حج 2020: محدود حج نے پوری دنیا میں کاروبار اور سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم افراد کو کیسے متاثر کیا؟


حج

اپنے سر کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے، سجاد ملک ناامید دکھائی دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کے شہر مکہ میں مسجد الحرام کے نزدیک ان کا ٹیکسی بکنگ کا دفتر ویران پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’کوئی کام نہیں، کوئی تنخواہ نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے۔‘

’میں اور میرے ساتھی ڈرائیور عام طور پر حج سے پہلے کے دو تین ماہ میں اتنا پیسہ کما لیتے تھے جو باقی سال کے لیے کافی ہوتا تھا، لیکن اب کچھ نہیں ہے۔‘

ان کے ڈرائیوروں میں سے ایک سمیع الرحمان مکہ کے مشہور کلاک ٹاور کی اطراف کی سڑکوں سے تازہ ترین صورتحال کی بابت آگاہ کرتے ہیں۔ انھیں عازمین حج کا سمندر اب نظر نہیں آ رہا، وہ عازمین حج جو عام طور پر گلیوں میں سفید لباس میں ملبوس کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور سورج کی تمازت سے بچنے کے لیے وہ چھتریاں تھامے نظر آتے ہیں۔

آج ڈرائیوروں کے پاس کوئی مسافر نہیں اور شہر ایک بھوت پریت کی بستی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سجاد کے ڈرائیورز انھیں کبوتروں سے بھری سڑکوں کی ویڈیوز بھیج رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

حج اس سال کون کرے گا، مناسک حج کی ادائیگی کتنی مختلف؟

سعودی عرب کا محدود حج کا اعلان، تاریخ میں حج کب کب منسوخ ہوا؟

عازمینِ حج کو جمع کرائے گئے پیسے واپس ملیں گے یا نہیں؟

سجاد کہتے ہیں ’میرے ڈرائیوروں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور دو لوگوں کے لیے بنائے گئے ایک کمرے میں اب چار سے پانچ لوگ رہ رہے ہیں۔‘

میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا حکومت ان کی کوئی مدد کر رہی ہے تو انھوں نے بتایا ’نہیں، کوئی مدد نہیں، کچھ نہیں۔ میں نے کچھ پیسے بچا کر رکھے تھے جو ہم خرچ کر رہے ہیں لیکن میرا سٹاف بہت زیادہ ہے، میرے ساتھ 50 سے زیادہ لوگ کام کر رہے تھے اور اب وہ مشکلات کا شکار ہیں۔‘

’کل میرے ایک دوست نے فون کیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ براہ مہربانی مجھے کوئی کام چاہیے، مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ آپ مجھے کتنے پیسے دیں گے۔ میرا یقین کریں، لوگ رو رہے ہیں۔‘

اس برس حج کے موقع پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر کہا ہے کہ دنیا بھر سے ہر برس مکہ آنے والے تقریباً 20 لاکھ عازمین حج کو اس بار آنے کی اجازت نہیں ہے۔

صرف سعودی عرب میں مقیم افراد ہی حج ادا کر سکتے ہیں جن کی تعداد صرف ایک ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے۔

عازمین حج کو زم زم کے مقدس کنوؤں سے آزادانہ طور پر پانی پینے کی بھی اجازت نہیں ہو گی اور ہر فرد کو الگ الگ پانی کی بوتل دی جائے گی۔ منا میں علامتی طور پر شیطان کو مارنے کے لیے جراثیم سے پاک کنکریاں دی جائیں گی۔

اس کے علاوہ قربانی کے لیے کینیا جیسے پڑوسی ممالک سے آنے والے جانوروں کی درآمد بھی متاثر ہوئی ہے اور بہت سے کسانوں کے پاس نہ بکنے والے مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ موجود ہیں۔

کینیا میں مویشیوں کا سیکٹر کافی بڑا ہے۔ کینیا لائیو سٹاک پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے پیٹرک کیمانی کہتے ہیں ’یہ ملک کے بیشتر گھرانوں کے لیے روزگار کا بنیادی ذریعہ ہے، خاص طور پر حج کے دنوں میں۔‘

وہ کہتے ہیں ’اوسطاً ان کے ممبران حج کے لیے پانچ ہزار مویشیوں کو سعودی عرب بھیجتے ہیں لیکن اس بار کسان اپنے مویشی مقامی مارکیٹوں میں ہی فروخت کر رہے ہیں۔‘

’ہمیں تشویش ہے کہ اس سے مقامی طور پر مویشیوں کی قیمت کم ہو جائے گی کیونکہ اس اضافی پیداوار کو فوری فروخت کے لیے مقامی خریداروں کو کم قیمت پر بیچا سکتا ہے۔‘

کورونا وائرس کے پیش نظر حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھنے اور صرف سعودی عرب میں ہی مقیم افراد کو حج کرنے کی اجازت دینے سے بہت سی ٹور آپریٹر کمپنیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔

گذشتہ سال حج کی ادائیگی کے لیے سب سے زیادہ لوگ پاکستان سے سعودی عرب گئے تاہم آج کراچی کے شہزاد تاج کی کمپنی ’چیپ حج اینڈ عمرہ ڈیلز‘ خاتمے کے دہانے پر ہے۔

وہ کہتے ہیں ’بنیادی طور پر صفر کاروبار ہے۔ حتیٰ کہ دوسری سیاحتی سرگرمیاں بھی نہیں ہو رہیں۔ جیسے کے پروازیں، سامان کی نقل و حمل وغیرہ، تو فروخت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ ہم اس کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تھے۔‘

’ہمیں اپنے سٹاف کو کم کرنا پڑا۔ اس وقت نے ہمیں اپنے اثاثے، گاڑیاں اور کچھ پراپرٹی فروخت کرنے پر مجبور کر دیا ہے تاکہ ہم اس سٹیج سے گزر سکیں۔ میں نے اپنی کچھ ٹیم کی ایمرجنسی فنڈ سے مدد کی لیکن اس وقت میں صرف یہی کر سکتا ہوں۔‘

پابندیوں کی وجہ سے اس برس مکہ اور مدینہ میں معاشی خلا پیدا ہو رہا ہے، جہاں عازمین حج کی وجہ سے اربوں ڈالر کا کاروبار آتا ہے۔

ریاض میں مالی خدمات کی کمپنی ’الرجہی‘ میں تحقیق کے سربراہ میزین السعودری کہتے ہیں ’اگرچہ سعودی حکومت کی جانب سے حج کی میزبانی پر ہونے والا زیادہ خرچ اس برس بچ جائے گا لیکن مکہ اور مدینہ میں تقریباً نو سے بارہ ارب مالیت کے کاروبار کو نقصان ہو گا۔‘

میزین السعودری کہتے ہیں کہ حکومت اس سلسلے میں مدد کر رہی ہے۔

’شاید چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار متاثر ہو رہے ہوں لیکن سعودی عرب کا مرکزی بینک مزید دو سے تین ماہ قرض کی ادائیگی میں ریلیف دے رہا ہے۔‘

’ہمیں یقین ہے کہ ہم بحالی کے سفر کی جانب گامزن ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بدترین دور گزر چکا۔‘

سعودی عرب کی قومی آمدنی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ تیل سے حاصل ہوتا ہے لیکن تیل کی قیمت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے، جس کے بعد ملک میں آمدن کے دوسرے ذرائع تلاش کیے جا رہے ہیں۔

موڈیز سوورین رسک گروپ کے الیگزینڈر پیرجیسی کے مطابق اس سب اقدامات کے باوجود معاملات ٹھیک نہیں چل رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’حکومت نے مارچ 2020 میں اعلان کیا کہ وہ تین ماہ کے لیے مختلف سرکاری ٹیکسوں کی وصولی ملتوی کر رہی ہے لیکن اس سے تیل کے علاوہ دیگر شعبوں میں مندی کو دور نہیں کیا جا سکتا۔‘

مکہ

مکہ میں اس برس عازمین حج کے لیے لگائے گئے کیمپ

مکہ میں بکنگ کی خالی سکرینوں کے سامنے بیٹھے سجاد ملک اس سب کے باوجود اپنے آبائی ملک پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے۔

سعودی عرب نے پڑوسی ممالک نے ان افراد کے لیے جو معاشی طور پر جدوجہد کر رہے تھے، کمائی کا ایک موقع پیدا کیا۔

وہ کہتے ہیں ’آٹھ برس سے زیادہ عرصہ سعودی میں کام کرنے سے میں اپنے بچوں اور خاندان کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہوا ہوں۔ ہمیں مفت طبی سہولیات ملتی ہیں اور حج کے دنوں میں بہت اچھی کمائی ہوتی ہے۔‘

’مزدور طبقہ اب بہت جدوجہد کر رہا ہے لیکن میرے لیے یہ ملک ابھی بھی نمبر ون ملک ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp