کورونا کی آڑ میں ٹیپو سلطان کی تاریخ مٹا دی


جنوبی ہند دکن کی سلطنت میسور کے سلطان حیدر علی کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ میسور میں ارکاٹ نامی علاقے میں ایک بزرگ حضرت ٹیپو مستان ولی کا مزار مبارک تھا۔ سلطان حیدر علی اپنی اہلیہ اور والدہ کے ہمراہ حضرت ٹیپو مستان ولی کی درگاہ پر حاضر ہوا اور فاتحہ خوانی کے بعد اولاد نرینہ کے لئے دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اورانہیں ایک خوبصورت بیٹا عطا فرمایا۔ سلطان حیدر علی نے صاحب مزار سے اظہار عقیدت کے طور پر اپنے بیٹے کا نام ٹیپو سلطان رکھ دیا۔

18 ویں صدی میں ٹیپو سلطان میسور کی ریاست کا کا حکمران بنا۔ ٹیپو سلطان دنیا میں راکٹ سازی اور میزائل سازی کا موجد مانا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے 1792 ء کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف پہلی بار راکٹ استعمال کرتے ہوئے دشمن کو عبرت ناک شکست دی۔ امریکہ کے خلائی تحقیق کے ادارے ”ناسا“ کے میوزیم کی ایک دیوار پر ٹیپو سلطان کے ایجاد کردہ راکٹوں اور میزائلوں کی تصاویربھی آویزاں ہیں۔ ٹیپو سلطان برصغیر پاک و ہند کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے اردو کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا پہلا اردو اخبار ”فوجی“ نکالا۔

وہ واحد مشرقی حکمران تھا جس کی زندگی محلات میں گزرنے کی بجائے جنگ کے میدانوں میں گزری، اپنی زندگی کے آخری چار سال ٹیپو سلطان نے جنگی خیمے میں کمبل اور اینٹ کے تکیے پر گزارے۔ وہ ان چند ہندوستانی بادشاہوں میں سے تھا جنہوں نے انگریزوں کو شکست کا مزہ چکھایا۔ اپنے سولہ سالہ دور حکومت میں ٹیپو سلطان نے مذہبی رواداری اور بہادری کے اعلیٰ نمونے پیش کیے ۔

ٹیپو سلطان میسور سے تقریباً 15 کلومیٹر دور سری رنگا پٹنم میں ایک خوبصورت مقبرے میں اپنے والد حیدر علی اور والدہ فاطمہ فخرالنسا کے پہلو میں دفن ہے جہاں ہر سال 4 مئی کو ٹیپو سلطان کا یوم شہادت اور 10 نومبر کو ٹیپو سلطان جینتی منایا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کے علاوہ، ہندواور عیسائی بھی شرکت کرتے ہیں۔ کرناٹک کی سابقہ کانگریس حکومت نے چند برس قبل ریاست کے کئی دیگر ہیروز کی طرح ٹیپو کو افتخار کرناٹک قرار دیا اور ان کے یوم پیدائش پر سرکاری طور پر جشن منانا شروع کیالیکن جب سے کرناٹک میں حکمراں جماعت، بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی) کی حکومت قائم ہوئی ہے، یہ تقریبات منسوخ کردی گئیں۔

بی جے پی کے رہنما ہر وقت ٹیپو سلطان کو ظالم اور ہندو دشمن کے طور پر پیش کرتے ہوئے تاریخ سے ٹیپو سلطان کا نام مٹانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اپنی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اب ”بی جے پی“ نے کورونا وبا کا سہارا لیتے ہوئے ایک نئی چال چلی ہے۔ بھارتی سرکاری معلومات کے مطابق ریاست کے محکمہ تعلیم نے کووڈ۔ 19 وبا کے سبب اسکولوں کے نہ کھلنے کے پیش نظر اسکول کے نصاب میں 30 فیصد کمی کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ساتویں جماعت کے نصاب سے ٹیپوسلطان اور اس کے والد سلطان حیدر علی سے متعلق باب ختم کر دیے گئے ہیں۔

نصاب میں صرف اور صرف ٹیپو سلطان اور سلطان حیدر علی کے مضمون ختم کرنا مسلمان حکمرانوں کی تاریخ کو مٹانے کا واضح اشارہ ہے۔ وہی ٹیپو سلطان شہید جس نے ہندوستان کے لئے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی، آج اسی ٹیپو سلطان کو اپنے ہی ملک میں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کرناٹک حکومت کے اس اقدام پر دنیا بھر میں شدید مذمت کا اظہارکیا جا رہا ہے۔

ادھرراجستھان یونیورسٹی بھی تاریخ کی نصابی کتب میں یکسر تبدیلی پر غور کر رہی ہے۔ بی جے پی کے رکن ریاستی اسمبلی موہن لال گپتا نے تجویز دی ہے کہ 1576 کی ہلدی گھاٹ کی لڑائی کے تاریخی واقعے کو تبدیل کر کے یہ بتایا جائے کہ وہ جنگ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے نہیں بلکہ راجپوت بادشاہ مہارانا پرتاب سنگھ نے جیتی تھی۔ بی جے پی کے ایک اور سینئر رکن سوم سنگیت کا کہنا ہے کہ تاج محل ہندوستان کی تاریخ کا حصہ نہیں جبکہ اس سے قبل اتر پردیش کی حکومت تاج محل کو محکمہ سیاحت کے کتابچے سے ہٹا چکی ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ نصاب سے مٹانے کے ساتھ ساتھ بھارت کے بہت سے تاریخی علاقوں کے اسلامی نام تبدیل کر کے ہندو نام رکھ دیے گئے ہیں جبکہ ان دنوں آگرہ، علی گڑھ اور لکھنو کے نام بھی ہندو ناموں میں تبدیل کرنے کے لئے سازش تیار کی جارہی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود انتہاء پسند ہندو پارٹی، بی جے پی شایدیہ بات نہیں جانتی کہ نئی تاریخ بنانے کی بجائے پرانی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کرنے والے ایک دن خود مٹ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments