خوشبو کی ٹائم مشین


آج ایک پرانا اشتہار نظر سے گذرا جس میں ایک خاتون کالے لباس میں ملبوس فرما رہی ہوتی ہیں کہ“ لوگ مجھ سے ہمیشہ پوچھتے ہیں کون سا پرفیوم لگایا ہے“۔ پھر نہایت رازداری سے ماحول بنا کر گویا ہوتی ہیں، ”میرا جواب ہر دفعہ یہی ہوتا ہے، پرفیوم نہیں بلیک کیٹ ٹیلکم پاوڈر“۔ سننے میں تو نہیں آیا لیکن مجھے امید ہے ادارہ تحفظ بلیات نے یقینا اس پر خوشی کا اظہار کیا ہو گا کہ کسی نے ہمارے نام سے بھی خوشبو نکالی۔

خوشبو کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ایک لمحے میں لاشعور سے یادوں کے ہزاروں سین لا کھڑے کرتی ہے۔ زندگی کی بہت سی یادیں خوشبووں کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ اچانک کہیں سے ہوا کے دوش پر رقصاں آتی ہے اور آپ کے حواس کو معطر کرتی چلی جاتی ہے بالکل کسی پرانے کارٹون کیریکٹر کی طرح جسے جب کہیں سے کھانے کی خوشبو آتی ہے تو وہ ناک سے سونگھتا سونگھتا اسی کی طرف کھچتا بلکہ اڑتا چلا جاتا ہے۔

لوگوں کی بھی خوشبو ہوتی ہے۔ آپ کی بھی ہو گی لیکن آپ کو نہیں آئے گی، دوسروں کو آئے گی۔ کچھ لوگ ایک ہی پرفیوم یا ٹالکم پاوڈر کافی عرصہ اور بسا اوقات ہمیشہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کی اپنی اور اس پرفیوم کی خوشبو کے ملاپ سے ایک اور خوشبو بن جاتی ہے، اور بعد میں ان کی پہچان۔ ایک بار کہیں جانے کے لئے تیار ہو کر نکل رہا تھا تو سیما باجی نے کہا، ” خاور اولڈ سپائس لگایا ہے“ میں نے کہا جی ہاں اسی کا ڈیوٹرنٹ ہے۔ کہنے لگیں تمہارے مرحوم عمو جان بھی یہی استعمال کرتے تھے۔ سارا بچپن ملتان میں گذرا چنانچہ گرمیاں شروع ہوتے ہی ” پت ” نکل آتی۔ یہ گرمی دانے محمود و ایاز میں کوئی تفریق کیے بغیر ہر صاحب استطاعت کو نکلنا فرض تھے لہذا امی ان پر ایڈن راک کمپنی کا پریکلی ہیٹ پاوڈر لگا دیا کرتیں۔ اب جب کہیں اس پاوڈر کی مہک آتی ہے، سارا بچپن یاد آنے لگتا ہے۔ اسی طرح تبت سنو کریم۔ کسی بھی نسل کا پمپل یا دانہ ہو، دو تین بار لگانے سے کام تمام۔ اس کی خوشبو آتے ہی دادی کا کمرہ اور ان کی الماری یاد آ جاتی ہے۔ ۔ بھائی حسنین کو ٹھنڈے آملیٹ کی خوشبو بہت پسند ہے۔ بندہ پوچھے یار یہ کونسا ناسٹیلجیا ہے مگر نہیں، آملیٹ ٹھنڈا نہ کھایا تو کیا زندگی جی تم نے، کہتے ہیں اسکول کا زمانہ یاد آ جاتا ہے۔ میرے ایک دوست نے مدت سے اپنے مرحوم والد کا کرتا سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ اس میں سے ابو کی خوشبو آتی ہے۔

سب چھوڑ دیں، بچپن میں جب بھیا میں اور امی پشاور جاتے تھے تو ہمارے نصیب میں فوکر جہاز کی فٹیگ ہوتی تھی۔ فوکر یوں کہہ لیجیے کہ جہازوں کا ام الخبائث تھا۔ اس زمانے میں جہاز پر سیڑھیوں سے ہی چڑھا جاتا تھا۔ آپ نے ابھی سیڑھی پر پاؤں نہیں تھا رکھا ہوتا کہ ایک مخصوص بو کا تھپیڑا اس شدت سے آپ کا استقبال کرتا کہ بڑھتے قدم ادھر ہی روک کر واپس جانے کا دل کرتا، لیکن پشاور جانے کا واحد راستہ یہ مشکل کاٹ کر ہی عبور ہوتا تھا۔ میں نے بعد میں ایک سال اسی جہاز پر گلگت اور چترال کی فلائیٹیں کیں، ساری فلائیٹ میں وہی بو دماغ پر حاوی رہتی اور جس ترتیب سے منہ میں جو کھانا گیا ہوتا وہ جا کر ٹھہرنے کی بجائے چند ہی منٹ بعد پرزور احتجاج کرتے ہوئے عین الٹ ترتیب سے وہیں سے واپس آ جاتا۔ خدا کا شکر ہے کہ فوکر اب استعمال میں نہیں رہا ورنہ میرا بہت استعمال ہو جانا تھا۔

جگہوں کی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ آبائی گھر کی الگ اور کرائے کے مکان کی الگ۔ محلے کی، مسجد کی، اسکول اور کالج کی۔ دنیا گھومیں تو آپ کو ہر ملک اور شہر کی الگ خوشبو محسوس ہو گی۔ لندن، پیرس، بارسلونا یا بیجنگ، ہر جگہ اترتے ہی وہاں کی خاص مہک آپ کو محسوس ہوتی ہے۔ دسمبر کی آمد آمد ہے، شاعرانہ مزاج والا بندہ تو بے چارہ خواہ مخواہ سینٹی ہونے لگتا ہے۔ سردیوں کی بارش کے بعد مٹی سے اٹھنے والی خوشبو، دھند میں مقید درختوں اور سبزے سے آنے والی مہک، اور انگیٹھی میں دھکتے کوئلوں کا عجیب و غریب شکلیں بناتا دھواں بھی اس کی وجہ کہے جا سکتے ہے۔

دادی کہا کرتی تھیں اگر شام کے وقت کہیں سے لوبان یا کافور کی خوشبو آئے تو سمجھ جانا کہ روحیں ملاقات کو آئی ہیں۔ اگر آپ کو کسی شام ایسی مہک آئے تو آپ بھی سمجھ جائیے گا، کہ ”بلاوا آ گیا جے“ اور دوڑ لگا دیجیے گا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments