں میں اور نینی اچھے دوست تھے پھر بھی کبھی اس کو ساتھ نہیں لائے یہی سوچتے سوچتے میں دل ہی دل میں چچا کو برا بھلا کہنے لگی۔

میری والدہ چچا اور سہیلیاں مجھے از حد شریف سمجھتے تھے، وجہ یہ تھی کہ واقعی کبھی کسی نے مجھ سے ایسی حرکت ہوتے دیکھی ہی نہ تھی جو شرافت کے زمرے میں نہ آتی ہو۔ چچا خوب گپ شپ لگا کر، دعائیں دے کر جانے لگے تو انہی لمحوں میں بھی تصوراتی دنیا سے لوٹ آئی اور اماں کا یہ آخری جملہ سماعت کی نظر ہوا، ”پہر میری بیٹی ہے جو اتنی شریف اور سادہ مزاج“ جانے کیا موضوع چھیڑا گیا تھا مگر میں تو ازحد لاپروا ہوں کوئی مخاطب نہ کرے تو کان بھی نہیں دھرتی۔ اور دوبارہ تخیلاتی دنیا میں پہنچ گئی۔

آخر مجھے اتنا شریف کیوں گردانہ جاتا ہے حالانکہ دل میں جو شیطانی خیالات جنم لیتے ہیں اور دل میں جتنا برا بھلا میں کہتی ہوں، انجانے میں بیسیوں گالیاں بھی نکال جاتی ہوں، اگر یہ آگ کبھی باہر نکلی تو پورے شہر کو خاکستر کر سکتی ہے، میں اس عقیدے پر یقین رکھتی تھی کہ اصل شریف وہ ہے جو دل میں بھی اچھا سوچے، جس کا صرف ظاہر ہی ستھرا نہ ہو بلکہ باطن بھی پاک ہو ورنہ تو وہ منافق ہوا، بہروپیا ہوا، میری طرح!

اور مجھ میں یہ شرافت خطاء تھی کیونکہ آج تک مجھے ہمت ہی نہ ہوئی کہ کبھی کچھ برا زباں پر لاؤں۔

دن بہت اچھے گزر رہے تھے میری یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہوئی تو گھر بیٹھ کر ماں سے سلائی کڑھائی سیکھنے لگے اور جو شام کو تھوڑا بہت وقت بچ جاتا، میری انگریزی گرامر اور زمانے اچھے ہونے کے باعث محلے کے چند فرنگیوں کی ازلی غلامی میں مخمور طلباء انگریزی سیکھنے آ جاتے تھے اور اچھا گزر اوقات ہو جاتا تھا۔

پہر ایک دن ثریا کو اس کی مطلوبہ بلندیوں تک لے جانے والی مبارک گھڑی آ ہی گئی، خلاف توقع آج چچا، چچی کو بھی ساتھ لائے بلکہ خلاف قیاس چند اضافی تحائف کے ساتھ گھر میں موجود تھے، آج وہ مقررہ وقت سے قریب آدھ گھنٹا پہلے پہنچ چکے تھے جیسے کوئی سوچی سمجھی چال ہو، اسی وجہ سے میری تیاری نہ ہونے کے باعث کچن میں کافی وقت لگ گیا۔

گفتگو بھی جاری تھی، چائے بھی ابل رہی تھی اور میری پلکوں پر آنے والی میٹھی مسکراہٹ آج مرے دل کی شرافت کی گواہی دینے کو تیار تھی اور میں نظروں کی مستی سے بے خبر یہ سوچ رہی تھی کہ آج چچا ثریا کی تعریف کرنے کے بجائے میرے یہ الفاظ سن لیں کہ چچا شرافت! آپ آج حقیقی معنوں میں شریف لگ رہے ہیں۔

جانے کیوں اس جہان میں کوئی ہماری مرضی کے مطابق عمل کرے تو وہ شریف کہلاتا ہے اور ہماری مرضی کے خلاف جانے والا اذلی بداطوار تصور کیا جاتا ہے اور یہی اس ”اشرف المخلوقات“ کی اک نا قابل یقیں حقیقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments