ننگی عورتیں، فحش بچے، آوارہ کتے اور بے شرم بلیاں


سوشل میڈیا بھی گویا عذاب بن گیا ہے شعور والوں کا وتیرہ ہے کسی حساس موضوع پر رونے رو کر لائکس اور کمنٹس کی بھیک مانگنا۔

بلی کا بچہ ہی تو تھا، گینگ ریپ ہی تو ہوا ہے، ایک ہفتے کی تو بات ہے، سوراخوں سے خون ہی تو رستا تھا، چل پھر اور سو ہی تو نہیں پایا ایسی بھی کیا قیامت ٹوٹ پڑی۔ اس بلونگڑے سے دلیر تو ہمارے بچے ہیں جو بنا چوں چرا کیے موت کو گلے لگا لیتے ہیں اور اگر آپ میں ذرا بھی دید لحاظ ہے تو بتائیے کیا پالنے والے کا اتنا بھی حق نہیں؟

ذرا یاد کیجئیے وہ واقعہ جب کراچی کے ایک امیر کبیر اور نہایت ماڈرن آدمی نے گھر کی ملازمہ بچی کے انکار پر اس کا گھٹیا جسم سگریٹ کے سرخ نشانوں سے رنگ دیا تھا۔ انکار کرنے والی وہ کون ہوتی ہے؟ جس کا کھاتی ہے اسی کو انکار کرتی ہے؟

اور پھر سندھ میں جب قوم و ملت کے معمار ایک جانباز استاد نے ٹیوشن کے لیے آنے والے ایک بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ کہنے لگے استاد کے خلاف کارروائی کی جائے میں پوچھتی ہوں کس بات کی کارروائی؟ استاد تعلیم دیتا ہے۔ جینے کا ڈھب سکھاتا ہے تو کیا اس کا بچے پر اتنا بھی حق نہیں؟

بستے میں خواب رکھے سکول جاتی ننھی بچی جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے کھیتوں میں پھینک دی گئی۔ کہا گیا بچی سکول یونیفارم میں تھی۔ میں نے جب تصاویر دیکھیں اللہ معافی دے ایسی فحش بچی، عمر چھ سال اور دوپٹہ نام کو نہیں۔ ۔ ۔ حق ہا

ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزانہ گیارہ بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ علمائے کرام سے اس معاملے پر رہنمائی درکار ہے کہ بچے کس قسم کا لباس زیب تن کریں جس سے درندوں کے عضو تناسل پاجاموں میں اور ماؤں کے لاڈلے مدرسوں میں محفوظ رہیں؟

اب فحش بچوں کو کیا روئیں جب ان کی مائیں بہنیں ہی ننگی گھومتی ہوں۔ آنکھوں دیکھا لکھ رہی ہوں۔ ملتان کینٹ میں ایک جوان جہان جاذب نظر بیس بائیس سالہ لڑکی انصاف فیبرکس میں داخل ہوئی۔ دکان کے مالک کا شریف النفس بیٹا اس پر دو چار فحش جملے کس بیٹھا۔ لو جی لڑکی کی اماں بلاوجہ بھڑک گئیں اور اس شریف زادے کی خوب کلاس کی۔ لڑکا شرمندہ ہونے کے قریب تھا کہ اتنے میں ایک سفید داڑھی والے نہایت نیک سیرت چالیس پنتالیس سالہ انکل آگے آئے اور مجمعے کا دھیان اس طرف دلایا جو سب کی نظروں سے اوجھل تھا۔ نہایت سلجھے ہوئے انداز میں فرمانے لگے ”بہن جی جب بچیاں ایسا نازیبا لباس پہنیں گی تو نوجوان خون جوش تو مارے گا“

لو بھئی یہ تھی پتے کی بات۔ سبھی نے ڈیلے پھاڑ پھاڑ کے اس حسینہ کے لباس کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا۔ میرے تو مانو ہوش اڑ گئے بیڑہ غرق ہو ان برینڈ والوں کا جنھوں نے سادہ سے شلوار قمیض میں عین کاندھے کے قریب سلیو (بازو) میں ایک سوراخ کر رکھا تھا جو دیکھنے والوں میں جنسی زیادتی کے نشے کو ابھار رہا تھا۔ سارا مسئلہ ہی سوراخوں کا ہے۔ انھیں بند کروائیے ورنہ آپ کو شکوہ ہوگا کہ ریپ ہو گیا۔

دو چار سال قبل ایک بے شرم اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کے ایک ہی بات دہراتی تھی کہ ”اوکاڑہ کے نواحی گاؤں جوئیہ شریف کے مقامی قبرستان میں گورکن نے سفاکیت کی انتہا کردی، تین سال سے مختلف عورتوں کو دفنانے کے بعد زیادتی کرتا رہا“۔ مجھے لگتا ہے گاؤں کا نام ”جوئیہ مردود شریف“ ہوگا کیونکہ وہاں کی عورتیں تو ننگی قبروں میں جا لیٹتی تھیں تبھی تو گورکن کی طبعیت مچلی ہوگی۔ ورنہ شریفوں کے علاقے میں ایسا مرد کہاں؟ اور اگر آپ منصف ہو تو ایک بار پھر کٹھہرے میں کھڑے ہو کر جواب دینا ہوگا کہ ان ننگی پنگی لاشوں پر مرنے کے بعد پہلا حق کس کا ہو گا؟ خدارا یہ نہ کہیے گا کہ لاشوں کو خدا کے سپرد کیا تھا۔ خدا کے سارے حق انسانوں کی بستی میں ضبط کر لیے گئے ہیں۔

ایک نظر اس طرف بھی ”چالیس سالہ جنسی درندے نے آوارہ کتے کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اے سی پی نے بتایا کہ اس معاملے کی مخلص تفتیش کی جارہی ہے“۔ تفتیش تو خیر ہوتی رہے گی اور سزا بھی یقیناً کڑی سے کڑی دی جائے گی جس طرح اب تک کے زینب، فاطمہ، عائشہ اور مریم ریپ کیسسز کے ملزمان کو دی جاتی رہی ہے۔

میری نظر میں تو ایک ہی لفظ کھٹک رہا ہے ”آوارہ کتا“ ارے جب تھا ہی آوارہ تو پھر کاہے کا رونا؟

سچ تو یہی ہے کہ ننگی عورتیں، فحش بچے، آوارہ کتے اور بے شرم بلیاں اسی سلوک کی مستحق ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments