ایمنسٹی انٹرنیشنل: دولت اسلامیہ کا نشانہ بننے والے یزیدی بچے جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا شکار


بچہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یزیدی مذہبی اور نسلی اقلیت کے بچے جو عراق میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی سفاکانہ قید سے بچ گئے، وہ آج بھی شدید جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔

سنہ 2014 میں بہت سے بچے اس وقت مارے گئے جب دولت اسلامیہ نے ان کے آبائی ملک پر قبضہ کیا۔

لیکن بچ جانے والے تقریباً دو ہزار بچوں کو مناسب دیکھ بھال نہیں مل رہی۔ ایمنسٹی کے مطابق ان بچوں کو طویل المدتی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

جب شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے شمالی عراق پر حملہ کیا تو بہت سے یزیدی کوہ سنجار کی جانب ہجرت کر گئے۔ بہت سے افراد کو مار دیا گیا جبکہ تقریباً سات ہزار خواتین اور لڑکیوں کو قید کر لیا گیا جن میں سے بہت سی خواتین کا ریپ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

یزیدی ماں کی مشکل: داعش جنگجو کا بچہ یا اپنا خاندان؟

‘چھ ماہ تک ہر روز وہ میرا ریپ کرتا رہا‘

دولت اسلامیہ سے بچنے والی یزیدی خواتین کی ’رسمِ تطہیر‘

اس جنگ میں بہت سے لڑکے بھی اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہو گئے جبکہ کچھ ایسی لڑکیاں جن کا ریب کیا گیا، وہ کبھی ماں نہیں بن سکیں گی۔

ایمنٹسی کا کہنا ہے وہ غلام یزیدی خواتین جو دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے بچوں کی مائیں بنیں، انھیں اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ملک آباد کیا جائے۔

یزیدی علاقہ

BBC Sport
یزیدی قبیلے کے لوگ سنجار کے علاقے میں سنہ 2014 میں دولتِ اسلامیہ کے مظالم کا نشانہ بنے

ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں، جس کے لیے شمالی عراق میں درجنوں انٹرویو کیے گئے، کہا گیا ہے کہ بچ جانے والے بچے ’کمزور کرنے والی طویل المدتی چوٹوں‘ کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ تناؤ اور خراب موڈ جیسے مسائل کا شکار ہیں۔

بے گھر ہونے والے افراد کے کیمپ میں تعلیم کا بھی فقدان ہے جہاں ہزاروں یزیدی ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

یزیدی خواتین جن کی دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ زبردستی شادی کی گئی، وہ بھی نفسیاتی زخموں سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔

22 برس کی جاناں نے ایمنٹسی کو بتایا: ’میں اپنی کمیونٹی اور دنیا بھر میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ برائے مہربانی ہمیں اور ہمارے بچوں کو قبول کریں۔۔۔ میں ان لوگوں سے اولاد نہیں چاہتی تھی۔ مجھے ایک بچہ پیدا کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔‘

شام میں دولت اسلامیہ کے آخری گڑھ سے فرار ہوتے ہوئے بہت سی خواتین اپنے بچوں سے جدا ہو گئیں۔

24 برس کی ہاناں جن کی بیٹی کو ان سے الگ کر دیا گیا، کہتی ہیں ’ہم سب نے خود کو مارنے کے بارے میں سوچا، یا ایسا کرنے کی کوشش کی۔‘

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ان ماؤں کو مستقل طور پر اپنے بچوں کے ساتھ دوبارہ ملایا جائے۔

ایمنسٹی کی کرائسس ریسپانس ٹیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر میٹ ویلز کہتے ہیں ’ان خواتین کو غلام بنایا گیا، تشدد کیا گیا اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں اب اور سزا نہیں ملنی چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp