تحفظ بنیادِ اسلام بِل سے شیعہ علما کو واقعی اختلاف ہے؟


پنجاب اسمبلی سے تحفظِ بنیادِ اسلام بل منظور ہوا، جو اب تنقید کی لہروں پر تیرتا ڈھولتا اسلامی نظریاتی کونسل کی دیواروں سے ٹکرا گیا ہے۔ یہاں سے یہ سیلابِ بلا خیز کس کے گھر جائے گا اس بات کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ البتہ سبھی کو ہے کہ پانی جب گزرتا ہے تو استثنا کسی کو نہیں دیتا۔ جھونپڑی پر عباس کا علم لگا ہو یا نعلینِ پاک کا نقش کھنچا ہوا ہو، خس وخاشاک کی طرح سب کو بہا کر لے جاتا ہے۔

آگ نے کبھی آگ لگانے والے کو بھی ضمانت نہیں دی کہ اُس کا گھر نہیں جلے گا۔ ہم سخی بادشاہ لوگ ہیں آگ لگا کر بھول جاتے ہیں۔ آگ جب ہمارے ہی دامن سے لپٹتی ہے تو واقعے کے پیچھے تیسرا ہاتھ، بیرونی ہاتھ اور سازشی ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسے ذمہ داروں کے نشان جماعت کی آستینوں میں اور ہمارے گریبانوں میں موجود ہوتے ہیں۔ ان دو مقامات پر نہ ملیں تو ناک کے نیچے اور چراغ تلے ضرور موجود ہوتے ہیں۔ کالم کی اِس تنگنائے کو کچھ دیر کے لیے خود احتسابی کا کچھ ایسا ہی کٹہرا سمجھ لیجیے جس میں سانحوں کے پیچھے اپنے ہی ہاتھ کی نشاندہی کی جائے گی۔

ہم نے کوئی چار عشرے پہلے ملک کے سرحدی علاقوں میں جہاد کی نرسریاں لگائی تھیں۔ انواع واقسام کے سانب ہم نے وہاں اس اطمینان کے ساتھ جمع کیے کہ وہ پڑوس میں پھنکارتے پھریں گے اور ہم بے فکری اوڑھ کے سوتے رہیں گے۔ پڑوس میں رزق سمٹ گیا تو چلتے پھرتے وہی سانپ ہمارے در وبام پر پھن پھیلا کر بیٹھ گئے۔ انہیں بھوک لگی تو نانگا پربت کی سفید چوٹیوں سے لے کر کراچی کے فضائی اڈوں تک خون کی سرخ لکیر کھینچ دی۔ وحشت کے اس عشرے میں زندگی نے پاوں سمیٹے اور قبرستان میں جا کر آباد ہوگئی۔ سوال ہوا تو ہم نے کہا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں بھارت، امریکہ، افغانستان اور اسرائیل ملوث ہیں۔ حالانکہ ہمیں بتانا چاہیے تھا کہ اس میں وہ اصول ملوث ہیں جو کسی کی گردن مارنے سے متعلق مذہبی احکامات کی تشریح کرتے ہوئے ہم نے خود طے کروائے تھے۔

جنرل ضیا الحق اور ان کے خلفا نے توہین مذہب کے آئینی و قانونی پھندے اس خیال سے تیار کیے تھے کہ ہم اپنا ایوان محفوظ کرلیں گے اور مخالفین پر ان کے حلقے تنگ کر دیں گے۔ آپا نثارفاطمہ جب اسلام کے قلعے کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے کے لیے توہینِ مذہب کا بِل پارلیمان میں پیش کررہی تھیں تو یہ دیکھنے سے عاجز تھیں کہ یہ آگ اُن کے اپنے گھر سے ابھی بہت دور سہی، لیکن جب بات نکلے گی تو ان کے اپنے گھر تلک جائے گی۔ ربع صدی بعد وہ بد بخت دن بھی لیا کہ ایک آہوئے رمیدہ نے نارووال میں آپا نثارفاطمہ کے سگے بیٹے احسن اقبال پر گولی چلادی۔ احسن اقبال فرماتے ہیں کہ یہ گولی مجھ پر میرے دشمنوں نے چلائی ہے۔ یہ سوال ناگوار گزر سکتا ہے مگر پوچھنے دیجیے کہ اِس گولی کا ایصالِ ثواب آپا نثار فاطمہ کے علاوہ اگر کسی اور کو کیا جائے تو کس منطق کی بنیاد پر کیا جائے؟

ہم نے جیتے جی یہ بھی دیکھا کہ فوج کی سالاری تک کے لیے حتمی نام آنے سے پہلے عقیدوں کی میزانیں لگ گئیں۔ سالاری کا حلف اٹھاتے ہی سپہ سالار کو کیمروں کی چکاچوند میں قرآن خوانی کرانی پڑی۔ پارسائی کا یقین دلانے کے لیے خوش عقیدہ شخصیات کو پہلو میں بیٹھانا پڑا۔ قدسیوں کا دل جیتنے کے لیے روضہ رسول پر فوٹو شوٹ کرانے پڑے۔ فرزند کی شادی کی تقریب کو میلاد کی محفل میں اور ولیمے کو سیرت النبی کانفرنس کے منظر میں بدلنا پڑا۔ کہنے والوں نے کہا کہ یہ حالات کچھ ایسے بدنیت لوگوں نے پیدا کیے جنہیں مملکتِ خدا داد کا ناقابلِ تسخیر دفاعی نظام کھٹکتا ہے۔ تو کیا ان بدنیت لوگوں سے مراد وہ سارے زندہ و مردہ عسکری دماغ ہیں جنہوں نے نصف صدی کی محنت سے جغرافیائی سرحدوں کے گرد نظریاتی سرحدوں کی بھاڑ لگائی ہے؟

آصف اشرف جلالی نامی لاہور کے ایک مولوی ایمانومیٹر اٹھائے ہر دوسرے شخص کا ایمان جانچتے تھے۔ تین برس قبل وہ لاہور کی مرکزی شاہراہ پر صوبائی وزیر کا استعفی اس لیے مانگ رہے تھے کہ وہ خدا کے دین کا گستاخ ہے۔ تھانے کا گھیراو کر کے گجرات کے ایک پروفیسر کو اس لیے جیل میں ڈلوا دیا کہ اس نے شعائرِ اسلام کی توہین کر دی ہے۔ بہاولپور کی یونیورسٹی میں ایک پراگندہ طبع طالب علم نے اپنے استاد کو قتل کیا تو مولوی صاحب مطمئن ہوئے کہ اسلام کا قلعہ محفوظ ہے۔ آج وہی جلالی صاحب گستاخی کے اسی قانون کے تحت لاہور کی ایک جیل میں عشق کی بھاری چکی پیس رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ توہین اور گستاخی کی یہ ایف آئی آر مخالفین نے ان پر درج کروائی ہے، لیکن ہلکا سا اگر غور فرمائیں گے تو اندازہ ہوگا کہ یہ ایف آئی آر پچھلے آٹھ برس سے وہ مسلسل چیخ چلا کر اپنے خلاف کاٹتے چلے آرہے تھے۔ بس ان کا خیال یہ تھا کہ ہماری لگائی ہوئی آگ آسیہ مسیح کی کٹیا جلا کر جب آگے بڑھے گی تو ہمارے آستانے سے کنی کترا کے جنید حفیظ کے گھر کی طرف نکل جائے گی۔ کیوں صاحب، آگ بھی کسی کی مرید ہوتی ہے کیا؟

اس ملک میں مذہب کی نمائندہ آوازیں اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ غیر مسلم شہری وزارتِ عظمی یا صدارت کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتے۔ انہیں لگتا ہے کہ کسی حساس منصب پر غیر مسلموں کی تعیناتی ملک کے دفاع کو کمزور کرسکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ غیر مسلم شہری بیچ بازار میں لوگوں کے بیچ اپنے مذہب کی آزادانہ تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ان کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ملتان کے ایک قدیم تاریخی مندر کو کسی دینی مدرسے کا باورچی خانہ بنا لینا کچھ ایسی غلط بات نہیں۔ ایسے میں ایک سوال سامنے آجاتا ہے کہ انڈیا میں بابری مسجد کس نے گرائی؟ کہنے کو تو وہ انتہا پسند ہندووں نے گرائی ہے، مگر پاکستان کے سب سے بڑے مفتی حضرت مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلام آباد والے مندر میں رکاوٹ ڈال کر دراصل یہ اعتراف کیا ہے کہ بابری مسجد کو زمین بوس کرنے والا اور کوئی نہیں تھا، ہم ہی تھے۔ یعنی ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات سے ہم اصولی طور پر اتفاق ہی رکھتے ہیں۔

آج ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی نے جس تکفیری بچے کے ہاتھوں میں فیصلے کی کنجی تھمائی ہوئی ہے اس کا تعلق سپاہ صحابہ سے ہے۔ سپاہ صحابہ کی اول و آخر پہچان یہ ہے کہ ملک میں اس نے فتووں کی صنعت لگائی اور نفرت کا بیوپار کیا۔ شہر کے معززین پر آتے جاتے آوازے کسے اور توہین و گستاخی کے پرچوں سے دیوان کے دیوان بھرے۔ لیہ شہر میں پچھلے آٹھ ماہ سے اسی جماعت کا اپنا صدر مفتی توہینِ اہلِ بیت کے مقدمے میں جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔ اب کہتے ہیں کہ صدر مفتی پر یہ مقدمہ ہمارے مخالفین نے کروایا ہے۔ جبکہ پنجاب اسمبلی میں تحفظ بنیادِ اسلام بل پیش کرکے وہ تاریخ کے ریکارڈ میں یہ اعتراف درج کر رہے ہیں کہ یہ مقدمہ ہم نے بقلمِ خود کروایا ہے۔

آج شیعہ علمائے کرام پنجاب اسمبلی میں آنے والے بل پر سیخ پا ہیں۔ بالکل جائز ہے، مگر ان علمائے کرام کے بیچ ایک سروے فارم تقسیم کرکے پوچھنا چاہیے کہ امتناعِ قادیانیت ایکٹ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ پوچھنے کو یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ایران میں بہائی مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ ہونے والے سیاسی و مذہبی جبر کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، مگر رہنے دیتے ہیں۔ یقین کی حد تک امید کی جانی چاہیے کہ اکثریتی شیعہ علمائے کرام فرمائیں گے کہ احمدیوں کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ وہ اس لیے کہ احمدیوں کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہوا وہ تمام علمائے کرام اور پارلیمنٹ کے اتفاق رائے کے ساتھ ہوا تھا۔ جب وہ ایسا کہیں، تو انہیں بتانا چاہیے کہ آج پنجاب اسمبلی میں جو لوگ کھڑے ہو کر بل پیش کررہے ہیں وہ اپنی شناخت کے حوالے سے سپاہ صحابہ کے لوگ ہیں مگر تاریخی تسلسل میں دراصل وہ آپ ہی ہیں جو اپنے خلاف کھڑے ہیں۔

اب اگر بات اسلامی نظریاتی کونسل میں چلی گئی ہے تو وقتی طور پر آپ کو یقینا سانس لینے کی سہولت مل جائے گی۔ خیرات کی یہ سانسیں ملتے ہی کچھ دیر تنہائی میں بیٹھ کر سوچیے گا کہ سانس لینے کی یہ آزادی آپ کو کس بنیاد پر دی گئی ہے۔ اگر علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ لکھنے نہ لکھنے کی اجازت آپ کو اس لیے ملی ہے کہ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنا آپ کا بنیادی انسانی حق ہے، تو مبارک ہو آپ جیت گئے۔ اگر یہ اجازت اس لیے ملی ہے کہ پاکستان کے بالادست عقیدے کے اندر سے اِس کے لیے گنجائش نکل آئی ہے، تو پھر خبر ہو کہ آپ تحفظِ بنیادِ اسلام جیسے بِل سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں۔

سوچیے اور خوب سوچیے کہ کل کلاں کو اگر انہی کونسلوں میں آپ کا کوئی ایسا عقیدہ زیر بحث آجائے جو پاکستان کے بالادست عقیدے کے لیے بھی قابلِ قبول نہ ہو، تب کیا کریں گے؟ تب بھی مذہبی بنیادوں پر حق مانگیں گے یا پھر انسانی حقوق کے اس اصول پر مانگیں گے جو فطرت کے اوراق پر ہمیشہ سے درج ہے۔ “ہر انسان عقیدے کی آزادی کا مکمل حق رکھتا ہے۔ عقیدے کی حقانیت کسی عدالت یا پالیمنٹ میں نہیں، فرد انسانی کے ضمیر مین روشنی دیتی ہے۔” برسوں کا سیکھا ہوا آج ہی بھلا دیا جائے، یہ تو ممکن نہیں ہے۔ آج ہی سے سوچنا شروع کردیا جائے، کیا یہ بھی ممکن نہیں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments