ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ میڈیکل سائنس میں ترقی کے باوجود پاکستان میں اوسط عمر روز بروز کم کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ یا کرپشن اس ملک کے عوام کا ایشو کیوں نہیں ہے؟

جب ریڑھی پر چھولے لگانے والا ایک عام پاکستانی املی آلو بخارے کی جگہ ٹاٹری استعمال کرتا ہے، چھوٹا چنا سوڈے سے پھلا کر موٹا کر دیتا ہے، شربت والا چائنہ کے فلیور لے کر پھلوں کا جوس بیچتا ہے اور چینی کی جگہ سکرین استعمال کرتا ہے، دکان دار تازہ ترین قیمت پر نئی قیمتوں کے سٹیکرز لگاکر اور ایکسپائر اشیاء کی تاریخ کو ناقابل شناخت بنا کربیچتا ہے، ٹھیکیدار سستے میٹیریل سے عمارتیں بناتا ہے، قصاب کبھی گدھا کھلاتا ہے اور کبھی مردار گوشت، مصالحے والا رنگ بیچتا ہے، مزدور مالک کی آنکھ دیکھ کر کام کرتا ہے،

مالک اپنے مال میں ملاوٹ میں مشغول ہوتا ہے، سبزی والا پانی چھڑک کر وزن بڑھاتا ہے، کسان کسی اور کا پانی چوری کرکے اپنا کھیت سیراب کرتا ہے،

دودھ میں پانی، سیمنٹ میں ریت، مرچوں میں اینٹ کا برادہ اور کوئلہ میں جلی لکڑی بک رہی ہے،

مرغی والا بیمار مرغیاں، بیوپاری مرنے کے قریب جانور اور تاجر کم وزن باٹوں پر بیچتا ہے ٹرانسپورٹر رشوت دے کر گاڑیوں کی فٹنس سرٹیفکیٹ لیتے ہیں دھویں کا ذہر اگل کر زائد کرایہ وصول کرتے ہیں دھوکہ دہی اور کرپشن مسجد کے محراب سے عدل کے ایوان تک ہر جگہ وافر مقدار میں دستیاب ہے المختصر جب ہم خود کرپٹ ہیں تب کرپشن ہم عوام کا ایشو کیسے بن سکتا ہے اگر ہم نے کرپشن کے عفریت سے جان چھڑانی ہے تو ہم عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں، جو کئی گنا سروں کا عفریت بن کر واپس ہماری طرف ہی پلٹتا ہے لہذا معاشرہ کی شکایت سے قبل ذات کی اصلاح اہم ہے

دوسرا سوال میڈیکل سائنس کی ترقی کے باوجود ہم پاکستانیوں کی اوسط عمر کم کیوں ہوتی جا رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چند ٹکوں کی خاطر انسانی جانوں سے کھیلنے والے مافیاز کے نرغے میں ہیں۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی روپرٹ کے مطابق انسانی جانوں سے کھیلنے والے اس مافیا نے منرل واٹر، مشروبات، سیرپ کی بوتلوں، بچوں کے فیڈرزاوردیگرگھریلو استعمال کی اشیا کورسک ویسٹ سے تیار کرنا شروع کر دیا ہے جو صحت کے لئے انتہائی خطر ناک ہے۔

صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر میں روزانہ کئی ٹن ہسپتالوں کی ویسٹ کو رولز کے مطابق تلف کرنے کے بجائے مافیا کو فروخت کر کے انسانی جانوں سے کھیلنے کا کاروبارکیاجا رہا ہے اس گھناؤنے کاروبار کو نالی تھیلی کے نام سے کیا جاتا ہے ۔ اس کاروبار میں، ہسپتالوں کا عملہ، سرکاری عملہ، بڑے کاروباری گروپ ملوث ہیں۔

لاہور میں منشی ہسپتال کے سامنے اور مصری شاہ میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے مال آتا ہے جبکہ شاد باغ، گندی بمبیاں، گلشن راوی، ساندہ، بند روڈ سمیت دیگر مختلف علاقوں میں گلی محلوں میں بنی ہوئی فیکٹریوں میں یہ رسک ویسٹ جاتا ہے جہاں پر اس کو کرش کر کے اس کا پلاسٹک دانہ بنایا جاتا ہے اور یہ پلاسٹک دانہ مختلف پلاسٹک بنانے والی فیکٹریوں کو فراہم کر دیا جاتا ہے جہاں پر منرل واٹر، مختلف مشروبات کی بوتلیں، ادویات کی بوتلیں، گھروں میں استعمال ہونے والے برتنوں، دودھ کے فیڈرز و نپل سمیت متعدد اشیا تیار کی جاتی ہیں۔ رسک ویسٹ کوری سائیکل کر لیا جائے تو اس پر بیکٹریا، وائرس، فنگس چپکے رہتے ہیں۔ اس پلاسٹک کے استعمال سے ایڈز، ہیپاٹائٹس ودیگربیماریوں کے پھیلنے کاخدشہ ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں گلی محلوں کے اندر اس وقت 300 سے زائد ایسی فیکٹریاں موجود ہیں جہاں پر رسک ویسٹ کو ری سائیکل کر کے خام مال تیار کیا جا رہا ہے۔ رسک ویسٹ ا س لیے زیادہ فروخت اور استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ خالص اورمعیاری پلاسٹک سے تیارہوتا ہے

اس سے قبل اک خبر سامنے آئی تھی کہ مردار جانوروں کی انتڑیوں ہڈیوں اور چربی سے گھی تیار کیا جا رہا ہے انسانیت کے درجے سے گرے ہوئے ان لوگوں کی کارستانیوں سے بچنے کے لئے عوام کی اکثریت معروف کمپنیز کے مہنگے گھی اور آئل استعمال کرنے پر مجبور ہیں مگر کرپشن دھوکہ دہی اور ملاوٹ شاید پاکستانیوں کے خون میں شامل یو چکی ہے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے مختلف ملکی اخبارات میں اک اشتہار شائع ہوا تھا جس کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی نے کوکنگ آئل اور گھی کے معیار کے جائزے کے لئے اک سروے کیا گیا اور نمونہ جات اکٹھے کیے گئے لیبارٹری کی تجزیہ رپورٹ سے واضح ہوا کہ آٹھ سے زائد مشہور و معروف نام رکھنے والے بناسپتی گھی وٹامن اے کی غیر موجودگی اور کم درجہ سپونیفیکیشن کی وجہ سے ناقص معیار کے حامل ہیں جبکہ سولہ سے زائد مشہور و معروف نام کے حامل آئل اور گھی مصنوعی ذائقوں کی ملاوٹ اور بلند شرح تیزابیت کی وجہ سے انسانی صحت کے لئے مضر ہیں

کبھی بھلے دور میں دودھ والے دودھ میں پانی ملانے پہ اکتفا کرتے تھے مگر پھر ایسے کئی کیسز سامنے آئے جس میں دودھ کو گاڑھا کرنے کے لئے دودھ جیسی پاک شے میں یوریا سرف اور بالوں کو صاف کرنے والا پاؤڈر جیسے زہر ملائے جا رہے تھے لوگوں نے مجبوراً معروف کمپنیز کے ڈبے والے مہنگے دودھ کا استعمال شروع کر دیا مگر ایسا بھلا کیسے ممکن ہے کہ پاکستانیوں کو خالص شے دستیاب ہو سکے۔ اعلیٰ عدالت میں اک کیس کے دوران مارکیٹ میں مشہور و معروف نام کے حامل ڈبہ بند دودھ سے گنے کا جوس اور انسانی صحت کے لئے مضر کیمیائی مادہ فارمولین نکلا تھا علاوہ ازیں صارف کی معلومات کے لئے ڈبے کے اوپر لکھے گئے اجزائے ترکیبی میں بھی دھوکہ ثابت ہوا ہے جس پر کمپنی کو دس لاکھ کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے

میڈیکل سائنس کی ترقی اپنی جگہ مگر ملاوٹ زدہ اشیا خورونوش زہر مار کرنے کے باوجود اگر ہم زندہ ہیں تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments