آن لائن کلاسز کتنی کارگر ہیں؟


کورونا وائرس سے تعلیم کا شعبہ سخت متاثر ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا اور طالبات گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ پڑھائی سے دور رہنے کی وجہ سے بچے پریشان نظر آتے ہیں۔

حال ہی میں بچوں کو آن لائن کلاسز کا ایک لالی پاپ دیا گیا ہے اور یہ لالی پاپ صرف پرائیویٹ اسکولوں اور اداروں نے دیا ہے۔ کیوں کہ ان کا مقصد سامنے آیا ہے کہ وہ بچوں کے مستقبل سے نہں بلکہ فیس سے غرض رکھتے ہیں۔ انہی دنوں میں استنبول میں ہوں اور میرا بھی ایم فل کا پہلا سیمسٹر تھا۔ میں آن لائن کلاسز کی وجہ سے بہت پریشان ہو گئی۔ اور بیزار بھی ہونے لگی۔ کیونکہ گھر میں رہ کر آن لائن کلاسز نہیں لے رہے تھے۔ ہم لوگ تو بولتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن ٹیکنالوجی جتنی اچھی ہے اور اس کے نقصانات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ ہر وقت انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات ہر کسی کے پاس نہیں، اس کے علاوہ لیپ ٹاپ کا مسئلہ بھی ہے۔ کبھی نیٹ کا بھی۔ اور کبھی وائے فائے کا، میں تو ملک سے باہر ہو ں میں تو یہاں یہ کرلوں گی۔ مگر ان غریب بچوں کا کیا جو ان سہولیات سے محروم ہیں، چند روز قبل ہی اس سلسلے میں میری بات طلبا سے ہوئی، میں نے ان سے ان کی پڑھائی کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بتایا کہ وہ سب پریشان ہیں کیونکہ کہ ہر جگہ لائیٹ کا ایک وقت مقرر نہیں ہے۔ کافی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لائیٹ نہ ہونے کی وجہ سے جنریٹر چلانا پڑتا ہے مگر کبھی کبھی وہ بھی کام نہیں کرتا۔ یو پی ایس بھی بند ہو جاتا ہے۔ اور بعض اوقات گھر میں مہمان ہوتے ہیں۔

یہ تو وہ کام ہوا کہ کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ اگر ایسا بھی ہے تو ٹھیک ہے۔ اس طرح کی سیلف لرننگ ہر کسی طلبا کو سوٹ نہیں کرتی کیونکہ ہر انسان کی ذہنی صلاحیت اور خاصیت الگ الگ ہے۔ کوئی بچہ ایک بات کو جلدی سیکھ جاتا ہے، تو کوئی بہت دیر سے۔ آن لائن کلاسز کا مقصد اگر طلبا کو سیلف میڈ بنانا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اس طرح کے صلاحیتیں سب میں موجود نہیں ہیں اور اس کے علاوہ ہم نے جو ترقی کی ہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے کی ہے۔

لیکن ای لرننگ ہمارے لیے نیا تجربہ ہے۔ ہم نے ای بکس، ای ریڈنگ ور ای اسکولنگ پر توجہ نہیں دی ہے۔ کیونکہ ہمارا واسطہ کبھی ایسی وبا یعنی کورونا سے نہیں پڑا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا۔ اس کے علاوہ بہت سے طلبا کے پاس تو کمپیوٹر کی سہولت بھی نہیں ہے۔ جبکہ نیٹ کے پیکیجز بھی بہت مہنگے ہیں۔

جبکہ آن لائن کلاسز لینے والے اساتذہ کی بھی تربیت نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی بہت مسائل ہو رہے ہیں، وہ کس طرح آن لائن کلاسز لے سکتے جب انہوں نے خود بھی آن لائن تربیت نہیں لی ہے۔ یہ سب Zoom App پر کیا جا رہا ہے۔ میں ایک استاد ہونے کے ساتھ طالبہ بھی ہوں، اس لیے میں انے دونوں تجربات بھی بتا رہی ہوں۔ مجھے بحیثیت طالبہ کلاس لینی تھی جہاں ہم 25 طلبا تھے، جب آن لائن کلاسز ہوتے تو صرف 10 تھے اور جب میں پڑھانے کو تیار ہوتی تو دو تین دن سے طلبا کے مسلسل رابطے کرنے کے بعد صرف دس طلبا آن لائن ہوئے، جبکہ میری کلاس میں پڑھنے والے بچے 25 تھے۔ میرے پوچھنے پر کوئی لیپ ٹاپ خراب ہونے کی بات کرنے لگا تو کوئی نیٹ کی سہولت نہ ہونے کا جواز پیش کرتا رہا۔

کووڈ۔ 19 صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں تباہی مچا دی ہے، مگر کافی ممالک نے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس پر قابو پا لیا ہے۔ صرف ایک ہمارا ملک پاکستان ہے جہاں ابھی تک کورونا کے کیس ظاہر ہو رہے ہیں۔ اور یہ کیس تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عوام مر رہے لیکن لاک ڈاؤن نہیں کیا جا اتا ہے۔ اس صورتحال میں ایچ ای سی نے اعلان تو کر دیا کہ بچے اپنی پڑھائی سے لگے رہیں وہ بھی گھر میں بیٹھے کر تعلیم حاصل کریں۔

لیکن انہیں وہ سہولیات بھی تو میسر ہوں۔ دکانیں صبح 8 سے 5 بچے تک کھل رہیں ہیں، کھانے پینے کے ریسٹورنٹ بھی کھلے ہیں مگر تعلیمی ادارے بند ہیں ، وہاں اساتذہ اور طلبا دونوں کو جانا منع ہے۔ شروع سے ہی ہمارے ہاں تعلیم کے حوالے سے بہتر رویا بہتر نہیں رکھا گیا۔ مگر اس بار تو پاکستان سمیت کئی ممالک میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔ آن لائن کلاسز سے بچوں کو کوئی جسمانی سرگرمی نہیں ہوتی۔ جب وہ اسکول جا رہے ہوتے ہیں تو ایک ڈسیپلن ہوتا ہے، وہ محض وہاں سے ڈگری نہیں لیتے بلکہ اپنی شخصیت بھی سنوارتے ہیں۔

اگر اس طرح کا کوئی مطالبہ کرو تو کہتے ہیں کہ ابھی حالات ایسے ہیں ویسے ہیں۔ لیکں آپ اس کا حل بھی تو نکالیں۔ طلبا کو لیپ ٹاپ فراہم کریں۔ ننیٹ فراہم کریں، بینظیر کارڈ دینے سے بہتر ہے عوام کو شعور دیں تاکہ طلبا ٹیکنالوجی سے آگاہ ہوں اور ان کی دلچسپی پیدا ہو۔ اس کے علاوہ ایچ ای سی اساتذہ کے لیے ٹریننگ پروگرام ترتیب دے، کہ آن لائن کلاسز کسے لی جاتی ہیں ، اس عمل کو بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ہی بچوں کی تعلیم میں بہتری آسکتی ہے، کیوں کہ یہ بچے ہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔

اگر ان کی بنیاد ٹھیک نہیں ہو گی تو عمارت بھی بہتر نہیں بن پائے گی، لہٰذا بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ یہ بھی ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر عبدالسلام بن سکیں۔ مگر آج کل کے بچے تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس لیے ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ طلبا کی تعلیم کے لیے ایسی صورت بنائے جس سے وہ خود بہتر محسوس کرتے ہوئے پڑھیں۔ مگر آنے والے وقتوں میں ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ اور ہمیں چاہیے کہ اپنے اسکلز کو بہتر کریں اور زیادہ سے زیادہ وقت متبادل ذرائع ڈھونڈیں تاکہ آنے والے وقت کا سامنہ کر سکیں۔

صدف شیخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف شیخ

صدف شیخ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہیں سندھی اور اردو رسائل و اخبارات میں کالمز لکھنا پسند ہے۔

sadaf-shaikh has 11 posts and counting.See all posts by sadaf-shaikh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments