کیا تارکین وطن کی حب الوطنی مشکوک ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ تارکین وطن پاکستانیوں نے صرف سال دو ہزار انیس میں پاکستان کتنی رقم بھیجی؟ ساڑھے بائیس ارب ڈالر جو کل پاکستانی جی ڈی کے آٹھ فیصد سے بھی زائد ہے اور اشیا و خدمات میں کل پاکستانی ایکسپورٹ کا تقریباً اسی فیصد کے برابر ہے۔
اگر پاکستانی یہ رقم ریمیٹنس کی شکل میں نہ بھیجیں تو کیا ہو؟ پاکستان دیوالیہ ہو جائے، چند ماہ میں۔ جی ہاں، اسی لئے جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہے تو پاکستانی حکومت تارکین وطن سے درخواست شروع کر دیتی ہے کہ پلیز رقم زیادہ بھیجیں، پاکستان کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔
مگر آپ ان تارکین وطن سے سلوک کیا کر رہے ہو؟ آپ کو جب ان کی ضرورت پڑے تو درخواست کرو کہ جناب ایک ایک ہزار ڈالر بھیج دیں اور پارٹی فنڈز کی خطیر رقم بھی ان سے لیں۔ ۔ ۔ جب وہ ملک لوٹیں تو انہیں میسج کریں کہ آپ کے پاس صرف نوے دن ہیں اگر ٹیکس دے کر اپنا موبائل رجسٹرڈ نہ کروایا تو موبائل بند کر دیا جائے، اور ائرپورٹ پر اضافی سرچارج لو ان کی ٹکٹوں پر۔ یعنی سب فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں مگر جب کچھ دینے کا وقت آئے تو ان کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دیا جائے؟
یہ ویسا ہی معاملہ ہے کہ پاکستان ہر سال اربوں روپے مغربی ممالک سے فارن ایڈ کی شکل میں لیتا ہے، دو ہزار انیس میں پاکستان نے بیرون ممالک سے (جن کی غالب اکثریت مغربی ممالک کی ہے ) کل دو ہزار اٹھارہ ارب روپے امداد میں وصول کیے۔ ۔ ۔ دو ہزار پندرہ میں اس کا بھی دگنا وصول کیا۔ ۔ ۔ موجودہ مالی سال دو ہزار بیس۔ اکیس کے لئے پاکستان دو ہزار پندرہ سے بھی زیادہ کی توقع کر رہا ہے کیونکہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں پاکستان کا بہت سارا انحصار بیرونی امداد اور قرضوں پر ہے۔
(یاد رہے کہ ان اعداد و شمار میں ملٹری سپورٹ شامل نہیں جسے عموماً پاکستان میں پبلک نہیں کیا جاتا – امریکہ ہماری فوج کو کتنی امداد دیتا ہے اس لئے یو ایس ایڈ کی یہ ویب سائٹ دیکھ لیں –
ہماری ریاست ایک طرف ان مغربی ممالک سے ڈھیر ساری امداد لیتی رہتی ہے مگر دوسری طرف ان گروہوں کی سرپرستی کی جاتی ہے جو ان مغربی ممالک کے خلاف نفرت پاکستانی شہریوں کے اندر انڈیلتی رہتے ہیں کہ یہ ممالک ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ یہ وہ دہرا رویہ ہے جسے ہماری زبان میں منافقت کہتے ہیں اور جو ہمارے سماج کو کمزور اور غیر تعمیری بنا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ آئدروس نے کل استعفی دے دیا۔ الزام یہ لگ رہا تھا کہ چونکہ ان کے پاس دوہری شہریت ہے اس لئے کانفلکٹ آف انٹرسٹ (جسے دوسرے لفظوں میں حب الوطنی پر شک کہنا چاہیے ) ممکن ہے اگرچہ ان دونوں وزارتیں کا قومی سلامتی کے امور سے کوئی براہ راست تعلق نہ تھا، یہ ایک طرح کی کنسلٹیشن دے رہے تھے۔
جب آئی ایم ایف سے بجٹ ڈیٹیل ڈسکس کی جا رہی ہوتی ہیں تب کانفلکٹ آف انٹرسٹ نہیں آتا؟ جب فارن ایڈ لی جا رہی ہوتی ہے یہ تب بھی نہیں آتا، جب پاکستانی فوج امریکہ سے فوجی امداد لے رہی ہوتی ہے یہ تب نہیں ہوتا؟ یہ صرف تب ہوتا ہے جب تارکین وطن اپنے ملک کوئی بڑی خدمات سرانجام دینے آتے ہیں؟
یہ باعث شرم ہے ان تارکین وطن کے لئے بھی جو مغربی ممالک میں مقیم ہو کر وہاں کے ہر رائٹس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی کہہ رہے ہوتے ہیں ہمارا اصلی گھر تو پاکستان ہے، یہاں تو ہم مہاجر ہیں۔
- حماس اسرائیل قضیے میں چند گزارشات - 19/05/2021
- مولانا طارق جمیل سے اختلاف کس بات کا ہے؟ - 03/05/2021
- کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟ - 28/03/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).