گرودوارہ شہیدی استھان کی زمین اور سکھ برادری کے خلاف متنازعہ ویڈیو پر انڈیا کا پاکستان سے احتجاج


انڈیا نے لاہور کے نو لکھا بازار میں سکھ مذہب کے مقدس مقام گرودوارہ شہیدی استھان بھائی تارو جی کے حوالے سے پاکستان کے ہائی کمیشن سے سخت احتجاج کیا ہے۔ یہ احتجاج ایک مقامی شخص کی متنازعہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیا گیا جس میں پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی ہے۔

لاہور کے نولکھا بازار میں گرودوارہ شہیدی استھان بھائی تارو جی سے متعلق ایک متازعہ ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں ایک مقامی شخص پاکستان میں سکھ برادری اور اس کے کچھ رہنماؤں کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کر رہا ہے۔

ویڈیو میں ایک نامعلوم شخص سوالات پوچھ رہا ہے اور اس کے جواب میں وہ مقامی شخص الزام لگا رہا ہے کہ ’سکھ برادری ایک مسجد سے متصل زمین کے پلاٹ پر ناجائز قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ زمین سکھ گرودوارے کی ملکیت تھی۔‘

اس ویڈیو میں نولکھا بازار کے عقب میں واقع لنڈا بازار کے قریب تاریخی گرودوارہ شہیدی استھان بھائی تارو جی سے منسلک زمین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ سکھ برادری کے لیے یہ ایک مقدس مقام ہے۔ اسی جگہ پر بھائی تارو جی کو 1745 میں ہلاک کیا گیا تھا۔

متنازع ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ’زمین مسجد کی ملکیت ہے اور یہ مدرسہ کے لیے مختص ہے‘۔ جبکہ سکھ برادری کا کہنا ہے کہ ’یہ جھگڑا زمین پر قبضے کا ہے جو کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کے مطابق گرودوارے کی ملکیت ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

گرودوارہ ننکانہ صاحب کے باہر نعرے بازی کرنے والا گرفتار

’میرے لیے تو ایسا ہی ہے جیسے میں اپنے میکے آئی ہوں‘

گرودوارہ کرتارپور:3 کلومیٹر کا فاصلہ،7 دہائیوں کی مسافت

انڈیا کی ’تشویش‘

انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شریواستو نے گرودوارہ شہیدی استھان کے حوالے سے انڈین میڈیا کے سوال کے جواب میں کہا کہ اس واقعے پر پاکستان ہائی کمیشن سے سخت اجتجاج کیا گیا ہے۔

’گرودوارہ ایک عقیدت کا مقام ہے اور سکھ برادری اسے مقدس سمجھتی ہے۔ اس واقعے کو انڈیا میں شدید تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور پاکستان میں اقلیتی سکھ برادری کے لیے انصاف کی اپیل کی گئی ہے۔‘

انوراگ شریواستو نے مزید کہا کہ ’انڈیا نے اس واقعے پر سخت الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے اور فوری طور پر اس معاملے کو حل کرے۔‘

سکھ برادری کا رد عمل

پاکستان میں سکھ گرودوارہ بندھک کمیٹی کے صدر ستونت سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اس واقعے پر ’پوری دنیا کے سکھ افسردہ اور دکھی ہیں‘۔ ستونت سنگھ نے مزید کہا کہ ’یہ ویڈیو حکومت پاکستان کی پالیسی اور وزیر اعظم عمران خان کے اقلیتوں کے حقوق اور بھائی چارے کے نظریے کے خلاف ہے اور یہ ایک شخص کا انفرادی عمل ہے۔‘

ستونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’دراصل یہ معاملہ زمین ہتھیانے کا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مزار سے منسلک ایک پلاٹ ہے جس کی ملکیت سکھ برادری کے’شہیدی استھان‘ کی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اراضی پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ہم اسے برداشت نہیں کریں گے، لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے ردعمل ظاہر کیا تو اس سے ملک میں سکھ مسلم بھائی چارے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

ستونت سنگھ نے بتایا کہ انھوں نے متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین سے بات کی ہے اور وہ دوسرے اداروں سے بھی رابطے میں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سکھ برادری ان لوگوں کے خلاف کھڑی ہو گی جو اقلیتوں کے بارے میں وزیر اعظم کے نظریے کو سبوتاژ کرنے اور مسلمانوں اور سکھوں کے مابین ہم آہنگی اور دوستی کے رشتے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’ہمیں پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں کی کوششوں کو دھیان میں رکھنا چاہیے، ویڈیو ایک فرد نے بنائی ہے، ہم اس فرد سے معاملہ کرسکتے ہیں لیکن یہ ہماری اقدار کے منافی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے ریاستی ادارے سکھ برادری کا معاملہ سنبھالیں اور سلجھائیں۔‘

متروکہ وقف املاک بورڈ کا موقف

متروکہ وقف املاک بورڈ نے متنازعہ ویڈیو میں موجود شخص کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کے ترجمان عامر ہاشمی نے بی بی سی کو بتایا کہ جس زمین پر تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ متروکہ وقف کے زیر انتظام ہے اور گرودوارے کی ملکیت ہے۔

انھوں نے بتایا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ نے اس سلسلے میں لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز اور ایف آئی اے کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لاہور کا ایک مقامی رہائشی ’متنازعہ ویڈیو بنا کر پاکستان کو بدنام کر رہا ہے۔‘

متروکہ وقف املاک بورڈ کے سیکریٹری ثناءاللہ خان نے اپنے خط میں اس متنازعہ ویڈیو کو سکھ برادری اور حکومت پاکستان کے خلاف ’بے بنیاد پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’کرتارپور راہداری کی کامیابی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی تعریف کے بعد ملک کو بدنام کرنے کے لیے ریاست مخالف عناصر کی جانب سے سازشوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔‘

ثناء اللہ خان نے اپنے خط میں کہا ہے کہ مقامی شخص اور اس کے ساتھی ’تاریخی گرودوارہ تارو سنگھ کے خلاف لوگوں کو اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ انڈین میڈیا اس بے بنیاد پروپیگنڈے پر مبنی ویڈیو کو عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

تاہم پولیس یا کسی بھی سکیورٹی ادارے کی جانب سے اب تک کسی باضابطہ کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا نہ ہی اس ضمن میں کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اس جگہ کا تاریخی سیاق و سباق

اٹھارویں صدی کے آغاز میں مغل دور کے دوران یہاں مسجد واقع تھی۔ لیکن سکھوں نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اسی جگہ سکھ مذہب کے جنگجو بھائی تارو سنگھ کی یاد میں ایک گرودوارہ تعمیر کیا تھا جنھیں مغل گورنر نے قتل کیا تھا۔

جب انگریزوں نے پنجاب کا اقتدار سنبھالا تو یہ معاملہ کئی سطحوں پر عدالت میں گیا لیکن یہ ایک گرودوارہ ہی رہا۔ سنہ 1935 میں مسجد کا ڈھانچہ مسمار کر دیا گیا جس کی وجہ سے لاہور میں کچھ ماہ تک بدامنی پھیل گئی تھی۔

تاہم 1940 میں برطانوی ہند کی اعلیٰ اپیل عدالت ’پریوی کونسل‘ نے سکھ برادری کے حق میں فیصلہ دیا اور اس جگہ کا قبضہ ان کے پاس رہا۔ برطانوی پریوی کونسل نے فیصلے میں کہا کہ اس جگہ پر برسوں سے گرودوارہ موجود ہے اور اسے ہٹانے کا دعویٰ مقررہ مدت میں دائر نہیں کیا گیا۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی یہ معاملہ متنازعہ رہا اور سنہ 1988 میں لاہور ہائی کورٹ نے شواہد کی عدم موجودگی میں فیصلہ کیا کہ یہ زمین گرودوارے کی ہے۔

فی الحال اس جگہ کی دیکھ بھال اور انتظام متروکہ وقف املاک بورڈ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp