کورونا ویکسین کی دوڑ میں سب سے آگے: اوکسفورڈ یونیورٹسی ویکسین ٹیم کی سربراہ سارا گلبرٹ کون ہیں؟
’ہمیں بہت تیز، تیز کام کرنا ہے۔‘
یہ الفاظ ہیں پروفیسر سارا گلبرٹ کورونا وائرس کی ویکسین پر کام کر رہی ہیں۔
برطانیہ کی اوکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق کرنے والی پروفیسر کو پوری طرح یہ احساس ہے کہ انھیں یہ کام کس قدر جلد مکمل کرنا ہے۔ وہ اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں کہ کورونا وائرس کو، جس سے دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور چھ لاکھ تیس ہزار اموات ہو چکی ہیں، روکنے کے لیے کوئی ویکسین جلد از جلد تیار کر لیں۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی میں تین سو افراد پر مشتمل اپنی ٹیم کے ساتھ وہ ویکسین کی تیاری کے کئی مرحلے مکمل کر چکی ہیں جو کہ عام حالات میں مکمل کرنے میں پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
ویکسینولوجسٹ کا کہنا ہے انھوں نے یہ کام چار ماہ میں مکمل کیا ہے۔
ابتدائی نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔ انسانوں پر کیے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ ویکسین بغیر کسی مضر اثر کے محفوظ طور پر کام کرتی ہے اور وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کو متحرک کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ابتدائی نتائج سے گو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ویکسین اس سال کے آخر تک تیار ہو سکتی ہے لیکن یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ ویکسین کی تیاری اب زیادہ دور نہیں ہے۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم کا مقابلہ بہت سخت ہے اور 22 دیگر ویکسین تجرباتی مراحل سے گزر رہی ہیں اور سو مزید تحقیق کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔
سارا گلبرٹ کون ہیں؟
پروفیسر گلبرٹ اس وقت تک ویکسین کی تیاری کے لیے جاری دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ ٹیم جو برطانیہ اور سویڈن کی ادویات ساز کثیر الملکی کمپنی ایسٹر زینکا کی شراکت دار ہے وہ ایک ہزار 77 افراد پر تجربہ کر رہی ہے۔
جب یہ خبر نکلی کہ جن رضاکاروں پر کووڈ وائرس کی ویکسین کا تجربہ کیا جا رہا ہے ان میں اس جراثیم کے خلاف مدافعت پیدا ہوئی ہے اور ان کے جسم میں ٹی سیل اور اینٹی باڈیز جو وائرس کا مقابلہ کرتے ہیں پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں، تو راتوں رات انھیں پوری دنیا میں شہرت حاصل ہو گئی۔
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ ویکسین مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے لیکن اس کے ابتدائی نتائج بہت مثبت ہیں اور اب اس ویکسین کا وسیع پیمانے پر تجربہ کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر گلبرٹ کا نام تمام بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سنا جانے لگا اور ان کا انٹرویو کرنے کے لیے انھیں بے شمار درخواستیں موصول ہونے لگیں۔
لیکن اپنے بہت سے ساتھیوں کے برعکس وہ خاموشی سے اپنا کام کرنا چاہتی ہیں اور انھیں شہرت حاصل کرنے کی بہت زیادہ خواہش بھی نہیں ہے اور وہ کیمروں سے زیادہ تر دور رہتی ہیں۔ گو کہ وہ اپنے ہم عصروں میں ایک سرکردہ ویکسینولوجسٹی کے طور پر اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔
انھوں نے دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ سائنسی تحقیق، ویکسین تیار کرنے اور مستقل کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل دستیاب کرنے پر صرف کیا ہے۔
نوجوان سائنسدان
پروفیسر گلبرٹ کا کہنا ہے انھیں شروع سے علم تھا کہ وہ طب کے شعبے میں تحقیقی کام کرنا چاہتی ہیں لیکن جب وہ سترہ برس کی تھیں اس وقت وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ کہاں سے کام شروع کریں۔
ان کا پہلا قدم یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا سے بائیولوجی کی ڈگری حاصل کرنا تھا جس کے بعد انھوں نے بائیوکیمسٹری میں ڈاکٹریٹ مکمل کیا۔
پھر انھوں نے بائیو ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ کی جہاں انھوں نے دوائیں بنانے کا کام سیکھا۔
سنہ 1994 میں پروفیسر گلبرٹ نے اوکسفورڈ میں سینیئر پوسٹ ڈاکٹریٹ کی جگہ حاصل کر لی تھی جہاں ان کا شعبہ جنیات، ملیریا اور ہوسٹ پیراسائٹ تھا۔
اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے وہ ویکسین بنانے کے کام میں آ گئیں۔
برسرِ روز گار ماں
پروفیسر گلبرٹ کے ہاں سنہ 1998 میں ایک ساتھ تین بچے پیدا ہوئے اور ایک سال بعد وہ یونیورسٹی میں لیکچرر ہو گئیں۔
انھوں نے کہا کہ ذاتی زندگی اور کام میں توازن برقرار رکھنا بہت مشکل تھا۔ ’کام اور گھر کو ساتھ ساتھ چلانا ناممکن نظر آتا تھا خاص طور پر جب آپ کو کوئی مدد حاصل نہ ہو میرے تین بچے تھے اور نرسری ی فیس میری تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔‘
اس مرحلے پر ان کے شریک حیات نے اپنی نوکری چھوڑ کر بچوں کی دیکھ بحال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اسوقت یہ بہت مشکل فیصلہ تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھ صرف 18 ہفتوں کی میٹرنٹی چھٹیاں ملیں اور مجھے وقت سے پہلے پیدا ہونے والے تین بچوں کی نگہداشت کرنی تھی اور یہ بہت دشوار کام تھا۔‘
پروفیسر گلبرٹ نے کہا کہ سائنسدان ہونے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ آپ کو ہر روز کام نہیں کرنا پڑتا اگرچہ بعض اوقات کام کافی مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
سنہ 2004 میں وہ یونیورسٹی میں ریڈر تھیں اور تین سال بعد انھیں خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ کی جانب سے آزدانہ طور پر اپنی ٹیم کے ساتھ فلو ویکسین تیار کرنے کے لیے مالی معاونت کی پیش کش ہوئی۔
فیملی کی طرف سے مدد
ان کے بچے جب بڑے ہونا شروع ہوئے تو ان کی زندگی کچھ آسان ہونا شروع ہو گئی۔
پروفیسر گلبرٹ کے بچوں کی عمر اب 21 سال ہے۔
وہ تینوں بھی اپنی والدہ کی طرح بائیوکیمسٹری پڑھ رہے ہیں۔
دراصل وہ تینوں کووڈ۔19 کے لیے ویکسین کی تیاری کے اپنی والدہ کے کام میں اس قدر دلچسپی رکھتے ہیں کہ تینوں نے نئی ویکسین کے تجربے میں رضا کارانہ طور پر شامل ہونا پسند کیا۔
پروفیسر گلبرٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں 18 سے 55 سال کی عمر کے صحت مند لوگوں کو ویکسین دینا ہے۔‘
ان کی کوشش تھی کہ انھیں اچھی خاصی تعداد میں ایسے رضا کار مل جائیں جن کو تجرباتی مرحلے میں استعمال کیا جا سکے اور یقیناً اپنے گھر سے ہی کچھ رضاکاروں کے مل جانے سے وہ بہت خوش ہوئی ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ انھیں کوئی پریشانی نہیں ہے کیوں وہ اس طرح کی ویکسین پہلے بھی کئی مرتبہ استعمال کر چکی ہیں اور انھیں پوری امید ہے کہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہو گی۔
فی الوقت جو سب سے اہم چیز ہے جس پر ان کی توجہ پوری طرح مرکوز ہے وہ اس ویکسین کا کلینل تجربہ ہے اور اس کی تیاری تاکہ اس وبا کو روکا جا سکے۔
- شیاؤمی: چینی سمارٹ فون کمپنی نے الیکٹرک کار متعارف کروا کر کیسے ٹیسلا اور ایپل دونوں کو ٹکر دی - 29/03/2024
- خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟ - 29/03/2024
- غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟ - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).