نذیر بھٹی۔ ایک یگانہ روزگار ہندکوان


پشاور کی مٹی کا یہ وصف رہا ہے کہ اس نے ایسے ایسے سپوت پیدا کیے جنہوں نے دنیا بھر میں پشاور کی دھرتی اور ہندکوان کمیونٹی کا نام بلند کیا۔ چاہے سائنس کا میدان ہو کہ مذہب کی تعلیمات ہوں، بھلے وہ کھیل کے میدانوں پہ حکمرانی ہویا پھر ادب و فنون لطیفہ کی سلطنت پہ راج ہو۔ کون سا میدان ہے جہاں پشاوری مردوں، خواتین اور نوجوانوں نے اپنا لوہانہ منوایا ہو۔ ان بے مثل ہندکووانوں میں ایک کثیر الجہت شخصیت جناب نذیر بھٹی کی بھی ہے۔

نذیر بھٹی صاب پشاور سے تعلق رکھنے ولے ایک یگانہ روزگار ادیب تھے جنہوں نے ہندکو، اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں میں کئی فلمیں، ڈرامے، کہانیاں، افسانے اور ناول لکھ چھوڑے ہیں۔ گندھارا ہندکو اکیڈمی میں منعقد ہونے والی تقریبات میں ان سے اکثر ملاقات ہوتی تھی اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اتنی منکسر المزاج شخصیت زندگی میں نہیں دیکھی۔ درجنوں کتاباں، ڈرامے، ناول اور تحقیقی مضامین وغیرہ لکھنے اور متعدد ایوارڈز سے نوازے جانے کے باوجود ان میں اتنی عاجزی تھی کہ جس کی مثال دی جا سکتی ہے۔

دوسری نمایاں خصوصیت ان کی پشاور سے لازوال محبت تھی۔ پشاور کے بارے میں بات کرتے کرتے وہ جس طرح جذباتی ہو جاتے تھے وہ منظر قابل دید ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ 1930 ؁ء کے قصہ خوانی میں گولی کے واقعے پر مبنی اپنے انعام یافتہ ناول۔ ”شام الم“ پر بات کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسووں تیر رہے تھے اور آواز میں رقت نمایاں تھی۔ انہیں دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ آئیے آج آپ کو اس تحریر کے توسط سے اس ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔

جناب نذیر بھٹی 3 فروری 1940 ؁ء میں پشاور کے ایک ہندکوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول نمبر 2، پشاور سے میٹرک کیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹری اینڈ کامرس میں ملازمت کرتے رہے۔ لیکن ساتھ ساتھ طبیعت میں لکھنے لکھانے کی طرف بھی جھکاؤ رہا۔ پہلے سٹیج اور پھر 1975 ؁ء سے ریڈیو اور ٹی وی کے لئے ہندکو، اردو اور پشتو زبانوں میں ڈرامے لکھنے لگے۔ سٹیج کے لئے کم و بیش 30 ڈرامے لکھے۔ ٹی وی اور ریڈیو کے لئے لاتعداد تخلیقات کیں۔ ہندکو ڈراموں میں ”کرول“ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ ان کا ایک ناول۔ ”دوستی کے مینار“ معروف ہدایتکار شباب کیرانوی کی نظروں سے گزرا تو انہوں اس پر مشہور زمانہ فلم۔ ”درد“ بنا ڈالی۔ نذیر بھٹی نے فلم نگر میں تینوں زبانوں میں لگ بھگ 32 فلمیں لکھیں۔ اردو فلمیں میں ”شک“ ، ”دلہن ایک رات کی“ اور ”قیدی“ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر پشتو کی کئی فلمیں موجود ہیں مثلاً پڑانگ اور ”اجرتی قاتل“ وغیرہ۔ تقریباً 19 فلموں میں انہوں نے خود بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے ایک ہندکو فلم ”بدمعاش“ لکھی اور پروڈیوس بھی کی جس میں اس وقت کے سپر سٹار سلطان راہی نے کام کیا۔

الیکٹرانک میڈیا کے لئے لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مختلف موضوعات پر کئی شاہکار کتب بھی تحریر کیں۔ ان کتابوں میں سے چند یہ ہیں۔ ”دوستی کے مینار“ (اردو ناول) ، ”پھل کیکراں دے“ ، ”وفا“ اور ”شام الم“ (ہندکو ناول) ، ”قدم“ (ہندکو ڈرامے ) ، ”رنگ کہانڑیاں دے“ اور ”عشق پیچا“ (ہندکو کہانڑیاں ) ، ”غلاب دی بہار اے“ (ہندکو مزاحیہ تحاریر) ، ”تراواں“ ، ”وفا ہندکو نال“ اور ”عکس پشاور“ (تحقیقی فن پارے ) اور ایک طویل فہرست ہے ان کے علمی کارناموں کی۔

نذیر بھٹی صاحب کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں ان کی زندگی میں ہی بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہندکوانوں کے نمائندہ ادارے گندھارا ہندکو بورڈ و اکیڈمی نے انہیں ہمیشہ اپنے سر کا تاج سمجھا اور ان کی کتابوں مثلاً شام الم (ناول) ، ان کی فلم بدمعاش کے سکرپٹ اور دوسری متعدد کتابوں کو شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ گندھارا ہندکو اکیڈمی نے ”نذیر بھٹی کے ساتھ ایک شام“ جیسی ایک یادگار تقریب کا بھی انعقاد کیا، جس میں شرکت کرنے والے خواتین و حضرات نے اسے خوب سراہا۔ اس موقع پر گندھارا ہندکو اکیڈمی نے ”سرخیل“ کے سپیشل ایڈیشن کا اجراء بھی کیا جسے ”سر خیل۔ نذیر بھٹی نمبر“ کہا گیا۔ 2020 ؁ء میں ان کے ناول ”شام الم“ کو پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سی علاقائی زبانوں کے بہترین ناول کا ایوارڈ ملا۔ 2019 ؁ء میں انہیں صوبائی حکومت کی طرف سے فخر پشاور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2017 ؁ء میں ان کو ”ثقافت کے زندہ امین“ ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ایوارڈ، تمغے اور اعزازات کی ایک فہرست ہے جو ان کی ادبی کاوشوں کی بناء پر دیے گئے۔

یہ دنیا فانی ہے، اس کی مثال ایک سٹیج جیسی ہے۔ ہر کسی نے اپنا کردار ادا کرنا ہے، اپنا حصہ ڈالنا ہے اور آگے بڑھ جانا ہے۔ کوئی نہیں رہا، کوئی نہیں رہے گا۔ بروز اتوار مورخہ 26 جولائی 2020 ؁ء کو ہمارے یہ پیارے بزرگ، مہربان اور دوست نذیر بھٹی صاب بھی راہ عدم پہ روانہ ہو گئے۔ لیکن وہ اپنی محبت بھری شخصیت اور اپنے عمدہ مزاج کے باعث ہمیشہ ہمیں یاد رہیں گے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے ہمیشہ مارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments