کریں گے اہل نظر تازہ مسجدیں آباد


ترکی صدر کی کاوشوں اور ان کے انتخابی وعدوں کے مطابق چھٹی صدی عیسوی کے تاریخی گرجا گھر کو آخر کار مسجد میں تبدیل کر دیا گیا جس میں نہ کوئی لشکر کشی کرنا پڑی نہ ہزاروں انسانوں کا خون بہا صرف عدالت سے فیصلہ لینا پڑا پھر امام مسجد نے ہاتھ میں تلوار لہرائی صدر اردوان نے تلاوت کی اور گرجا گھر مسجد میں بدل گیا۔ صوفیہ کے محراب و منبر سے اذان کی صدا بلند ہوئی اور فضا اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی اور وہ ان گنت اسلام کے شیدائی جو دور و نزدیک سے یہاں کھچے چلے آئے تھے اور جن کی جبینوں میں عرصہ دراز سے ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے آج ان کو قرار آ گیا۔

لیکن میں آج اپنی قسمت کو کوس رہا تھا کہ میں پچھلے سال اسی شہر اور اسی جگہ پر تھا کاش اس کی بجائے آج ہوتا تو اس بے مثال روح پرور نظارے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتا اور اس جگہ سجدہ ریز ہوتا اگرچہ اس روز تو مجھے توفیق نہ ہوئی لیکن آج کا نظارہ دیکھ کر میری سوئی ہوئی عصبیت جاگ اٹھی ہے کیوں کہ جب کسی بتکدے اور گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کیا جائے تو اس جگہ سجدے کا مقام کتنا ارفع و اعلی ہو جاتا ہے۔

ویسے ایک عجیب سا خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ساتھ ہی اس سکوائر کے دوسری طرف مسجد سلطان احمد کی پر شکوہ اور متاثر کن عمارت بھی موجود ہے تو گرجا گھر کو مسجد بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ آیا صوفیہ اور مسجد سلطان احمد دونوں آمنے سامنے ہیں۔ یہ بھی احساس ہوا کہ آج جبکہ فرزندان اسلام کا تمام تر اجتماع، جوش و خروش، ولولہ اور ساری توجہ آیا صوفیہ پر تھی اور وہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی اب مسجد سلطان احمد کا خالی صحن اور خالی صفیں کیا محسوس کریں گی جن میں چھ ہزار نمازیوں کی عبادت کرنے کی گنجائش ہے، وہ شاید اب ہم جیسے سیاحوں سے ہی آباد رہے گی۔

مسجد سلطان احمد کی وسعت اور ہیبت کو دیکھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، یہ مسجد نیلی مسجد کے طور پر بھی مشہور ہے کیونکہ اس کی بیرونی دیواریں نیلے رنگ کی ہیں جسے سلطان احمد اول کے زمانے میں آیا صوفیہ کے مقابلے میں ایک شاندار اسلامی عبادت گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا اس تصور کے ساتھ کہ یہ اتنی شاندار ہو کہ اس کے سامنے آیا صوفیہ کی تعمیراتی عظمت گہنا جائے چنانچہ اس کی تعمیر میں بے شمار وسائل اور بے حد توجہ دی گئی لیکن اس کے باوجود اس کے ڈیزائن میں اس باز نطینی چرچ کے فن تعمیر کی نمایاں جھلک دکھائی دیتی ہے کیونکہ آیا صوفیہ کی عمارت اس وقت فن تعمیر کے لحاظ سے یکتا و یگانہ تھی اور اپنے زمانے میں نئے فن تعمیر کے عجائبات میں سے ایک تھی اور وہ کئی صدیاں فن تعمیر کا ماڈل بنی رہی اور آج بھی ہے۔

اسی آئیدیل کو سامنے رکھ کر نیلی مسجد کی وسعت اور خوبصورتی کو مثالی بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہم مسجد کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس وقت کے بادشاہ وقت کے داخلے کے لئے علیحدہ دروازہ بھی ہے جہاں لوہے کی زنجیر لٹکائی گئی تھی تا کہ وہ خدا کے حضور سر جھکا کر داخل ہو جو علامتی طور پر خدائے بزرگ و برتر کے سامنے عاجزی کا اظہار تھا۔ مسجد کے مکمل فرش پر بیس ہزار سے زائد چینی کی ٹائلیں لگائی گئی ہیں جو کہ گل لالہ کے بے شمار نمونوں سے مزین ہیں اور گیلری پر پھولوں اور اشجار صنوبر کی تصویریں ہیں ان کے بالائی حصے کو نیلا پینٹ کیا گیا ہیشیشے کی کھڑکیوں پر مختلف رنگوں کے ڈیزائن ہیں مسجد کو ایک بڑے فانوس اور برقی قمقموں سے مزین کیا گیا تھا بے شمار سیاح ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے یہ لوگ بڑی توجہ سے مسجد کے طرز تعمیر، اس کی خطاطی، صناعی اور مسجد کے اندرونی نقش و نگار اور مسجد کی وسعت کو دیکھ رہے تھے، زیادہ تر سیاح یورپ سے آئے تھے اکا دکا عورتیں برقعہ میں تھیں مقامی طور پر استنبول میں برقعے کا رواج نہیں اور نہ کہیں کسی ترک خاتون کو برقعے میں دیکھا۔

جس دینی جذبے سے یہ عمارت بنائی گئی تھی اس نے ایک زمانہ دلوں میں ایمان کی حرارت پیدا کیے رکھی آج یہ حال تھا کہ جب ہمارے ہوتے مسجد سے ظہر کی اذان کی آواز بلند ہوئی اور آواز اس قدر بلند تھی کہ شاید سارے استنبول میں سنی گئی ہو نمازی آنا شروع ہو گئے اور میں خاص طور پر فرزندان توحید کی تعداد دیکھنا چاہتا تھا جو بمشکل پندرہ بیس ہوگی جبکہ مسجد کی وسعت میں چھ ہزار نفوس کے لئے عبادت کی گنجائیش تھی۔

مسجد سے نکل کر ہم آیا صوفیہ کی طرف چل پڑے جو چند قدموں کے فاصلے پر ہے درمیان میں ایک سکوائر ہے اس میں ٹورسٹ بسیں کھڑی تھیں ایک لان مین بیٹھنے کے لئے بے شمار بنچ بڑے قرینے سے رکھے ہوئے تھے ہم بھی وہاں تھوڑی دیر سستانے کے لئے بیٹھ گئے کونے میں کئی ٹک شاپس تھیں ہمارے عقب میں مسجد سلطان احمد تھی اور سامنے آیا صوفیہ کی شاندار عمارت تھی

یونانی زبان میں جسے حاجیہ صوفیہ اور ترکی میں آیا صوفیہ کہتے ہیں جس کا مقصد مقدس دانش ہے۔ قسطنطین اعظم نے یہاں ابتدائی چرچ کی عمارت تعمیر کرائی اسی کے نام پر قسطنطنیہ شہر آباد ہوا بعد میں شہنشاہ جیسٹینین نے یہاں لازوال چرچ ایا صوفیہ کی بنیاد رکھی جب یہاں ترک آئے تو انہوں نے اس شہر کو اسلامبول کہنا شروع کیا جس کا مطلب شاید اسلام کا بول بالا ہو اور پھر آہستہ آہستہ اس کا نام استنبول پڑ گیا استنبول ایک خوبصورت شہر ہے جو بیک وقت ایشیا اور یورپ میں موجود ہے یہ اپنی تعمیرات اور سماجی زندگی کے لحاظ سے ایشیا سے زیادہ یورپی شہر دکھائی دیتا ہے یہ شہر بحیرہ اسود اور بحیرہ مرمرہ کی درمیان آبنائے باسفورس کے دونوں طرف موجود ہے جہاں آبنائے باسفورس ایشیا اور یورپ کو آپس میں جدا کرتی ہے وہاں باسفورس کا شاندار پل دونوں براعظموں کو آپس میں ملاتا ہے یہ دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہ ہے اس کے بغیر روس، جارجیا، یوکرین، آرمینیا اور بلغاریہ کی بحیرہ اسود سے بحیرہ روم تک رسائی مشکل ہے باسفورس کے علاوہ شاخ زریں استنبول کے یورپی حصے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی اس علاقیکی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے جس پر کئی پل بنا کر ان دونوں حصوں کو ملایا گیا ہے۔

میں بنچ پر بٹھا سوچ رہا تھا کہ صبح جب ہم فصیل شہر کے باہر کھڑے تھے جو تین حصوں پر مشتمل تھی ہر حصہ اس قدر دبیز کہ اس پر دو گاڑیاں چل سکیں تینوں حصوں کے درمیان خالی جگہ ہے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برج بنائے گئے ہیں یہ بے حد مضبوط دیوار ہے اور حد نظر تک پھیلی ہوئی ہے جس نے پرانے شہر کو مکمل طور پر حصار میں لیا ہوا ہے یہ دیوار بیرونی حملہ آوروں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے تعمیر کی گئی تھی لیکن جب کوئی طوفان اٹھتا ہے تو سب کچھ نیست و نابود کر دیتا ہے سلطان محمد فاتح کی حکمت عملی اور جذبے کے طوفان میں سب کچھ ڈھیر ہو گیا یہ دیوار کیا ٹوٹی کہ سلطنت عثمانیہ دیکھتے دیکھتے تین براعظموں تک پھیل گئی جو کئی صدیوں تک قائم رہی دیوار کے ساتھ سلطنت عثمانیہ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ہے لیکن یہان ایک معجزہ ہوا کہ شکست خوردہ علم دوست لوگ جب جانیں بچا کر بھاگے تو یہاں سے بھاگتے وقت ارسطو، افلاطون اور دوسرے فلاسفروں کی بوسیدہ کتابوں کی دولت بھی یورپ اور اٹلی ساتھ لے گئے جنہوں نے اس زرخیز زمین پر Renaissance کا ایسا پودا لگایا جو پھل پھول کر چھتنار بن گیا ہے جس کا سایہ اور سلطنت آج تمام براعظموں پر قائم ہے۔

آج کی صدی میں جبکہ انسانوں کے درمیان نفرتوں کی دیواروں کو توڑا جا رہا ہے ترکی میں نہ جانے نفرت کی دیوار کیوں کھڑی کی جا رہی ہے۔ اس کا کوئی سیاسی یا جذباتی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن انسانیت کے ضمیر پر یہ ایک بوجھ رہے گا۔ میں انہی خیالات میں گم بیٹھا تھا کہ منزہ نے کہا اٹھیں آیا صوفیہ کو بھی دیکھ لیں پھر شاید اس کو اس حالت میں نہ دیکھ سکیں۔ ہم اٹھ کر اس مقدس آرتھو ڈاکس چرچ میں داخل ہو گئیجو اب میوزیم تھا اس کو *مقدس دانش * Wisdom of God کا نام دیا گیا تھا۔

جسے رومن شہنشاہ جیسٹینین نے اپنے زمانے کی تمام تعمیری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایک عظیم چرچ کی صورت کھڑا کر دیا اس کی مضبوطی کا اندازہ کریں کہ صدیوں بعد بھی عمارت اپنی اسی شان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کی مضبوطی، وسعت اور جلال کو دیکھ کر جب جسٹینین اس میں داخل ہوا تو لا شعوری طور پر یہ الفاظ فرائیڈین سلپ کی طرح اس کے منہ سے نکلے کہ ”آج میں شاہوں کے شاہ حضرت سلیمان سے بھی بازی لے گیا ہوں“ کہ حاجیہ صوفیہ کا چرچ سلیمان کے بنائے گئے ہیکل سلیمانی سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔

یہ چرچ واقعی بازنطینی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ جسے صدیوں دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کی حیثیت رہی۔ اس عمارت کے سامنے کئی خوبصورت لان ہیں جن میں فوارے چل رہے تھے مرکزی دروازے کے دونوں طرف وہ پتھر نصب تھے جہاں پہرے دار کھڑے ہوتے تھے۔ اس کا وسیع ہال دیکھنے کے قابل ہے جو مربع شکل میں ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ کریں کہ غلام گردش اور محراب چھوڑ کر اس کی لمبائی تقریباً اڑھائی سو فٹ اور بیچ کے گنبد کا قطر ایک سو فٹ سے زائد ہے۔ یہ چرچ آبنائے باسفورس کے مغربی کنارے پر تعمیر کیا گیا ہے باسفورس سے اسے دیکھیں تو ایک خوبصورت نظارہ بن جاتا ہے۔ باسفورس کے ساتھ ساتھ ایک وسیع شاہراہ ہے جس پر آتی جاتی ٹریفک کا رش رہتا ہے۔

اس عمارت کو بنانے کے لئے دور دور سے انجینئر اور ماہرین بلائے گئے اس وقت بازنطینی حکومت تھی جسے یورپ کا رومن سامراج کہا جاتا تھا۔ بحیرہ روم کے اس پار سے اس عمارت کی تعمیر کے لئے اشیا لائی جاتی تھیں۔ مکمل ہونے کے بعد یہ عمارت آرتھو ڈاکس چرچ کے سربراہ کا ہیڈ کوارٹر بن گئی۔ اہم ترین تقریبات، قیصر روم کی رسم تاج پوشی اسی عمارت میں ہوتی تھی۔ سلطان فاتح نے استنبول فتح کرنے کے بعد اس میں تبدیلیاں لا کر مسجد میں بدل دیا کئی تصویروں کو چھپا دیا گیا اس کے گنبد کے نیچے اللہ رسول کے نام اور خلفائے راشدین کے نام موجود ہیں۔

جب سلطان فاتح یلغار کرتا ہوا اس عمارت میں داخل ہوا تو بے شمار عیسائی مرد عورتیں بچے اس میں پناہ لینے اور جان بچانے کے لئے جمع ہو گئے تھے اور خاص طور پر قسطنطین اعظم کے خاص ستون کے قریب جہاں ان کا عقیدہ تھا کہ کوئی حملہ آور ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ ایسی صورت حال میں آسمانوں سے فرشتہ اتر کر اس کو نیست و نابود کر دے گا مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ طاقت اور تلوار کی کمزور انسانوں کے ساتھ ازل سے دشمنی رہی ہے اور نہ ہی اس کے آگے توہم، شگون اور خوش عقیدگی جیسے عقیدے بند باندھ سکے ہیں یہ خون خاک نشیناں کی طرح رزق خاک ہوجاتا ہے میں سوچ رہا تھا کہ مفتوح کی جان مال عزت اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ تو انسانی عظمت کی دلیل ہے۔

فتح مکہ کی درخشاں مثال ہمارے سامنے ہے اور جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا اور حضرت عمر کو شہر کی چابی دینے کے بعد کہا گیا کہ اپ ہمارے مقدس ترین Resurrection Church میں نماز پڑھ لیں تو انہوں نے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا اگر سلطان فاتح بھی اس کو چرچ میں بدلنے کا حکم نہ دیتے تو جنگوں کی تاریخ میں اپنی عظمت کی اعلی مثال قائم کرتے جو ہماری روایت بھی تھی لیکن کچھ نہ ہوا حیرانی ہے کہ آج اردوان کو کیا مسئلہ درپیش ہے استنبول شہر سات پہاڑیوں پر قائم کیا گیا ہے اور ہر پیاڑی پر ایک تاریخی مسجد موجود ہے اور شہر میں تین ہزار مساجد ہیں تو کیا ایک ایسی عمارت جو اقلیت کی عبادت گاہ کے طور پر بنی تھی اور صدیوں گرجا گھر کی حیثیت سے اس میں عبادت ہوتی رہی وہ ایک عمارت مسلمانوں کو برداشت نہیں ہو رہی۔ کہتے ہین سلطان نے اس کی ادائیگی کرکے دستاویز لکھوا لی تھی اب اس کو مسجد بنانا ہمارا حق ہے۔

انہی خیالات میں غلطاں میں گرجا گھر میں گھوم رہا تھا کہ عیسوی مذہب کے وہاں بے شمار نقوش اور مصوری کے نمونے دیکھنے کھڑا ہوگیا ایک راہب کی تصویر کو میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور راہب میرے سامنے کھڑا تھا میں ٹھٹکا اس نے کہا آپ پریشان دکھائی دیتے ہیں میں نے کہا کچھ سوالات نے میرے ذہن کو بوجھل کیا ہوا ہے سلطان فاتح کا نقطہ نظر تو میرے سامنے ہے لیکن آپ لوگوں کا موقف کون بتائے گا کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ جب آپ لوگوں نے گرجا گھر بیچ کر دستاویز لکھ دی تھی تو پھر آج مسلمانوں پر اعتراض کیوں وہ اس پر مسجد بنائیں، مدرسہ بنائیں۔

راہب ہنسا! اور کہا اور ہم کیا کرتے جب فاتح کی تلوار ہوا میں لہرا رہی ہو تو کوئی بھی معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ آج کی دنیا میں دیکھیں کہ اگر حکومت آپ کی کوئی جگہ، اراضی یا عمارت اپنی قیمت پر آپ سے حاصل کرنا چاہے تو کیا آپ انکار کر سکتے ہیں جبکہ وہ تو وہ وقت تھا جب مفتوح کے سامنے صرف دو راستے ہوتے تھے، تہہ تیغ ہونا یا موت سے ڈر کر غلامی قبول کرنا! کیونکہ فاتح کو روئے زمین پر ایسا کرنے کا ہر حق حاصل تھا۔ وہ چاہے تو خون کی ندیاں بہا دے یا ترس کھا کر کسی بھی جائیداد کو مال غنیمت ہنا د ے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ کرغلام بنا لے اور غلامی جو موت سے بھی بدتر ہے۔ ایک جیتے جاگتے انسان کو commodity سمجھ کر اس کے احساسات اور جذبات کا ہر روز خون کرنا اس کو اپنے پیاروں سے محروم کرکے اذیتوں اور دکھوں کے سمندر میں دھکیل دینا ہوتا ہے جہاں اپنی دھرتی سے دور وہ ہر روز مرتا ہے اور مر مر کر جیتا ہے۔ فاتح کو انسان تو کیا دھرتی کی ہر شے پر قبضہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ دستاویز کی بات کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments