ڈی کوڈنگ خان


آج کل نارنجی رنگ والے ملک کے اقتدار کے ایوانوں میں اور تمام تر اعلی ترین سطح کے تھنک ٹینکز میں تھرتھلی مچی ہوئی ہے۔ لال قلعے سے لے کر ان کی خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹرز اور خفیہ ترین اداروں کے گمنام مگر طاقتور ترین سربراہان روز صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر دوبارہ صبح تک سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں، مغز ماری کرتے ہیں، بحث مباحثہ ہوتا ہے، شدید ترین نوعیت کی گرما گرمی ہوتی ہے، مگر ان سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور یہ میٹنگز بغیر کسی نتیجے پر پہنچے روز اگلے دن کے لیے ملتوی ہو جاتی ہیں۔

اور حقیقت ہے بھی یہی کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور حساس نوعیت کا معاملہ ہے جو نارنجی رنگ والے ملک کی قومی سلامتی سے وابستہ ہے۔ اس ملک کی قومی سلامتی سے وابستہ تمام تر اہم کردار ہمہ وقت اس میٹنگ میں موجود رہے ہیں مگر ان کی کنفیوژن اور ”سمسیا“ کسی طور حل ہونے کو نہیں آ رہی ہے۔ یہ سب لوگ اپنے خفیہ ترین اور اہم ترین ادرے کی سب سے اہم اور کامیاب ”انالیسز ڈیویژن“ کی انتہائی کلاسیفائڈ رپورٹ کو لے کر دن رات اس معاملے سے اپنے ملک کو ہونے والے ممکنہ نقصان سے بچانے کے لیے فیصلہ سازی اور پلاننگ میں مشغول ہیں۔ اس رپورٹ میں ”خان“ کی کامیاب ترین حکمت عملی اور اس کے خفیہ ترین ہتھیارکو، ان کے اپنے دعوے کے مطابق، ڈی کوڈ کر لیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کو ان کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے اس امید کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ان سفارشات کی روشنی میں کوئی دانشمندانہ فیصلہ ملکی مفاد میں تما م سٹیک ہولڈرز کی باہمی رضامندی سے جلد از جلد کیا جائے تاکہ ان کے ملک کو ہونے والے ممکنہ شدید ترین نقصانات اور خطرات سے بچایا جا سکے۔ اس رپورٹ کے مطابق خان انتہائی چالاکی کے ساتھ نارنجی ملک کو اکساتے ہوئے اس پوائنٹ تک لے آیا ہے جب نارنجی ملک اس کی چال میں آ کر جنگ چھیڑ بیٹھے اور ہار جائے۔

اس رپورٹ کے ہائپو تھیسیز کے مطابق ان کی ایجنسی نے خان کی حکمت عملی ڈی کوڈ کر لی ہے اور یہ رپورٹ واشگاف الفاظ میں کہتی ہے کہ خان جو کچھ بھی کہتا ہے اس کے بالکل برعکس معنی اور مراد لیتا ہے، خان کو سجی دکھا کر کبھی ما رنے کی عادت ہے، وہ اپنے دشمنوں کو ”سیٹ اپ“ کر کے ”اپ سیٹ“ کرتا ہے اور وہ اس طرح ان کو بے خبر رکھ کر، بلکہ ان کو انگریزی محارے کے مطابق ”آف دی سینٹ تھرو“ کر کے اپنے آبجیکٹو کو باآسانی حاصل کر لیتا ہے۔ اپنے رپورٹ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سربراہ نے اس رپورٹ میں دی جانے والی بے شمار مثالوں کا ذکر اس فخر کے ساتھ کیا کہ خان کو معلوم ہی نہیں کہ نہ صرف ان کی ایجنسی خان کی تمام تر حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ وہ خا ن کی خفیہ ترین اور کامیاب ترین سٹریٹیجی کو ڈی کوڈ بھی کر چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق خان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ کشکول پر یقین نہیں رکھتا اور اقتدار میں آ کر سب سے پہلے کشکول توڑے گا۔ کہ وہ خود کشی کر لے گا مگر آئی۔ ایم۔ ایف سے قرضہ نہیں لے گا۔ اس کے علاوہ بھی اس معاملے میں خان کی بہت ”سٹرونگ“ قسم کی ”سٹیٹمنٹز“ موجود ہیں لیکن اقتدار ملتے ہے خان نے شیروانی اور شلوار قمیضیں سلوانے کے بعد سب سے پہلا کام ہی آئی۔ ایم۔ ایف سے رجوع کرنے کا کیا۔ خان کے مخالفین یہ سمجھتے رہے اور خوشی سے سرشار رہے کہ جب خان آئی۔ایم۔ ایف کے پاس نہیں جائے گا تو معاشی لحاظ سے اس کی حکومت تین ماہ بھی نہیں نکال پائے گی اور اپنی موت آپ مر جائے گی، مگر خان نے ویسٹ کوٹ سلوانے کے ساتھ ہی یہ گگلی اپنے مخالفین کو کر ڈالی۔ اگلی مثال جو اس رپورٹ میں ”کوٹ“ کی گئی ہے وہ یہ کہ خان نے کہا تھا کہ ”تانگے والے“ کو ”کوچوان“ بھی نہیں بنائے گا۔ مگر یہاں بھی خان نے اپنی شاندار صلاحیت، حکمت عملی اور حس مزاح کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ناقدین کو کلین بولڈ کر ڈالا۔

اگلی مثال میں بیان کیا گیا ہے کہ خان نے کہا تھا کہ وہ ملک کے لوٹے گئے دو سو ارب ڈالر جو بیرون ملک میں پڑے ہیں ان کو واپس لے کر آئے گا، اور اس کی حکومت آتے ہی اگلے دن ملک میں سو ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری ہو جائے گی۔ یہ دراصل خان کی نارنجی ملک میں بغاوت کو ہوا دینے کی ایک چال تھی۔ کیونکہ جب نارنجی ملک کے وزیراعظم نے یہ سنا کہ سبز ملک یہ پلاننگ کر رہا ہے اور اس طرح سے وہ بین الاقوامی رینکنگ اور ریٹکنگ میں اس کے ملک سے آگے نکل جائے گا بلکہ ترقی اور خوشحالی کے راستے پر بھی گامزن ہو جائے گا، نارنجی ملک کے وزیر اعظم نے بھی اپنے ملک میں کرپشن کے خلاف ایک مہم شروع کر دی، جس میں بلیک منی کو ”ایکسپوز“ کرنے اور دس ہزار کے نوٹ کو بند کرنے جیسے اقدامت شامل تھے۔

اس کے نتیجے میں نارنجی رنگ والے ملک میں سرمائے کی گردش بری طرح متاثر ہوئی اور لوگوں نے ایک خطیر رقم کو خو د ہی جلا ڈالاجس سے اس ملک کی معیشت میں ایک بھونچال آ گیا، اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ تمام تر بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو نارنجی ملک میں سرمایہ لگا بیٹھی تھیں یا جن کا اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کا پلان تھا، انھوں نے اپنے ہاتھ روک لیے اس طرح سے نارنجی رنگ والے ملک کی اکانومی کو خان نے بغیر کسی جنگ کے ہی ”رول“ ڈالا۔

انڈے اور مرغیاں، گائے اور بھینسیں، دس لاکھ نئے گھروں کی تعمیر، بظاہر کوئی ملکی تعمیر و ترقی کا نیا منصوبہ شروع نہ کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب خان کی چالیں اور ایک ”آئی واش“ ہے۔ اسی طرح سے یہ تاثر دینا کہ سبز رنگ والا ملک معاشی اور اقتصادی لحاظ سے بالکل تباہ حال ہو چکا ہے، کمزور اور بالکل ”فرے جائل“ ہے اور یہ کہ اس ملک میں لگائے جانے والے چیف منسٹرز اور گورنرز یا وزیر دفاع ”کیپیبل ’‘ نہیں ہیں یہ بھی خان کو ایک خطرناک قسم کی چال ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نارنجی رنگ والا ملک سبز رنگ والے ملک کو غریب، کمزور اور مفلوک الحال سمجھ کر حملہ کرنے کی غلطی کر بیٹھے اور سبز رنگ والا ملک نارنجی رنگ والے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اس پر نہ صرف یہ کہ قابض ہو جائے بلکہ اس کی اکانومی پر بھی قبضہ کر لے۔

کیونکہ اب تک یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خان جو کچھ بھی کہتا ہے اس کے برعکس معنی لیتا ہے اور یہ کہ“ سجی ”دکھا کر“ کبھی ”مارنا خان کا پسندیدہ ٹیکٹک ہے۔ لہذا نارنجی رنگ والا ملک خان کی اس گہری چال میں آ کر خان کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس نہ جائے اور سبز رنگ والے ملک کو کمزور جاننے اور حملہ کرنے کی قطعاً کو شش نہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments