یہ مقام ہے بابا عشق کا، یہاں ننگے پاؤں چلا کرو


یہ بات سچ ہے کہ کئی دہائیوں کے کڑے اور تھکا دینے والے مسلسل سفرکے بعد اردو غزل کی انگڑائیاں ابھی تک بھی بدستور جاری ہیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد وطن کی مٹی کی حفاظت کے لیے جہاں ہر محکمے اور ادارے نے بڑھ چڑھ کر دعوے کیے اور کسی حد تک ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی وہاں ادب اور ادیب نے بھی اپنے کاندھوں پر لی گئی ذمہ داریاں خوب نبھانے کی جدو جہد جاری رکھی۔ اس جُہد کے لیے جس جراتِ رندانہ کی ضرورت تھی ہمارے ادیب نے وہ تہور پن اپنے اندر پیدا کر کے زمانہ و تاریخ سازی کی تاریخ رقم کی کہ آوازوں کی بھنبھناہٹ میں سے علامت، استعارہ، تشبیہ اور لفظ تخلیق کیے۔ یہ ادب ہی ہوتا ہے جو انسان کو اس کی مختصر ترین زندگی میں اس کے اکناف و اطراف میں پھیلی ہوئی کئی غیبی کائناتوں کی سیر کرا دیتا ہے۔

اگر اس جہان اور اگلے جہان کی باریکیوں پر بہ نظر غائر پرکھ کی جائے تو آسانی سے اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ حرفِ آخر کے عقب میں عشق کا وسیلہ ہی حیات کی مشکلات کو آسانی میں بدل کر اسے تازگی و تراوت مہیا کرتا ہے اور اسی وسیلے سے رب کائنات کا محبوب بھی مقام محمود تک پہنچتا ہے۔

جہاں عقل ہاتھ کھڑے کر لیتی ہے، سر کو نگوں کرتی ہے اور سوچ جامد ہو جاتی ہے، عشق وہاں اپنا سفر آغاز کرتا ہے۔ عشق ایک جہد مسلسل ہے، سچ کی گواہی ہے ”محبت کی رمز ہے، سلوک کی منزل ہے، عہد کی صداقت ہے، علوم کا بام ہے، جنون کی آخری حد ہے، زندگی ہے اور شعر کو جاننے کا ذریعہ ہے۔

دنیا کا سب سے پر اسرار راز خود انسان ہے۔ اس راز کا عقدہ، رب دو جہاں کی ذات اقدس میں کھلتا ہے۔ تو بس پھر جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے خالق کائنات کو پہچان لیا۔

ڈاکٹر یسین عاطرؔ بنیادی طور پر رومانوی شاعر ہیں۔ وہ اپنے شعری رومان کو اشیا کائنات، مناظر فطرت، انسانی حسن، سماجی رویوں اور اسلوب کی تازگی سے آراستہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جس سیڑھی کا سہارا لیا وہ ”عشق“ ہے۔ عشق کی ماہیت کا ادراک رکھنے والا بخوبی جان سکتا ہے کہ ”عشق وسیلہ“ کے خالق نے جسے وسیلہ کیا ہے وہ بے کنار قوت ہے۔ یعنی وہ عشق کی پر خار وادی میں کود گئے ہیں۔ اس کو جادہ کرنے والا نہ تھکتا ہے نہ رکتا ہے اور نہ بھٹکتا ہے۔

ڈاکٹریسین عاطرؔ نے اپنی کتاب کا بہت منفرد نام ”عشق وسیلہ“ رکھا اور پھر عشق کے اسرارو رموز سے مکمل آگاہی رکھی۔ یہ بات میں نہیں کہتی اس بات کی صداقت ان کی شاعری سے آپ کو ملے گی۔ انہوں نے اپنے کتاب کے انتساب سے قبل اپنی اس پہلی تخلیق میں ایک شعر لکھ کر اپنی اس بصیرت پر مہریقین ثبت کی ہے :

تونگری تو ملی عشق کے وسیلے سے

یہ لوگ کیوں مری آ کر دکان دیکھتے ہیں

بلا شک و شبہ عشق وہ عظیم اور بے بہا قوت اور خزینہ ہے کہ اس کے سامنے دنیا وی مال و متاع سب بے معنی اور ہیچ ہیں۔ ڈاکٹر یسین عاطرؔ نے ایک ہی شعر میں دنیاوی جاہ و حشمت پر لات مار کر عشق کی حقیقت کی گرہ کھول دی۔ وہ نہ صرف خود اس کی پنہائیوں پر یقین کامل رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے ان احمق لوگوں کی بھی سرزنش کی ہے جو مادیت پرست ہیں اور اس حسد کی بھٹی میں خود کو ڈالنے سے اکثر گریز نہیں کرتے۔

مجھے کہنے دیجیے کہ کائنات بنانے والی کی نگاہ بھی عشق ہے۔ عشق دراصل احساس کی دولت ہے، جس کا مکیں دل ہوتا ہے جو اس سے مالا مال ہے دنیا و مافیہا کی ہر طمع سے مبرا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یسین عاطرؔ ایک حساس دل کے مالک ہیں انہوں نے یہ راز اپنی پہلی شعری تصنیف میں منکشف کیا ہے۔ گویا یہ انہوں نے کسی کو نیچا دکھانے کے لیے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے دل کی گواہی سے نفس کی سچائی کی کو فروغ دیا ہے۔ ڈاکٹر یسین عاطرؔنے جتنی شاعری کی ہے دل سے کی ہے وہ تصنع اور بناوٹ پر چار حرف رکھتے ہیں :

جتنی بھی محبت ہے وہ آنکھوں سے بیاں کر

ڈبے پہ ربن باندھ کے تحفہ نہیں دیتے

دیکھنے پڑھنے میں یہ شعر ممکن ہے سطحی اذہان کو سطحی معلوم پڑے مگر ہر گز ہر گزیہ سطحی نہیں ہے۔ اس بظاہر سادہ شعر میں زندگی کی ایک بڑی کاٹ چھپی ہوئی ہے۔ آپ کے گردو پیش میں ایک ہی دن میں سیکڑوں لوگ ایسے ہوں گے جن کے دل کدورت، حسد اور نفرت سے آلودہ ہوتے ہیں مگر وہ اپنی کھوکھلی محبت چند سکوں کے عوض جتاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بھید کو چوراہے میں لا کرپھوڑ دیا ہے کہ محبت کے لیے کسی مادی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ تو محض چہرے کی سچائی اور آنکھوں کی پاکیزگی ظاہر کی جا سکتی ہے۔ اگر دل میل سے صاف ہو، احساس رگ جاں سے پھوٹے اورخیال کا تانا بانا محبت سے پروان چڑھا ہو تو پھر کسی کو اپنی چاہت کا پیپا پیٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انسان کی آنکھ محبت پھیلانے کا ایک آسان اور سستا ذریعہ ہے جس سے کوئی بھی مخلص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ کا م کسی بادشاہ، مادیت پرست تونگر یا لینڈ لارڈ فیوڈل کا نہیں بلکہ یہ فقیرانہ وتیرہ کسی درویش کا ہو سکتا ہے۔ دولت سے دل کب جیتے جاتے ہیں دل سے دل تک پہنچنے کے لیے تو آنکھ کی صداقت کا پل استعمال کیا جانا چاہیے یہی صوفیانہ فکر کی ترسیل ڈاکٹر یسین عاطرؔ کے اس شعر سے نمایاں ہے۔

عہد موجود کی مادہ پرستی پر طنز کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کہاں گئے وہ زمانے جب انسان کی کل متاع، فکر و دانش ہوا کرتی تھی اب تو دانش و ہنر کی کوئی وقعت نہیں رہی بلکہ اس کی جگہ مادیت پرستوں نے معنی کے بدلاؤ سے اپنی سہولت کے مطابق ڈالر نام رکھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :

اب تو ڈالر ہی دورِ حاضر میں

اک غزل، نظم، مثنوی ہے میاں

ڈاکٹر یسین عاطرؔ چاہتے تو پیچیدہ اور گنجھل دار لفاظی سے اپنے اشعار کو ایک عامیانہ رنگ میں رنگ سکتے تھے، پر انہوں نے اپنے آپ کو عمومیت کی چھاننی سے بچا لیا آپ نے پرچلت موضوعات کے انتخاب کے لیے الفاظ کے معاملے میں سادگی اختیار کی اور ان کو ہی نیا آہنگ اور نیا مزاج عطا کر کے اپنے ہم عصروں سے الگ شناخت بنا لی جس سے اب ان کی شعری تخلیق صرف اس صدی تک محدود نہیں رہ گئی بلکہ کلچرل میکانیت کی یہ بے بہا بصیرت اگلی صدیوں کے افراد کی مدد کرے گی کیوں کہ ڈاکٹر یسین عاطرؔ کا سب سے بڑا موضوع انسان اور سماج ہے جو ذرے سے کائنات اور فرد سے انسانیت کی جانب رواں دواں ہے جو زمان و مکان و آدم کی ایک مثلث ہے۔ آدم علیہ اسلام سے آج تک اور آج سے قیامت تک یہ مثلث قائم رہے گی۔ نہ اس زنجیر نے ٹوٹنا ہے اور نہ ہی ڈاکٹر یسین عاطرؔ کا شعری سحر زائل ہونا ہے۔ عصری شعور سے ہم آہنگی اور ماہر طب وسائنس ہونے کہ بنا پر ڈاکٹر عاطرؔ کی شاعری میں ایک اعتدال بھی پایا جاتا ہے اور موجود و ناموجود کی سچائی بھی، جس کو وہ اپنے اسی تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے شعر کی قرات میں ان کے تمام اقربا شامل حال ہوتے ہیں جن کا تعلق ان کے پروفیشنل طبقے، طلبہ، اساتذہ، خاندان، قبیلے کے افراد، ان کے سامعین، دوست احباب اور خصوصاً محبوب بھی۔ کہیں کہیں وہ مکھی پر مکھی مارنے والوں کے برج مسمار کر کے رکھ دیتے ہیں تو کبھی کبھی روایتی محبوب کو اپنے برابر لا کھڑا کرتے ہیں :

جو چاند چھت پہ تمہاری ہے، دیکھتے رہنا

ادھر میں چاند وہی، اپنے گھر سے دیکھتا ہوں

اس شعر میں ڈاکٹر یسین عاطرؔ نے مبالغہ آرائی کے تمام بت ملیا میٹ کر دیے ہیں۔ اس شعر سے پہلے تک تو شاعر حضرات لفظ چاند کا درجہ محبوب کو دیتے رہے۔ یہاں چاند نہ محبوب ہے نہ محبوب جیسا بلکہ چاند ایک کائناتی حقیقت ہے جو محض ایک سیارہ ہے اور اس سے قمری اوقات میسر آتے ہیں۔

”عشق وسیلہ“ ڈاکٹر یسین عاطرؔ کی پہلی شعری تخلیق ہے۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق لاہور سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علم اور روز گار دونوں عبادت ہیں دونوں کے لیے ہجرت کرنا بھی بڑی سعادت کا کام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یسین عاطرؔ نے ان دونوں ہجرتوں کی صعوبت کا خوب لطف لیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انہوں نے ہجرت کی گردش افلاک میں در یوزہ گری کی ہے۔ جیون ساتھی ہو، روزگار کی بات ہو یا ہجرت ہو، یہ سب قدرت کے فیصلے ہوتے ہیں کہ:

جس کا جو سنجوک ملا دے، قدرت کی مختاری ہے

ڈاکٹر یسین عاطرؔ کی یہ فطانت ہے کہ انہوں نے ستاروں کی چال میں آ کر اپنے حال کو زوال نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے فطری زود رنجی اور زندگی کی بد رنگی کو سوچ کی ست رنگی دھنک سے، خیال سورج کی سرپرستی میں، حرف کے دیپ جلائے ہیں۔ جن حالات میں ہاجرلوگ اجرام فلکی کی ماند در بدر ی کاٹتے ہیں، اور اگر وہ تخلیقی جوہر رکھتے بھی ہوں تو محض عکس اور ضو کے گداگر بن کر، کرہ در کرہ خوار ہوتے ہیں مگر ڈاکٹر یسین عاطرؔنے اپنے ڈھنگ اور اسوہ سے زندگی کے راستے کشید کیے۔ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا کہ انسان کو عام طور پر دو طرح کی اخلاقیات کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس پر وہ صرف تبلیغ کرتے ہیں، دوسری وہ جن پر وہ خود عمل کرتے ہیں۔

ڈاکٹر یسین عاطرؔ دوغلی اخلاقیات کے معنی سے واقف نہیں۔ شفافیت اور اوریجنیلٹی ہمیشہ سے ان کے خمیر کا حصہ رہی ہے، سو وہ دہرے معیار اور منافقت سے دور رہتے ہیں۔ عملی زندگی میں وہ نہ تو مصنوعی محبتوں اور رشتوں کے قائل نہیں نہ ان کے حرف و معانی میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اظہار فکر میں تنوع اور ندرت خیال کی تازگی ان کے قوت بیان کی لہروں کو مزید تاباں رکھتی ہے۔ یہاں ان کا معمول ہے کہ وہ عمومی خیال اور معمولی حرف سے خصوصیت کے معیار تک پہنچتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا قاری ان کی فکر کے اتنا قریب ہوتا چلا جاتا کہ ان کی آواز کو وہ اپنے دل کی دھڑکن میں محسوس کرتا ہے۔ ان کے ظاہر باطن میں کوئی جھول نہیں اسی لیے شاعری میں ان کی ذات کی مانند کہیں مصنوعی پن نظر سے نہیں گزرا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments