انور جان کھیتران کا مبینہ قتل: بلوچستان میں صحافی کے مبینہ قتل کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کیوں ہوئے؟


پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سنہ 2007 کے بعد سے میڈیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے صحافی اور کیمرہ مین مارے گئے ہیں۔ ان کے ہلاکتوں کے خلاف احتجاج بھی ہوئے مگر ان مظاہروں میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت نہیں کی جتنی بڑی تعداد میں لوگ صحافی انور جان کھیتران کے مبینہ قتل کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوئے ہیں۔

انور جان کھیتران کو 23 جولائی کو بلوچستان کے علاقے بارکھان میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔

ان کی ہلاکت کے خلاف سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ بارکھان میں اسی جگہ کیا گیا جہاں انھیں مبینہ طور پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

بارکھان کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والے مظاہروں میں بھی ان کے مبینہ قتل کی مذمت کی گئی اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔

اس واقعے کے بعد درج کی جانے والی ایف آئی آر میں ان کے بھائی نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ انور جان کو جن دو افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا وہ بلوچستان کے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے باڈی گارڈ ہیں، تاہم صوبائی وزیر نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سینسرشپ: ’حساس موضوعات کو ہاتھ نہ لگائیں‘

’میں آپ کے ماتھے پر چار گولیاں مار کر قتل کرسکتا ہوں‘

‘اغوا کاروں نے جب جھاڑیوں میں پھینکا تو کلمہ پڑھنا شروع کر دیا تھا’

بارکھان میں انور جان کھیتران کی مقبولیت کی وجہ کیا تھی؟

انور جان کھیتران کا تعلق بلوچستان کے پنجاب سے متصل سرحدی ضلع بارکھان سے تھا۔ وہ بارکھان شہر کے قریب گامبٹ نالہ نامی علاقے کے رہائشی تھے۔ بارکھان کوئٹہ شہر سے اندازاً پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔

وہ اگرچہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کسی بڑے ادارے سے منسلک نہیں تھے لیکن اپنے خیالات کا زیادہ تر اظہار سوشل میڈیا پر کرتے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے زمیندار تھے۔

ان کے بڑے بیٹے صدام نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ بارکھان ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں لوگ صحت، تعلیم اور دیگر حوالوں سے ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کو اس بات پر بہت زیادہ دکھ تھا کہ بارکھان کے لیے بہت سے فنڈز آتے ہیں لیکن وہ صحیح معنوں میں استعمال نہیں ہوتے جس کی وجہ سے لوگوں کے مسائل دور ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔

صدام نے بتایا کہ ان کے والد، جن لوگوں کو بارکھان کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے تھے، ان کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بھی بناتے تھے جس کی وجہ سے وہ لوگ ان سے ناراض تھے۔

صدام کے مطابق ان کے والد چونکہ وہ عام لوگوں اور ان کے مسائل کو اجاگر کرتے تھے اس لیے وہ علاقے کے لوگوں میں خاصے مقبول تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے قتل کے خلاف مظاہرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے مرحوم والد اور خاندان کے دیگر افراد نیشنل پارٹی کے ووٹر ضرور ہیں لیکن ان کا اس پارٹی سے سیاسی حوالے سے تعلق نہیں ہے۔

صدام کا کہنا تھا کہ کریم کھیتران بارکھان میں نیشنل پارٹی کے رہنما ہیں اور اگر ان کے والد کی نظر میں کریم کھیتران کا کوئی کام غلط آتا تو وہ انھیں بھی تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

’میرے والد کسی ایک شخص کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان تمام لوگوں پر تنقید کرتے تھے جن کو وہ لوگوں کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے تھے تاہم اگر ان مسائل کے حوالے سے جو لوگ زیادہ ذمہ دار تھے وہ ان پر زیادہ تنقید کرتے تھے۔‘

بارکھان میں ہم نیوز کے نمائندے حیات خان نے بتایا کہ انور جان راولپنڈی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’نوید پاکستان‘ سے وابستہ تھے لیکن میڈیا کے حوالے سے ان کا سب سے مؤثر پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہی تھا۔

انھوں نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتے تھے جس کی وجہ سے عام لوگ ان کو پسند کرتے تھے۔

حیات خان کا بھی یہ ماننا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد میں ان کے جنازے اور بعد میں ان کے قتل کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی بڑی وجہ یہی تھی کہ لوگ ان کو چاہتے تھے۔

انورجان کھیتران سوشل میڈیا پر کسے تنقید کا نشانہ بناتے تھے؟

انور جان کے فیس بک پیج پر موجود زیادہ تر پوسٹس ہیں اشعار اور دیگر ادبی مواد پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے بعض پوسٹس انقلابی اشعار اور جملوں پر بھی مشتمل ہیں۔

تاہم بعض پوسٹس ایسی بھی ہیں جن میں انھوں نے سرداری نظام کو لوگوں کے مسائل کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے مذکورہ صوبائی وزیر کو براہ راست شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایک پوسٹ میں انھوں نے بارکھان کے نوجوانوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ ’فرسودہ سرداری نظام، نجی جیلوں اور بھتہ خوری کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔‘

قتل کے مقدمے میں کن لوگوں کو نامزد کیا گیا؟

انور جان کے قتل کا مقدمہ ان کے بھائی کی مدعیت میں لیویز تھانہ بارکھان میں درج کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے درج ایف آئی آر کے مطابق انور جان کو بارکھان سے گھر جاتے ہوئے مبینہ طور پر دو افراد نے رکنے کا اشارہ کیا۔ جب انھوں نے اپنا موٹر سائیکل اُن کے قریب روکا تو انھوں نے اُن پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔

درج ایف آئی آر کے مطابق انور جان کو ہلاک کرنے والے دونوں ملزمان صوبائی وزیر کے باڈی گارڈ ہیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سردار عبد الرحمان کھیتران کا ان سے وجہ عناد صحافت تھی اور وہ انور جان کو کہتے تھے کہ وہ صحافت سے باز آجائیں۔

سردار عبدالرحمان کھیتران کا مؤقف

بلوچستان کے وزیر خوراک سردار عبدالرحمان نے اپنے خلاف انور جان کے قتل کے الزام کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

انھوں نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ شخص صحافی نہیں تھا بلکہ وہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو بلیک میل کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگ اس سے ناخوش تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کا انور جان سے کوئی عناد یا دشمنی نہیں تھی۔

سردار عبد الرحمان کھیتران نے کہا کہ قتل کے اس واقعے کو ان کے سیاسی رقیب ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب گذشتہ انتخابات میں ان کے سیاسی حریفوں نے بے بنیاد الزامات کے تحت ان کو گرفتار کرایا لیکن عدالت نے انھیں تمام تر الزامات سے بری کیا۔

وزیر خوراک کا کہنا تھا کہ اب قتل کا یہ جو واقعہ پیش آیا ہے تو یہ سیاسی حریفایک مرتبہ پھر متحرک ہو گئے ہیں اور وہ اس حوالے سے ان پر ایک مرتبہ پھر الزامات لگا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران طویل عرصے سے ضلع بارکھان سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف میں بھی رہے ہیں لیکن زیادہ تر وہ حکومتوں کا ہی حصہ رہے ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp