کائلی مور گلبرٹ: ایران میں جاسوسی کے الزام میں قید لیکچرار کو ایک بدنام زمانہ جیل میں منتقل کر دیا گیا


میلبرن یونیورسٹی کی لیکچرر کائلی گلبرٹ 2018 سے جیل کاٹ رہی ہیں

میلبرن یونیورسٹی کی لیکچرر کائلی گلبرٹ 2018 سے جیل کاٹ رہی ہیں

ایران میں جاسوسی کے الزام میں دس سال قید کی سزا کاٹ رہی برطانوی نژاد آسٹریلین خاتون کو ملک کے دور افتادہ صحرا میں قائم ایک بدنام زمانہ قید خانے قارچک میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

کائلی مور گلبرٹ ستمبر 2018 سے جیل میں ہیں۔ وہ جو میلبرن یونیورسٹی میں لیکچرر تھیں۔

ان پر مقدمہ مکمل راز داری میں چلایا گیا تھا لیکن ان کے خلاف جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ان سے انکار کرتی ہیں۔

آسٹریلیا کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ کائلی مور گلبرٹ کی حفاظت اور ان کی صحت کا ذمہ دار ایران کی حکومت کو ٹھہراتی ہے اور فوری قونصلر رسائی دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔

آسٹریلیا کے خارجہ امور اور تجارت کی وزارت نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر مور گلبرٹ کا معاملہ آسٹریلیا کی حکومت اور تہران میں آسٹریلوی سفارت خانے کی ترجیحات میں شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

خاتون لیکچرار نے ایران کی ’جاسوسی کی پیشکش کو ٹھکرایا‘

نازنین زغاری کو’ سفارتی تحفظ‘ دینے پر غور

ایران میں برطانوی خاتون کی سزا کے خلاف اپیل مسترد

آسٹریلیوی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایرانی حکام نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے آنے والی ان خبروں کی تصدیق کی تھی کہ ڈاکٹر مور گلبرٹ کو بدنام زمانہ قارچک جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس جیل میں عموماً سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے اور اس جیل میں قید کاٹنے والوں کے مطابق ’اس جیل میں حالات ناقابل بیان‘ ہیں۔

ڈاکٹر مور گلبرٹ کی صورت حال کیا ہے

ڈاکٹر مور گلبرٹ کی ایک دوست کے مطابق قارچاک جیل منتقل کیے جانے سے قبل انہوں نے دارالحکومت تہران کی جیل ایوین کی ایک کوٹھری میں دو سال فرش پر سو کر گزارے۔

اس دوران ڈاکٹر مور گلبرٹ کو قید تنہائی میں بھی رکھا گیا جہاں انھوں نے احتجاجاً بھوک ہڑتال بھی کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھیں اس دوران تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ایران میں جاسوسی کے الزام میں قید ایک اور برطانوی خاتون نازنین زغاری ریڈکلف کے شوہر نے منگل کو کہا کہ قارچاک کا قید خانہ وہ جگہ ہے جہاں ایران کی حکومت ان ’خواتین سیاسی قیدیوں کو بھیجتی ہے جن کو وہ اپنے سیاسی نظریات بدلنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔‘

رچرڈ ریڈ کلف نے کہا کہ ’قارچک کا قیدخانہ صحرا کے وسط میں واقع ہے جہاں صاف پانی میسر نہیں ہے، خوراک بہت ناقص دی جاتی ہے اور جہاں منشیات عام ہے اور قیدیوں نے گینگ بنا رکھے ہیں۔ اس قید خانے میں بستر کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘

مسز نازنین زغاری ریڈکلف ڈاکٹر مور گلبرٹ سے اظہار یکجہتی کے لیے بھوک ہڑتال پر ہیں۔

ایران میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر ہادی کلیمی کا کہنا ہے کہ ’قارچاک کی جیل وہ جگہ ہے جہاں عام مجرموں کو قید رکھا جاتا ہے۔ اس جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں اور ان میں سے کئی بہت خطرناک مجرم ہیں۔‘

ڈاکٹر مور گلبرٹ ماضی میں یہ بیان دے چکی ہیں کہ انہوں نے رہائی کے بدلے ایرانی حکومت کے لیے جاسوسی کرنے کی پیشکش رد کر دی تھی، اس بارے میں ہادی کلیمی نے کہا ہے کہ ’حکام ڈاکٹر مور گلبرٹ کے مضبوط اعصاب اور ان کے تعاون سے انکار پر خوش نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر مور گلبرٹ کے ایک فیملی فرینڈ نے بی بی سی کی نامہ نگار کیرولین ہاولے کو بتایا کہ ڈاکٹر مور گلبرٹ سمجھتی ہیں کہ انہیں ’تنہا چھوڑ دیا گیا ہے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘آسٹریلیوی حکومت اس بارے میں اتنی دلچسپی نہیں لے رہی۔ ڈاکٹر مور گلبرٹ کے پاس پیسے نہیں ہیں جن سے وہ جیل کے اندر کچھ خرید سکیں۔‘

آسٹریلیوی امور خارجہ اور تجارت کی وزارت کے مطابق تہران میں آسٹریلوی سفیر ڈاکٹر مور گلبرٹ سے جیل میں جا کر ملے تھے اور گزشتہ چند ماہ سے ان سے فون پر رابطے میں بھی ہیں۔

انہوں نے اپنی قید کے بارے میں کیا کہا ہے؟

ڈاکٹر مور گلبرٹ نے انسانی حقوق کے ایک سرگرم ایرانی کارکن کو اس ہفتے ایک فون کال پر بتایا کہ وہ اپنے گھر والوں سے گزشتہ ایک ماہ سے بات نہیں کر سکیں ہیں۔ انسانی حقوق کی وکیل نسرین سوتودہ کے شوہر رضا کاندان نے فیس بک پر اپنے صفحے پر لکھا تھا کہ ’مور گلبرٹ کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔‘

ایران کی ایوین جیل سے اس سال جنوری میں سمگل کیے جانے والے خطوط میں مور گلبرٹ نے لکھا تھا کہ وہ کبھی جاسوس نہیں تھیں اور وہ اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ انہیں ایران کے لیے جاسوسی کرنے کی پیش کش ہوئی تھی جسے انہوں نے رد کر دیا ہے۔

‘میں جاسوس نہیں ہوں اور نہ ہی کبھی جاسوس تھی اور نہ ہی مجھے اپنے ملک میں کسی دوسرے ادارے کے لیے جاسوسی کرنے میں دلچسپی ہے۔’

انہوں نے مزید لکھا تھا کہ وہ اپنی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ‘میں شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوں جو کہ اپنے گھر والوں سے فون پر بات کرنے پر پابندی کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔’

ڈاکٹر مور گلبرٹ کا اصرا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور انہیں بلا وجہ سزا دی جا رہی ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹر مور گلبرٹ آسٹریلیا کے پاسپورٹ پر سفر کر رہی تھیں اور انہیں تہران کے ایئرپورٹ پر سنہ 2018 میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ ایک کانفرنس میں شرکت کر کے لوٹ رہی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp