انڈین میچ میکنگ: نیٹ فلکس کا شو ’گھسی پٹی سوچ‘ یا معاشرے کی درست عکاسی؟


نیٹ فلکس کے نئے شو ’انڈین میچ میکنگ‘ پر آج کل انڈیا میں کافی بحث ہو رہی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ اس بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کیا یہ پروگرام صرف ’دقیانوسی خیالات‘ کی عکاسی کرتا ہے یا اس میں دیانتداری سے معاشرے کی اصل حقیقت کی عکاسی کی گئی ہے۔ دلی سے بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے کی تحریر:

آٹھ اقساط پر مشتمل اس سیزن میں انڈین میچ میکر یعنی رشتہ کرانے والی سیما تپاریا اپنے امیر کلائنٹس کے لیے انڈیا اور امریکہ میں مناسب رشتے تلاش کرتی ہیں۔

سیما تپاریا جو ممبئی کی سب سے بڑی میچ میکر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، کہتی ہیں ’جوڑے آسمان پر بنتے ہیں اور خدا نے مجھے انھیں زمین پر کامیاب بنانے کا کام دیا ہے۔‘

اس سیریز میں سیما تپاریا کو دلی، ممبئی اور امریکہ کے کئی شہروں میں خواتین اور مردوں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے جس میں وہ ان سے یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ انھیں کس طرح کے جیون ساتھی کی تلاش ہے۔

دو ہفتے پہلے ریلیز ہونے والا یہ سیزن آج کل انڈیا میں نیٹ فلکس کے چارٹ پر سرفہرست ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین میچ میکنگ: کسی کو لڑکی ’لچکدار‘ چاہیے تو کسی کو ’ماں جیسی‘

’سکپ دی رشتہ آنٹی‘: اپنا شریک حیات خود ڈھونڈیے

کیا لڑکے بھی ارینج میرج میں رشتوں سے انکار سنتے ہیں؟

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی میمز اور لطیفے شیئر کیے گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں یہ بہت پسند ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ انھیں اس سے ’نفرت‘ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سب ہی یہ سیزن دیکھ رہے ہیں۔

جہاں اس شو میں خواتین کے ساتھ سے تعصب، ذات پات، رنگ اور نسل جیسی چیزوں نے بہت سے لوگوں کو اشتعال دلایا ہے وہیں اس سیزن نے بہت سے لوگوں کو سوچنے پر بھی مجبور کیا ہے۔

سیما تپاریا کی عمر 50 کے لگ بھگ ہے اور وہ اپنے کلائنٹس کے لیے ایک خوش مزاج ’آنٹی‘ کی طرح ہیں۔ وہ ہمیں اس سیزن میں ایسے کمروں میں لے کر جاتی ہیں جو بڑے بڑے ہوٹلوں کی راہدریوں اور اپنی پسند سے بنائی گئی الماریوں کی طرح ہیں جہاں درجنوں جوتے اور سینکڑوں کپڑے موجود ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں لڑکے یا لڑکی سے بات کر کے ان کی فطرت کا اندازہ لگاتی ہوں۔ ان کا طرز زندگی دیکھنے کے لیے میں ان کے گھروں میں بھی جاتی ہوں، میں ان سے ان کی پسند بھی پوچھتی ہوں۔‘

ان کے زیادہ تر کلائنٹس امریکی نژاد انڈین ہیں، جہاں 30 کی عمر کے لگ بھگ مرد اور خواتین ٹنڈر، بمبل اور ان جیسی دوسری ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنے کے بعد محبت کی تلاش میں اب رشتہ ڈھونڈنے کے روایتی طریقوں کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔

سیما تپاریا کہتی ہیں کہ گھروں میں زیادہ تر بات چیت والدین کے ساتھ ہی ہوتی ہے کیونکہ ’انڈیا میں شادی دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے اور خاندانوں کی اپنی شہرت اور لاکھوں روپے داؤ پر لگے ہوتے ہیں لہذا والدین بچوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘

ہر قسط کے ساتھ یہ ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے کہ یہ صرف رہنمائی نہیں بلکہ اس سے آگے کی بات ہے۔

خاص طور پر نوجوان مردوں کے معاملے میں، والدین خاص کر مائیں ہی انچارج ہوتی ہیں جو اپنی ہی ذات اور ایک ’اچھے خاندان‘ سے ’لمبی اور گوری دلہن‘ کا مطالبہ کرتی ہیں۔

سیما تپاریا پھر اپنے ڈیٹا بیس سے ’بائیو ڈیٹا‘ نکالتی ہیں جس سے اچھی جوڑی بن سکے۔

انڈیا میں ارینج میرج کا رواج عام ہے لیکن شہری علاقوں میں پسند کی شادی کا رواج بھی بڑھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں زیادہ تر شادیاں والدین کی پسند سے ہی ہوتی ہیں۔

روایتی طور پر رشتے کرانے کا کام پنڈت، رشتے دار اور پڑوس کی آنٹیاں کرتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے مناسب رشتے تلاش کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہارات بھی دیتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں اس تلاش میں کئی پیشہ ور رشتہ کرانے والے اور ویب سائٹس بھی شامل ہو چکی ہیں۔

لیکن جو چیز بہت سے لوگوں کو حیران کر رہی ہے وہ یہ کہ خوشخال، کامیاب اور خودمختار انڈین نژاد امریکی بھی ’ماضی کے طریقے‘ استعمال کرنے پر رضامند ہیں اور رشتے کی تلاش میں ’سیما آنٹی‘ جیسے لوگوں کی دانش پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی کی شاپانگ لسٹ طویل ہوتی ہے جس میں مذہب اور ذات پات سے متعلق ترجیحات شامل ہوتی ہیں۔

صحافی اور ناقد اینا ایم ایم ویتیکاد نے بی بی سی کو بتایا ’بحیثیت تعلیم یافتہ، لبرل، مڈل کلاس انڈین عورت ہونے کے، جو شادی کو زندگی کا لازمی حصہ نہیں سمجھتی، میں نے انڈین میچ میکر کو ایسے دیکھا جیسے میں کسی اور دنیا کو دیکھ رہی ہوں۔‘

ویتیکاد کا کہنا ہے کہ اس شو میں ’کچھ حصے مزاحیہ ہیں اور اس کی وجہ سیما تپاریا کے کلائنٹس ہیں اور اس کے علاوہ وہ خود بھی اپنی گھسی پٹی سوچ سے انجان نظر آتی ہیں۔‘

اس شو میں سیما تپاریا کو شادی کو خاندانی ذمہ داری کے طور پر بیان کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جہاں وہ کہتی ہیں کہ ’والدین سب سے بہتر جانتے ہیں اور انھیں اپنے بچوں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔‘

وہ ستاروں کا حال بتانے والوں اور چہرہ پڑھنے والوں سے بھی مشورہ کرتی ہیں کہ آیا یہ رشتہ نیک شگون ہے یا نہیں اور اپنے کلائنٹس، زیادہ تر خودمختار خواتین کو ’ضدی‘ کہہ کر بھی بلاتی ہیں اور انھیں ساتھی تلاش کرنے کے لیے ’سمجھوتہ کرنے‘ ’لچکدار بننے‘ اور خود کو ’ڈھالنے‘ کا مشورہ بھی دیتی ہیں۔

وہ باقاعدگی سے ان کی شکل و صورت پر اپنی رائے بھی دیتی ہیں، مثال کے طور پر ایک جگہ وہ ایک خاتون کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ ’تصویروں میں اچھی نہیں دکھتی۔‘

اس لیے سوشل میڈیا پر لوگ ان پر جنسی تعصب کو فروغ دینے کا الزام لگا رہے ہیں اور ان پر میمز بنائے جا رہے ہیں۔

کچھ لوگ اس شو پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس میں کی گئی عکاسی نے خواتین کے لیے ارینج میرج کے عمل کو ’خوفزدہ‘ بنا دیا ہے۔

ٹوئٹر پر ایک خاتون نے لکھا کہ ’ممکنہ جیون ساتھی کے سامنے پریڈ کرتی خواتین، اس شو نے بہت سی تکلیف دہ یادیں تازہ کر دیں۔‘

چھترپتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی کانپور میں شعبہ عمرانیات کی پروفیسر کرن لامبا نے بی بی سی کو بتایا ’دلہن دیکھنے کا سارا عمل انتہائی تذلیل والا ہے کیونکہ اسے نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے، اس کا اوپر سے نیچے تک موازنہ کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’اور جب انھیں مسترد کیا جاتا ہے، کبھی کبھی کسی معمولی سی وجہ جیسے کہ رنگت اور قد کی وجہ سے تو یہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔‘

اس شو میں ایک خاتون سیما تپاریا کو بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے کے لیے بہت سے رشتے آ رہے ہیں لیکن انھوں نے وہ تمام مسترد کر دیے کیونکہ لڑکیاں ’پڑھی لکھی‘ نہیں تھیں یا ان کے ’قد‘ کی وجہ سے۔

اسی شو میں ایک شخص یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ اب تک 150 خواتین کو مسترد کر چکا ہے۔

اس شو میں ان تعصبات پر سوال نہیں کیا گیا لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ معاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ اس میں مردوں کی برتری، خواتین سے تعصب، ذات پات اور رنگ نسل کی ایک تکلیف دہ یاد دہانی ہے۔

جیسا کہ مصنف دویش بوپانا نے انسٹاگرام میں اپنی ایک پوسٹ میں اس چیز کی نشاندہی کی کہ ’یہی اس شو کی اصل خوبی‘ ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’کیا یہ شو پریشان کن ہے؟ حقیقت پریشان کن ہے اور یہ ایک ریئلٹی شو ہے۔‘

’حقیقت یہ نہیں کہ ایک ارب 30 کروڑ احساس رکھنے والے افراد صاف توانائی اور آزادی رائے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ دراصل اگر سیما آنٹی احساس رکھنے والی ہوتیں اور رشتے کرواتے وقت (لڑکا لڑکی کی) ذاتی پسند، (انسانی خدوخال سے متعلق) مثبت باتیں اور صاف توانائی کے بارے میں بات کرتیں تو مجھے غصہ آتا۔ کیوں کہ یہ سچ ہے نہ حقیقت۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp