پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس کتنا سنگین مسئلہ ہے؟


ہراسانی

’انھوں نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ رشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں، ایسا رشتہ جس میں کوئی حد مقرر نہ ہو، میں نے انھیں کہا کہ سر آپ میرے استاد ہیں ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں، انھوں نے کہا کہ آپ مجھے استاد نہ مانیں کیونکہ میں آپ کو ایک طالب علم نہیں سمجھتا۔‘

’میں نے انھیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ وہ میرے ساتھ ایک جسمانی رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ میرا فِگر رومانوی اور پُرکشش ہے۔‘

میں نے ایک مرتبہ پھر انھیں کوئی جواب نہیں دیا اور چند روز بعد مجھے یہ کچھ پڑھنے کو ملا: ’کیا آپ میرے ساتھ ہوٹل میں تین راتیں گزار سکتی ہیں؟‘ ’کیا آپ میرے ساتھ سو سکتی ہیں؟‘ ’کیا آپ میرے ساتھ بغیر کسی حد کے رشتہ قائم کر سکتی ہیں؟‘

یہ الفاظ صنوبر (فرضی نام) نامی ایک طالبہ کے ہیں جنھوں نے سنہ 2019 میں اپنے ساتھ پیش آنے والے مبینہ جنسی ہراسانی کے واقعے کی تفصیلات بی بی سی کے ساتھ شیئر کی ہیں۔

گذشتہ ماہ سوشل میڈیا پر متعدد طلبہ نے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات پر آواز اٹھائی۔

اس کی ابتدا لاہور گرامر سکول (ایل جی ایس) سے تعلق رکھنے والی طالبات نے اپنی شکایات سے کی، جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دیگر تعلیمی اداروں کی طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کی نشاندہی کرنا شروع کر دی۔

ان الزامات کو منظر عام پر آئے اب ایک ماہ گزر چکا ہے اور جہاں کچھ سکولوں نے سامنے آنے والے الزامات کی بنیاد پر کئی اساتذہ کو برطرف کیا، وہیں پولیس اور حکومت کو اس حوالے سے کوئی تحریری شکایت موصول نہیں ہوئی اور وہ یہ سوال پوچھتے دکھائی دیے کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے متاثرین آخر گئے تو گئے کہاں؟

آمنہ (فرضی نام) نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی اس مہم نے ہی انھیں یہ ہمت دی کہ وہ بی بی سی سے بات کر سکیں تاہم انھوں نے اس حوالے سے دوسری طالبات کے برعکس سوشل میڈیا پر آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی کسی قانونی فورم سے رابطہ کیا ہے۔

آمنہ نے بتایا کہ ’میرے گھر والوں کو اور بالخصوص میرے والد کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔‘

استاد کے طالبات کو ’قابلِ اعتراض پیغامات‘

لاہور کے ہی ایک نجی تعلیمی ادارے سے منسلک ایک درجن سے زائد طالبات نے اپنے استاد پر سوشل میڈیا کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے، جنھیں مذکورہ استاد کی جانب سے مسترد کیا گیا ہے۔

بی بی سی نے ان میں سے چار طالبات سے گفتگو کی، جن کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ جنسی ہراسانی کی نوعیت یقیناً ہر معاملے میں مختلف ہے مگر طالبات کے بیانات کے بہت سے پہلو ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔

ہراسانی

صنوبر کو مذکورہ استاد سے یہ پیغامات ایک طویل عرصے تک موصول ہوتے رہے اور ان کے بقول وہ انھیں نظر انداز بھی کرتی رہیں۔

جبکہ دیگر دو طالبات کی فراہم کردہ معلومات سے یہ پتا چلا کہ مذکورہ استاد کی جانب سے مبینہ طور پر کالج میں جمع کرائے گئے فارمز سے ہی ان لڑکیوں کے فون نمبر حاصل کیے گئے تھے۔

ماہرہ (فرضی نام) نے موصول ہونے والے پیغامات میں سے ایک کا حوالہ دیا اور کہا ’وہ کہتے تھے باقی سب میری بہنوں کی طرح ہیں پر تم میرے لیے خاص ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ کلاس میں یہی استاد ’غیر اخلاقی اور فحش‘ لطیفے سناتے تھے۔ اِن طالبات سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ استاد اپنی ازدواجی زندگی کے مسائل کا تذکرہ بھی اپنی سٹوڈنٹس سے کرتے تھے۔

آمنہ نے بتایا کہ مذکورہ استاد کے اٹینڈنٹ نے بھی انھیں فون پر نازیبا پیغامات بھیجے اور انتظامیہ کو شکایت لگانے پر انھیں کہا گیا کہ ’آپ نے فیس بک پر اپنی تصویر کیوں لگائی ہوئی ہے؟ وہ اسی کو دیکھ کر آپ کو یہ پیغامات بھیج رہے ہیں۔‘

یہ بتانا ضروری ہے کہ مبینہ ہراسانی کے واقعات تب پیش آئے جب یہ طالبات لگ بھگ 15 یا 16 سال عمر کی تھیں۔ ان میں سے کئی نے اس وقت صرف چند قریبی دوستوں کو اس کے متعلق بتانا مناسب سمجھا۔

جن طالبات سے بی بی سی سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ دوستوں سے یہ فحش پیغامات شیئر کرنے کے بعد ہی پتا لگا کہ وہ استاد اسی نوعیت کے پیغامات اور لڑکیوں کو بھی بھیجتے تھے۔

خود پر لگے ہراسانی کے متعدد الزامات پر مذکورہ استاد نے کہا کہ یہ سب انھیں بدنام کرنے کی ایک ’سازش‘ ہے اور انھوں نے اس سب کو ایک ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ان طالبات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ واقعات جس نجی تعلیمی ادارے میں پیش آئے ان کے سربراہ سے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ معاملہ بھی لاہور گرامر سکول میں سامنے آنے والی شکایات کی طرح قانونی اعتبار سے تو آگے نہ بڑھ سکا مگر ان شکایات نے معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی، ہراسانی سے متعلق قانون کے نہ ہونے اور انتظامیہ کی اس معاملے میں عدم دلچسپی پر بےتحاشہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ہراسانی

iStock

کون سے عوامل متاثرین کو سامنے آنے سے روکتے ہیں؟

ہاورڈ بزنس ریویو کی سنہ 2016 کی ایک تحقیق کے مطابق جنسی ہراسانی کے متاثرین ان معاملات کو انتقامی کارروائی کے خوف سے رپورٹ سے نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ کے مطابق معاشرے میں رائج پدرشاہی نظام بھی ان متاثرین کو سامنے آنے سے روکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ جیسے بین الاقوامی اداروں نے بھی پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی بارہا اپنی رپورٹس میں کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرنے والی بیشتر لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں ایسا کوئی شخص نہیں جس سے وہ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی اور ہراسانی کے بارے میں کھُل کر بات کر سکیں۔ جبکہ سبھی نے والدین کو بتانے کے سوال پر نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’والدین نہیں سمجھیں گے۔‘

ماہرہ نے اپنے گھر والوں کو اس حوالے سے اس لیے نہیں بتایا کہ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ’ویسے تو میں نے کچھ نہیں کیا تھا لیکن وہ یہ ضرور پوچھتے کہ کیا تمہاری طرف سے تو کوئی سگنل نہیں دیا گیا تھا؟‘

ان طالبات کے مطابق والدین کے سامنے ہراسانی تو دور کی بات اپنی جسمانی صحت کے بارے میں بھی سوچ سمجھ کر بات کرنی پڑتی ہے۔ انھیں یہ خوف بھی تھا کہ ایسے واقعات کے بارے میں بتانے کے بعد والدین انھیں پڑھائی چھڑوا کر گھر ہی نہ بٹھا دیں گے۔

فیملی کاؤنسلر اور ماہرِ ذہنی امراض مریم سہیل تقریباً دس سال سے ریپ اور ہراسانی کے شکار افراد اور ان کے والدین کی تھیراپی کر رہی ہیں۔

والدین کے بارے میں انھوں نے بتایا: ’یہ باتیں کچھ لوگوں کو کتابی لگتی ہیں۔ لیکن اگر آپ کے بچے کسی کے بارے میں بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اعتماد میں لیں۔ دوسری جانب اگر وہ کھل کر اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی بات ماننا آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔‘

مریم سہیل نے کہا کہ بچوں کو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی بیان کرنے نہیں آتی اس لیے وہ شرمندہ ہو کر اسے اپنی غلطی سمجھ لیتے ہیں اور کسی سے بھی بات نہیں کرتے۔ ان کے مطابق تھیراپی کے دوران اکثر بڑی عمر کے افراد بھی اسی کشمکش سے دو چار ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بچوں کے معاملے میں والدین کا کام ہے کہ وہ بچوں کے اچانک سے خاموش رہنے کو یا ہر وقت کمرے میں یا گھر میں بند رہنے کا کتنی جلدی اور کیا مطلب نکالتے ہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ اگر متاثرین کو سازگار ماحول نہ مل پائے تو انھیں کیا کرنا چاہیے، مریم سہیل کا کہنا تھا کہ ’اکثر، بلکہ زیادہ تر ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اپنے آس پاس ایک ایسا انسان ضرور ڈھونڈیں جس کو آپ اپنی تمام تر باتیں بلاجھجک بتا سکتے ہوں۔ یہ شخص کوئی دوست بھی ہو سکتا ہے یا رشتہ دار۔ سکول میں ہو سکتا ہے یا کالج یا آپ کے کام کی جگہ پر، جو آپ کو سمجھ سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے والدین میں ان معاملات پر خود بچوں سے بات کرنے کی سمجھ بوجھ کم ہوتی ہے، اسی لیے بچوں کو گھر سے باہر مدد تلاش کرنے پڑتی ہے۔

’یہ ایک سازش ہے‘

سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹس جن میں طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کا ذکر کیا اس کے نیچے درج کردہ کمنٹس میں چند ایسے بھی تھے جس میں ان طالبات کو بُرا بھلا کہا جا رہا تھا اور کچھ افراد ان کے الزامات کو ’جھوٹ کا پلندا‘ بھی قرار دے رہے تھے۔

آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا سے جب بی بی سی نے ان شکایات کے حوالے سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بظاہر ایک سازش ہے جو اداروں کو بدنام کرنے کے لیے یا می ٹو مہم جیسی بین الاقوامی مہم کے پس پردہ مقاصد پورا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا سینکڑوں طالبات کا شکایات کے ساتھ سامنے آنا معاشرے میں اس مسئلے کی سنگینی کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتا ہے، وزیر تعلیم پنجاب مراد راس کا کہنا تھا کہ ’بالکل بھی نہیں، میری رائے میں یہ تعداد بہت بڑی ہے اور اس طرح کے بہت سے معاملات ہوں گے۔‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp