5 اگست: کشمیر میں لاک ڈاؤن کا ایک برس


” اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انھی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گنہگار ہیں، اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔“

سورہ انفال کی یہ آیت پڑھی تو میں ٹھہر سی گئی۔ دوبارہ پڑھی، سہ بار پڑھی۔ اور اس آیت کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنے لگی۔ 5اگست 2020 ء کو کشمیر میں لاک ڈاؤن کو ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ ایک سال۔ ۔ ۔ یعنی 365 دن۔

5اگست 2019 ء کو مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت کی گارنٹی دینے والی آئینی شق دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو گزشتہ سال مودی سرکار نے بیک جنبش قلم ختم کر دیا۔ ان آئینی شقوں کی رو سے مقبوضہ وادی میں کسی غیر کشمیری کو زمین خریدنے یا وہاں کی شہریت حاصل کرنے کی اجازت نہیں،

کشمیریوں کی زندگی تو پہلے بھی آسان نہ تھی اس لاک ڈاؤن نے نظام زندگی مفلوج کر دیا۔
مارکیٹ، بزنس اور پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی، ادویات کی کمی کی وجہ سے مریض جان سے ہاتھ دھونے لگے۔

علاقے میں کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت ہو گئی۔ جبکہ باہمی رابطے کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال بھی ممنوع قراردیا۔ غرض یہ کہ انسانی حقوق کو پامال کر دیا گیا۔ قدموں تلے روند دیا گیا۔ اور اگر کسی نے احتجاجی آواز بلند کی تو اسے مولی گاجر کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو قید کیا جاتا ہے، بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے، عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے اور عالم اسلام غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار بھی چپ کی بکل مارے بیٹھے ہیں۔

حدیث کا مفہوم ہے کہ

اگر کوئی برائی دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روکو اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو زبان سے روکو اگر زبان سے بھی نہیں روک سکتے تو اسے اپنے دل سے برا جانو اور یہ ایمان کاکمزور درجہ ہے،

اب ہم مسلمان ایمان کے کون سے درجے پہ ہیں؟

پاکستان نے انگلی کٹوا کے شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کی۔ اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کی (عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا) ۔ لیکن عالم اسلام میں سے کوئی بھی حمایت کو آگے نہ بڑھا۔ تمام اسلامی ممالک نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ مستزاد اس کے بھارت سے معاہدے کیے ۔

پھر اللہ تعالی نے، جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کے معنی سمجھا دیے۔ کرونا کا فتنہ نازل کر دیا گیا، خاص و عام کا فرق کیے بغیر۔ ۔ ۔ تمام لوگوں پر۔

کشمیری گھروں میں قید ہوئے، اللہ نے پوری دنیا کو محصور کر دیا، دنیا کے تمام سائنسدان، دوائیاں، ڈاکٹری سب فیل ہو گئی، ماں باپ، بہن بھائی ایک دوسرے سے ملنے سے بھی گئے، معاشی نظام تباہی کے دہانے پہ آ گیا۔ ہر طرف بے بسی ہی بے بسی دکھائی دی۔

اب اس کی جو بھی توجیہہ پیش کی جائے (انسان کا بنایا ہوا ہے ) بے معنی ہے۔ بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ وائرس انسان کا بنایا ہوا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ اسی طرح جب اللہ سزا دینا چاہے تو ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ انسان سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جو اس کو تباہ کر دیتے ہیں۔

لیکن یہ صرف ایک جھلک تھی جو ہمیں دکھائی دی۔ افسوس! ہم نے ابھی بھی سبق نہیں سیکھا۔ ہم پرانی روش پہ چل رہے ہیں۔ ہم اپنے روئیے بدلنے کو تیار نہیں۔ خود غرضی اور بے حسی نے بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

اگر تمام اسلامی ممالک متحد ہو جائیں، تو کسی کی مجال نہیں کہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کے بھی دیکھے۔ لیکن بات ”اگر“ پہ آ کر رک جاتی ہے، ہم اس سے آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں۔ ہم صرف ”میں“ کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

نوجوان شاعر حسین احمد کی نظم ”پڑاؤ“ یاد آرہی ہے۔

”یہ آخری پڑاؤ ہے! رکو! یہاں رکے رہو!“
اس اک صدا کو سن کے قافلے کے پاؤں تھم گئے
شروع دن سے قافلوں کا یہ چلن روا رہا
اگر کبھی
کسی جگہ بھی قافلے کے راہبر کو یوں لگے
کہ راستے میں کوئی شخص رہ گیا
یا چھٹ گیا
یا پھر کسی جگہ پہ کوئی رہزنوں سے لٹ گیا
اگر لگے
کہ بھوک نے غریب جاں کو کھا لیا
اگر لگے
غبار رہ نے راستہ چھپا لیا
اگر لگے
کہ چلتے چلتے بوڑھے لوگ تھک گئے
بھلے ہدف تھا جتنا اس کی آدھی راہ تک گئے
اگر لگے
کہ قافلے میں عدل کا چلن نہیں
اگر لگے
کہ سرد تن پہ کوئی پیرہن نہیں
تو راہبر کا کام ہے کہ قافلے کو روک دے
حصول منزل مراد اس قدر اہم نہیں
وہ زندگی ہی کیا کہ جس میں ”میں“ ہو اور ”ہم“ نہیں
یہ زندگی کا قافلہ رکا ہوا ہے اس لیے
کہ ان کو ساتھ لے چلیں جو راستے میں چھٹ گئے
یہ آخری پڑاؤ ہے!
اب اس سے آگے کچھ نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments