افغانستان میں ہیروئن کی صنعت ہمیں شمسی توانائی کے بارے میں کیا سکھاتی ہے؟


Justin Rowlatt and poppy farmers

اگر آپ کو کبھی یہ شبہ رہا ہے کہ شمسی توانائی بھی تغیر پذیر ٹیکنالوجی میں ڈھل سکتی ہے تو آپ یہ تحریر ضرور پڑھیں۔ یہ کہانی اسی بارے میں ہے کہ کیسے ایک سخت ماحول میں شمسی توانائی نے اپنی قدر و قیمت کو ثابت کیا۔

میں جس مارکیٹ کی بات کرنے والوں ہوں وہ شاید کرہ ارض پر سرمایہ داری کی خالص ترین مثال ہے۔

اس کی کوئی سبسڈی نہیں ہوتی۔ کوئی ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں نہیں سوچتا۔ نہ ہی دوسری کسی قسم کی اخلاقیات کی فکر ہوتی ہے۔

یہ چھوٹے کاروباری افراد کے بارے میں ہے جو منافع کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ کہانی ہے کہ پوست کے افغان کاشتکاروں نے کیسے شمسی توانائی کو اختیار کیا اور دنیا میں ہیروئن کی ترسیل میں اضافہ کیا۔

ہلمند پر پرواز کرتے سیاہ ہاک

میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں تھا جو ہلمند میں گھنے پوست کے کھیتوں کے اوپر اُڑ رہا تھا جبھی میں نے پہلا وہاں سولر پینل دیکھا جس کے ذریعے شمسی توانائی پیدا کی جارہی تھی۔

آپ نے ہلمند کے بارے میں سنا ہوگا، یہ افغانستان کا سب سے خطرناک صوبہ ہے۔

افغانستان کی جنگ میں 454 برطانوی فوجی مارے گئے جن میں سے پانچ ہلمند میں ہلاک ہوئے۔

یہ علاقہ اب تک دنیا بھر میں پوست کی کاشت کے لیے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کینابس‘: پاکستان میں ’بچوں‘ کا نشہ؟

منشیات، بندوق، تنخواہ اور امریکی ووٹرز

’ذہنی اور دوستوں کا دباؤ منشیات کے استعمال کی اہم وجہ‘

a famer holds an opium poppy

اس پوست سے ہیروئن بنتی ہے اور یہ سب سے زیادہ لت لگانے والی منشیات میں سے ایک ہے۔

اقوام متحدہ میں منشیات کی غیر قانونی سمگلنگ کی نشاندہی کرنے اور اس سے نمٹنے کے ادارے یو این آو ڈی سی کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والی پوست کا 80 فیصد حصہ ہلمند سمیت ملک کے جنوب مغربی حصوں سے آتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کی سپلائی کا دو تہائی حصہ۔

یہ وہ جگہ نہیں جو ملک کی معیشت کو کاربن سے پاک کرنے کی کوششوں میں سر فہرست دکھائی دیتی ہوں۔

لیکن جونہی میں نے یہ سولر پینل دیکھا اس کے بعد مجھے اور بھی دکھائی دیے۔

بلکہ درحقیقت وہاں ہر کھیت کے پاس سولر پینل کی قطاریں تھیں اور یہ سنہ 2016 تھا۔

اور یہ دور حاضر میں ہیروئن کی پیداوار میں آنے والے انقلاب کا تعین کر رہا تھا اور جس کا میں غیر دانستہ طور پر شاہد بنا۔

صرف میں فرد واحد نہیں تھا جس نے یہ بات نوٹس کی کہ افغان کاشتکار کم سے کم کاربن والی ٹیکنالوجی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

خلا سے ملنے والے شواہد

انگلینڈ کے جنوب میں گلڈ فورڈ کے علاقے میں رچرڈ بریٹن اپنے دفتر میں کمپیوٹر پر جھکے ہوئے ہیں۔

وہ افغانستان کے حالیہ سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لے رہے ہیں۔

بریٹن سابق برطانوی فوجی ہیں اور ان کی کمپنی ایلسک سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لینے میں مہارت رکھتی ہے جسے وہ پیچیدہ ماحولیات کہتے ہیں۔

یہ خطرناک مقامات کے لیے خوش کلامی کے مترادف ہے، دوسری چیزوں کے ساتھ مسٹر بریٹن افغانستان میں منشیات کی صنعت کے بھی ماہر ہیں۔

وہ ہلمند میں ایک صحرائی علاقے کو زوم آؤٹ کرتے ہیں۔

چند سال پہلے یہاں کچھ نہیں تھا۔ لیکن اب یہاں کھیتوں میں گِھرا ایک فارم ہے۔

ذرا سا زوم کر کے قریب جائیں تو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں ایک بڑے حوض کے پاس سولر پینلز کی قطاریں ہیں۔

ذرا سا دائیں جانب ایک اور فارم ہے۔ یہاں بھی وہی انداز ہے سولر پینلز اور حوض۔

سیٹلائٹ کی تصاویر

Maxar
سیٹلائٹ کی تصاویر میں بھی سولر پینل دیکھے جاسکتے ہیں

اس پورے علاقے میں ہم اسی تصویر کے ساتھ نیچے آتے گئے تو یہی انداز پھر سے دیکھنے کو ملا اور بار بار ملا۔

بریٹن نے بتایا کہ ’یہ صرف بتاتا ہے کہ اب پوست کی کاشت کیسے ہوتی ہے۔ انھوں نے زمین سے 100 میٹر (325 فٹ) نیچے تک کھائی کی ہے تاکہ برقی پمپ کے ذریعے پانی نکالا جا سکے اور اسے ان چند سولر پینلز سے بجلی فراہم کی جاتی ہے اور پانی کی حاصل ہو جاتا ہے۔‘

اس جدید ٹیکنالوجی کو تیزی سے اختیار کیا گیا۔

پہلی مرتبہ افغان کسانوں کی جانب سے سولر پینل کے استعمال کی خبر سنہ 2013 میں سامنے آئی۔

اسی سال ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں تاجروں نے چند سولر پینلز اکٹھے کرنا شروع کیے۔

اس کے بعد سے پیداوار میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا۔ کھیتوں کے قریب لگائی جانے والے سولر پینلز میں ہر سال دو گنا اضافہ ہوتا ہے۔

سنہ 2019 تک بریٹن کی ٹیم نے وادی ہلمند میں 67000 سولر سسٹم کی قطاریں شمار کی تھیں۔

لشکر گاہ کے بازار میں سولر پینلز کے ڈھیر تین منزل تک بلند ہیں۔

لشکر گاہ کے بازار میں سولر پینلز کے ڈھیر

لشکر گاہ کے بازار میں سولر پینلز کے ڈھیر

یہ سمجھنا آسان ہے کہ اس کی تجارت کیوں اتنی زیادہ ہے۔

اس شمسی تونائی سے اس علاقے میں کھیتوں کی پیداوار کو نئی جہت ملی ہے۔

مجھے دو ہفتے قبل ایک ایسے پوست کے کھیت کی ویڈیو ملی جہاں کبھی ریگستان ہوا کرتا تھا۔

اس کسان نے ہمیں اپنے 18 سولر پینلز پر مبنی دو ڈھیر دکھائے۔ ان سے ملنے والی بجلی سے اس کے دو برقی پمپ چلتے ہیں جن سے حوض بھرتا ہے۔

اس نے اس چھوٹے سے کینال کی ویڈیو بھی بنائی جس کے ذریعے وہ اپنی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ اس کے کھیتوں کے اردگرد کا حصہ کافی ہرا بھرا ہے۔

اس نے اپنی پوست مئی میں کاشت کی اب وہ وہاں ٹماٹر اُگا رہا ہے۔

farmer irrigating

ہم ویڈیو دیکھ رہے تھے جب ڈاکٹر ڈیوڈ مینس فیلڈ نے مجھے بتایا کہ شمسی توانائی نے ان کسانوں کے لیے سب کچھ بدل دیا ہے۔

اس تحقیق کے مصنف ڈاکٹر مینس فیلڈ ہی ہیں۔ وہ افغانستان میں پوست کی کاشت کے بارے میں گذشتہ 25 سال سے تحقیق کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شمسی توانائی کو یہاں متعارف کرانا سب سے اہم ٹیکنالوجی کی تبدیلی ہے۔

اس سے قبل ڈیزل کی مدد سے پانی کے پمپ استعمال کیے جاتے تھے جو کہ ان کسانوں کے لیے سب سے بڑا خرچہ ہوتا تھا۔

لیکن ڈاکٹر منس فیلڈ کہتے ہیں کہ خرچے کے علاوہ دیگر مسائل بھی تھے۔

‘اس علاقے میں ملنے والا ڈیزل بہت ملاوٹ والا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے پانی کے پمپ اور جینریٹر دونوں خراب ہو جاتے تھے جو کہ مزید خرچے اور مسائل کا باعث بنتا تھا۔’

لیکن اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔

صرف پانچ ہزار ڈالر ایڈوانس دے کر یہ کسان سولر پینل اور ایک برقی پمپ خرید سکتے ہیں۔ اور ایک دفعہ یہ لگ جائے، تو پھر مزید کوئی خرچہ نہیں ہوتا۔

وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پانچ ہزار ڈالر قطعی طور پر معمولی رقم نہیں ہے لیکن اس کی مدد سے حاصل ہونے والے فوائد بے تحاشہ ہیں اور اگر کسی نے قرض لیا ہو تو وہ دو سال میں اسے اتار سکتا ہے۔

‘اور اس کے بعد تو پھر پانی بالکل مفت ہے۔’

اور ایسا ہونے کی صورت میں کسان نہ صرف زیادہ پوست کاشت کر سکتے ہیں بلکہ اور دیگر فصلیں بھی اگا سکتے ہیں۔

شمسی توانائی کے استعمال سے کسان ان مقامات میں پوست کاشت کر سکتے ہیں جہاں پہلے ممکن نہ تھا۔

بس سامان خریدنا ہے، پانی تو مفت ہے

بس سامان خریدنا ہے، پانی تو مفت ہے

صحراؤں میں واپس

گلڈفورڈ میں واقع اپنے آفس میں رچرڈ بریٹن نے اپنی سکرین کھولی جس میں انھیں افغانستان کی ہلمند کی وادی کا پورا منظر دکھائی دے رہا تھا۔

انھوں نے اس عکس پر ایک اور تصویر ڈالی تاکہ اس علاقے میں 2012 سے جاری کاشتکاری کے حصوں کو دیکھ سکیں۔

آٹھ سال قبل کسان ڈیڑھ لاکھ ہیکڑ سے زیادہ رقبے پر کام کر رہے تھے۔ مختلف تصاویر سے ظاہر ہوا کہ کیسے یہ تعداد بڑھتی گئی۔ اور اس اضافے کی وجہ بنی تھی سولر پینل، جس کے متعارف کرانے کے بعد سے کسانوں کے لیے ممکن ہو گیا تھا کہ وہ کاشتکاری کے لیے صحرائی علاقوں تک جا سکیں۔

اگلے چھ سال، یعنی 2018 تک 317000 ہیکڑ کے رقبے پر کاشتکاری ہو ری تھی۔ اور 2019 میں بڑھ کر 344000 لاکھ ہیکڑ ہو گئی۔

رچرڈ بتاتے ہیں کہ اس دوران زمین میں فصل پیدا کرنے کی صلاحیت میں بھی ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اور تصاویر میں یہ ظاہر تھا کہ جس جس علاقے میں کسان شمسی توانائی استعمال کر رہے ہیں اور صحرائی علاقوں میں پانی پہنچا رہے ہیں، اس کی مدد سے زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھ رہی ہے۔

اور اس اضافے کی وجہ سے ان علاقوں میں آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔

رچرڈ بریٹن کہتے ہیں کہ گذشتہ پانچ سال میں ہلمند میں پانچ لاکھ کے قریب لوگوں نے ہجرت کی۔ ان کی ٹیم کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق علاقے میں اس عرصے میں 48 ہزار نئے مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔

اور اس اضافے کا سب سے اہم اثر پڑا ہے عالمی طور پر منشیات کی فراہمی میں۔

اقوام متحدہ ہر سال تخمینہ لگاتی ہی کہ سالانہ کتنی غیر قانونی منشیات دنیا بھر میں تیار ہو رہی ہے۔

جب افغانستان میں سولر پینلز متعارف نہیں کرائے گئے تھے تو 2012 میں ان کے اندازے کے مطابق ملک میں 3700 ٹن افیون کی پیداوار ہوئی تھی۔ لیکن اگلے چار برس میں یہ بڑھ کر 4800 ٹن تک پہنچ گئی۔

اور سنہ 2017 تو بہت ہی زبردست سال رہا جب افغانستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فصل اگی جس کی تعداد نو ہزار ٹن افیون تھی۔

اور یہ اتنی زیادہ تھی کہ عالمی منڈی میں قیمتیں گر گئیں۔ لیکن پھر کیا ہوا، یہ بہت دلچسپ بات ہے۔

سنہ 2018 اور 2019 میں افغانستان میں پوست کی کاشت کے مجموعی علاقے میں کمی دیکھنے میں آئی ماسوائے جنوب مغرب کے جہاں کسانوں نے بڑی تعداد میں شمسی ٹیکنالوجی پر پیسے صرف کیے تھے۔

ان علاقوں میں افیون کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

سال 2019 میں صرف اس علاقے میں پیدا ہونے والی افیون کی مقدار تقریباً پانچ ہزار ٹن تھی جبکہ افغانستان کی مجموعی پیداوار 6400 ٹن تھی۔

پیداواری صلاحیت میں اس قدر اضافے کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے۔

Farms in 2012


Farms in 2019

ستمبر میں برطانوی پولیس نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی کرتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ ٹن کے قریب ہیروئن ضبط کی جس کی مالیت 12 کروڑ پاؤنڈ تھی۔

تو اس بات میں قطعی طور پر حیرانگی نہیں ہونی چاہیے کہ انگلینڈ کے شمال مغرب میں واقعے ڈیو ہائی ہیم کے خیراتی اور اڈیکشن ریوکری مرکز میں بڑی تعداد میں لوگ جا رہے ہیں۔

ڈیو ہائی ہیم کے کام کا طریقہ ہے کہ وہ لوگوں سے احسان کا صلہ نہیں مانگتے بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ دوسروں کے لیے اچھا کام کریں، تو وہ بھی آگے جا کر مستقبل میں کسی اور کے لیے لیے کام آئیں گے۔

opium production

poppy cultivation in Afghanistan

ڈیو ہائی ہیم خود 25 سال تک ہیروئن استعمال کرتے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے خود محسوس کیا کہ حالیہ برسوں میں اس کی فراہمی میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اپنے مرکز میں آنے والے صارفین سے بات کر کے انھیں معلوم ہوا ہے کہ نہ صرف استعمال کی جانے والی ہیروئن کا معیار بہتر ہے بلکہ اس کی فراہمی بھی آسان ہے۔

ڈیو ہائی ہیم نے خود ہیروئن کا استعمال 80 کی دہائی میں کیا تھا جب ملک میں بے روز گار افراد کی تعداد 30 لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور افغانستان سے عمدہ معیار کی ہیروئن سمگل ہونا شروع ہوئی تھی۔

ڈیو ہائی ہیم کو خدشہ ہے کہ برطانیہ میں کووڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے روز گاری اور ادھر افغانستان میں افیون کی بڑھتی ہوئی فصل کہیں مستقبل میں بڑا مسئلہ نہ پیدا کر دے۔

انھوں نے تنبیہ کی کہ اگر اس پر نظر نہ رکھی گئی تو ملک میں جرائم میں اضافہ ہوگا کیونکہ نشئی افراد اپنی عادات کی خاطر مجبور ہو کر چوری کرتے ہیں۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ’ایک نئی نسل‘ کی نشاندہی کی ہے جو نشے کی عادی ہے اور مدد چاہتی ہے۔

اورزالا نعمت افغانستان میں سب سے بڑا تھنگ ٹینک چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مفاد 10 برس سے زیادہ نہیں چلیں گے۔

اورزالا نعمت

اورزالا نعمت پریشان ہیں کہ پانی ختم ہوجائے گا

وہ کہتی ہیں کہ اس سے صرف ان لوگوں کو فرق نہیں پڑے گا جو صحرائی علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ سارے خطے کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

15 لاکھ سے زیادہ افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑ سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کچھ لوگ افغانستان کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوجائیں گے۔ لیکن کئی افراد کوشش کریں گہ کہ ملک چھوڑ دیں اور یورپ یا امریکہ چلے جائیں تاکہ زندگی بہتر ہوسکے۔

انھیں کوئی شک نہیں کہ یہ ہو کر رہے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ’ایک بڑا بحران ہوگا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp