آہ! پروفیسر عنایت علی خان


دو ہزار سات یا آٹھ کی بات ہے رات کے کوئی نو بجے میرے بھائی کا فون آیا مشاعرے میں چل رہے ہو؟ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، میں نے فوراً کہا چلو۔ بھائی نے کہا، تو میرے پاس آجاؤ۔ ڈیفنس سے اٹھ کر فوراً ہی بھائی کے پاس این ای ڈی کی اسٹاف کالونی میں ان کے گھر پہنچا اور وہاں سے ہم دونوں اسٹیل ٹاؤں یعنی گلشن حدید کے لیے چل پڑے جب مشاعرے میں پہنچے تومشاعرہ اپنے اختتامی مراحل میں تھا اور تقریباً تمام اچھے شعرا کو ابھی کلام پڑھنا تھا۔

سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ پروفیسر عنایت علی خان نے ابھی اپنی شاعری پڑھنی تھی۔ مشاعرہ ختم ہوتے ہی میں فوراً اسٹیج پرجا پہنچا اور عنایت صاحب کو سلام عرض کیا یہ اس بزرگ شخص سے میری پہلی ملاقات تھی۔ یہ وہ بزرگ تھے جو کئی جوانوں کے لیے ایک مثال تھے۔ اس ناتواں بدن کے ساتھ ان کی استقامت اور حوصلہ قابل دید تھا۔ عنایت صاحب اردو زبان کے ان خوش قسمت شعرا میں شامل ہیں کہ جن کا ایک شعر

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

اردو دنیا میں زبان زد عام ہے اور اردو دنیا کی وہی لاتعلقی کہ معدودے چند کے سوا کسی کو یہ علم نہیں کہ یہ شعر عنایت صاحب کا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عنایت صاحب ایک بہت ہی مضبوط اعصابی شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے جوانی میں ایک رنگین مزاج شخص تھے مگر جب مولانا مودودی سے ملے تو ان کی زندگی کا دھارا ایک سو اسی کے زاویے پر گھوم گیا اور یہ ان کی شخصیت کی استقامت ہی تھی کہ انہوں نے پھر کبھی پلٹ کراپنی رنگین زندگی کی طرف نہیں دیکھا۔

عنایت صاحب سے دوسری ملاقات اس مشاعرے کے دوسرے ہی دن دوبارہ ہوئی جب ان کی دعوت پر میں ان کی صاحبزادی کے گھر پہنچا جہاں عنایت صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔ بڑی دلچسپ ملاقات رہی۔ جب میں نے ان کو بتایا کہ میں آپ کی شاعری کا بڑا ”فین“ ہوں تو انہوں نے اپنی کتاب ”عنایتیں کیا کیا“ ازراہ عنایت عطا فرمائی اور کہا یہ کتاب اپنے ایک بڑے پنکھے کے لیے (کیونکہ میں نے خود کہا تھا کہ میں آپ کا بڑا فین ہوں ) ۔ پروفیسر صاحب نے کس خوبصورتی سے مجھے یہ احساس دلا دیا کہ جب اردو زبان میں ایک انتہائی خوبصورت لفظ مداح موجود ہے تو فین استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

اور میری خوش قسمتی کہ میں نے یہ سبق لے بھی لیا۔ میں نے اردو شاعری میں طنز کا اس قدر بلند درجہ اکبر الہ آبادی کے بعد اگر کسی شاعر کے ہاں دیکھا تو وہ عنایت صاحب ہیں۔ وہی کاٹ وہی چبھن اور وہی اثر۔ اور اسی بے باکی سے اپنے دل کی بات بلا خوف و خطر کہہ جانا۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت اپنے خاص خاص بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔ جس مشاعرے کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے وہ مشرف کا دور تھا اور اسی زمانے میں صدر صاحب کی ایک تصویر اخبارات میں آئی تھی جس میں وہ ایک کتا گود میں لیے کھڑے ہیں۔ اور اس زمانے میں ”دہشت گردی“ کے خلاف جنگ میں جو کردار اس وقت کے صدر کا رہا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سے قطع نظرکہ آپ اس حکمت عملی سے اختلاف کریں یا اس کی حمایت آپ یہ دیکھیے کہ عنایت صاحب نے کس جواں مردی کے ساتھ اپنی بات کہی۔ آپ کہتے ہیں

ازبسکہ اپنے صدر ہیں اس درجہ سگ پسند
ڈر ہے یہ خو نہ آئے کہیں اپنی پود میں
کتوں سے ان کے عشق کا عالم نہ پوچھیے
کتے ہیں گود میں کبھی کتوں کی گود میں

ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو الفاظ کے چناؤ پر اعتراض ہو مگر کیا کریں کہ جب دل درد کی شدت سے تڑپتا ہے تو تھوڑا بہت آپے سے باہر ہو ہی جاتا ہے۔

ایک واقعے کا تو میں خود چشم دید گواہ ہوں کراچی میں سادات امروہہ کا مشاعرہ، نوے کی دہائی، فیڈرل بی ایریا کا علاقہ، ایم کیو ایم کا زمانہ، الطاف حسین لندن جاچکے ہیں اور عنایت صاحب شعر پڑھ رہے ہیں

ایک ورکر نے کہا چپکے سے میرے کان میں
قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا انگلینڈ میں

حوصلے کی داد تو دینی پڑے گی اس مرد حر کی۔ اور کسی کی دل آزاری نہ ہو اس کا خیال بھی رکھا کیونکہ سامعین میں ایک بہت بڑی تعداد اہل تشیع خواتین و حضرات کی تھی تو ”مشکل کشا“ کے استعمال پر معذرت بھی کی اور یہ بھی کہا کہ شاید ضرورت اسی لفظ کی تھی۔ آپ نے ایک نظم ”کیا سمجھے“ ضیا الحق کے دور میں لکھی اس کا ایک شعر ملاحظہ فرمایے

بس ابتدا ہی میں تھوڑی پریڈ ہوتی ہے
پھر اس کے بعد مزا ہی مزا ہے کیا سمجھے

بے نظیر کے دور میں اپنی مشہور نظم ”بول میری مچھلی کتنا پانی“ لکھی۔ جب امریکہ سے معین قریشی کو پاکستان کا وزیر اعظم تعینات کر کے بھیجا گیا تو آپ نے لکھا

سخاوت میں بھلا امریکیوں کا کون ثانی ہے
جو بوٹی مانگیے تو مرغ سالم بھیج دیتے ہیں
پھر اپنے ملک پر تو ان کی اس درجے عنایت ہے
کہ صاحب ایڈ کے پیکج میں حاکم بھیج دیتے ہیں

صرف یہ ہی نہیں کہ پروفیسر صاحب یہ سب کچھ لکھتے تھے بلکہ ببانگ دہل مشاعروں میں پڑھتے بھی تھے۔ میں نے ایک د فعہ پوچھا سر آپ کو کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی کہنے لگے ابھی تک تو اللہ کا کرم ہے۔

اس کے علاوہ عنایت صاحب کا ایک خاص رنگ اور تھا وہ الفاظ کے معنی سے کھیلنا جانتے تھے اور بہت خوب کھیلتے تھے۔ وہ انگریزی الفاظ کا استعمال بھی خوب کرتے تھے کہیں صرف معنی آفرینی کے لیے اور کہیں طنز کی تلوار کو مزید آبدار کرنے کے لیے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

اس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
یہ شریعت کا نہیں گیس کا بل ہے بیگم
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
عمران خان جب کرکٹر تھے تب کہا
یار عمران خان جواب نہیں
جا کے لندن میں میچ کرتے ہو
کیچ مس ہو یہ کیسے ممکن ہے
تم تو مس کو بھی کیچ کرتے ہو


تعلیمی نطام پہ طنز دیکھیے ایک استاد اپنے شاگرد کے والد سے کہہ رہا ہے۔
مرے سکول سے لے جائیں اپنے بچے کو
جو کام دیں یہ اسے غلط سلط کرتا ہے
اسے تو ٹھیک سے اردو تلک نہیں آتی
لفظ لفظ کا تو تلفظ یہ غلط کرتا ہے
ایک اور طنز دیکھیے
کبھی آتی ہے لیڈی ڈائنا یاد
کبھی جرمن کبھی روسی حسینہ
ابے او بین الا قوامی نظر باز
یہ ترا دل ہے یا ڈش اینٹینا
مزاح کہتے کہتے اچانک سے درمیان میں بہت ہی سنجیدہ اور کام کی بات بھی کہہ جاتے تھے
ہوا ہے جدے میں جو اک مزاحیہ مشاعرہ
ہم آگئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں
رات لطیفہ گوئی کا چل پڑا تھا سلسلہ
ابل پڑے کئی گٹر مذاق ہی مذاق میں

اردو شاعری میں پیروڈی کرنا بھی ایک فن ہے میں نے بہت پیروڈیز پڑھی اور سنی ہیں مگر عنایت صاحب نے احمد فرازؔ کی مشہور غزل جاناں جاناں کی جو پیروڈی کی ہے اس جیسی پیروڈی نہ آج تک سنی اور نہ شاید سن سکوں گا۔ کہتے ہیں

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
اپنے شوہر کو نہ کر اتنا پریشاں جاناں
تیسرے شعر پہ جاناں نے یہ جھلا کے کہا
یہ کیا بکواس لگا رکھی ہے جاناں جاناں
اور مقطعے پہ جو پہنچا تو تنک کر بولی
میں تو ”پھرجانہ“ ہوں ہوگی تری بہنا جاناں

اور یہ پیروڈی بھی انہوں نے فرازؔ صاحب کے سامنے پڑھی پی ٹی وی کے ایک مشاعرے میں جس کا کلپ آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔

اور اب عنایت صاحب اپنے مالک حقیقی کے پاس جا چکے ہیں۔۔۔

جنید اختر
Latest posts by جنید اختر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments