کیا انڈیا بیک وقت چین اور پاکستان سے محاذ آرائی کی تیاری کر رہا ہے ؟


فوجی

انڈیا نے اب اپنے روایتی ایک محاذ کی پالیسی ترک کر دی ہے اور اب وہ بیک وقت دو محاذوں پر ٹکرانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی تیاریوں میں ہے

انڈیا نے بدھ کو دنیا کے جدید ترین لڑاکا جیٹس میں شمار ہونے والے پانچ فرانسیسی جنگی طیارے اپنی فضائیہ میں شامل کر لیے ہیں۔ یہ طیارے فرانس سے پرواز کرتے ہوئے بدھ کو امبالہ کے فضائی اڈے پر پہنچے۔

انڈیا نے فرانس کے ساتھ تقریباً ساٹھ ہزار کروڑ روپے کی مالیت کے 36 رفال جنگی جہازوں کی خریداری کا سودا کیا اور یہ پانچ طیارے اسی سودے کا حصہ ہیں۔ باقی طیارے آئندہ برس کے اختتام تک انڈیا کے حوالے کیے جائيں گے۔

انڈیا کی فوج چین سے سرحدی کشیدگی کے درمیان ہنگامی حالات کے خصوصی اختیارات کے تحت فرانس سے فضا سے زمین پر وار کرنے والے ہیمر مزائل بھی خرید رہی ہے۔ انڈین فضائیہ نے حال میں روس سے 21 اضافی مگ – 29 اور 12 سوکھوئی ایس یو – 30 ایم کے آئی جنگی طیارے خریدنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

ماضی میں انڈیا کے عسکری منصوبے اور پالیسیاں پاکستان کے گرد مرکوز ہوا کرتی تھیں۔ گزشتہ 30 برس سے انڈیا اور پاکستان کی سرحد اور کنٹرول لائن دنیا کا سب سے متحرک فوجی خطہ رہی ہے۔ کوئی باضابطہ جنگ نہ ہونے کے باوجود یہ دنیا کی چند خطرناک ترین سرحدوں میں سے ایک ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا بمقابلہ چین: کیا یہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا ٹکراؤ ہے؟

انڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب

انڈیا، چین فوجی ٹکراؤ کتنا سنگین؟

کشمیر کی شورش نے اس خطے کو ایک مسلسل جنگ زدہ خطے میں بدل دیا ہے۔ انڈیا کی بیشتر فوجی توانائی اور عسکری منصوبہ بندی پاکستان کے پیرائے میں ہی ہوا کرتی تھی۔ انڈیا کی واضح پالیسی ایک وقت میں ایک محاذ پر توجہ مرکوز کرنے کی تھی۔

چین کی طرف سے انڈیا کوزیادہ مشکلات کا سامنا نہیں تھا اور وہ بیک وقت دو محاذ کھولنے کی حالت میں تھا اور نہ وہ کھولنا چاہتا تھا لیکن یہ پالیسی اب یکسر تبدیل ہو رہی ہے۔

چین سے سرحدی تنازعے کے باوجود گزشتہ چار عشروں میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سرحد پر کوئی سنگین نوعیت کا ٹکراؤ نہیں ہوا تھا، لیکن گزشتہ برسوں میں چین نے انڈیا سے اپنی تقریـباً تین ہزار آٹھ سو کلو میٹر لمبی سرحد پر بڑی بڑی شاہراہیں تعیر کیں۔ ہوائی پٹیاں اور ہیلی پیڈ بنائے اور بڑی تعداد میں فوجیوں کے رہنے کے لیے ٹھکانے تعمیر کیے۔

اس مدت میں چین کا رویہ بھی بدلتا رہا اور وہ سرحد پر اپنے دعوے کا اظہار زیادہ شدت سے کرنے لگا۔ حالیہ برسوں میں سکم، ارونا چل پردیش اور لداخ کے بعض علاقوں میں چینی فوجی کئی بار ان علاقوں میں داخل ہوئے جنھیں انڈیا اپنا خطہ سمجھتا ہے یا وہ اس کے کنٹرول میں تھے۔ کئی علاقوں پر چینی ایکچول کنٹرول لائن پار کر کے انڈیا کی زمین پر قابض ہوئے۔

سرحد پر چین کے رویے میں بڑھتی ہوئی سختی اور چینی فوجیوں کے عزائم کو محسوس کرتے ہوئے انڈیا نے پندرہ برس قبل سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں انڈیا چین سرحد پر بڑے پیمانے پر سڑکیں، فوجی اڈے اور ہوائی پٹیاں وغیرہ تعیمر کرنے کا کام شروع کیا۔ سرحدوں پر شروع کی گئیں بیشتر تعمیرات اب تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

چین انڈیا کے اس بدلتے ہو ئے پس منظر کو گہری نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اسی دوران گزشتہ برس پانچ اگست کو انڈیا نے اپنے زیر انتظام جموں کشمیرکی حیثیت تبدیل کر دی۔ پارلیمنٹ میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے جموں وکشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا۔

صرف یہ ہی نہیں حکومت نے ایک قرارداد میں چین کے زیر انتظام اکسائی چین کے علاقے کو بھی چین سے واپس لینے کا عزم کیا۔

مشرقی لداخ کے ایک بڑے حصے پر چین اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا رہا ہے۔ کشمیر اور لداخ سے متعلق پارلمیانی ترمیم سے چین میں بے چینی پیدا ہو گئی اور وہ انڈیا کے ہر قدم کو اب شک کی نظر سے دیکھنے لگا۔

شی جن پنگ، مودی

کورونا کی وبا کے ابتدائی مہینوں میں جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت پر وائرس کی اطلاعات دبانے میں چین سے ساز باز کا الزام لگایا تو انڈیا نے ان کی تائید کی۔ اسی دوران انڈیا کے ایک سرکردہ نجی بینک میں چین کے سنٹرل بینک کے ذریعے ایک فی صد حصص خریدنے کے بعد انڈیا نے ایک آرڈیننس کے ذریعے چینی کمپنیوں کی براہ راست سرمایہ کاری پر پابندی لگا دی۔

اسی ماحول میں جون کے وسط میں وادی گلوان میں خونریز جھڑپ ہوئی جس میں بیس انڈین فوجی ہلاک اور کم از کم ستر زخمی ہوئے۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ جھڑپ اپریل میں انڈین فوجیوں کے ذریعے گلوان میں سڑکیں اور پل تعیمر کرنے اور غیر قانونی طریقے سے ایل اے سی میں داخل ہونے کے سبب ہوئی۔

چین میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گلوان کی جھڑپ نے انڈیا اور چین کے درمیان مثبت رشتوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔

بیجنگ کی شنگوا یونیورسٹی میں نیشل سٹریٹیجک انسٹیٹیوٹ کے شعبہ تحقیق کے سربراہ کیان فینگ کہتے ہیں کہ انڈیا میں چین مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔

’15 جون کی جھڑپ میں بڑی تعداد میں انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انڈین سیاسی رہنماؤں، دانشوروں اور عوام کو اس نقصان کا بہت شدت سے احساس ہوا۔ جب انڈیا کا پاکستان جیسے دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو انڈیا ان کے خلاف جوابی کارروائی کرتا ہے لیکن اگر مخالف ملک چین ہے تو انڈیا کا برتاؤ الگ ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’انڈیا چین کی فوجی طاقت کے فرق اور چین کے خلاف کسی طرح کی جوابی فوجی کارروائی کے ممکنہ نتائج سے واقف ہے۔ اس لیے وہ وادی گلوان کے ٹکراؤ کا فوجی طاقت سے حل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس بے بسی کے سبب انڈیا میں چین مخالف جذبات اور شدت اختیار کر رہے ہیں۔‘

کیان ایک مضمون میں مزید کہتے ہیں کہ حالیہ سرحدی کشیدگی نے چین سے متعلق انڈیا کی حکمت عملی کو بہت حد تک متاثر کیا ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی مثبت پیشرفت رک گئی ہے۔

’امریکہ چین کی پیش قدمی روکنے کی اپنی حکمت عملی کے تحت انڈیا اور چین کے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہا ہے جس سے انڈیا اور چین کے تعلقات کے فروغ اور سرحدی تنازعات کے حل میں پیچیدگی پیدا ہو گی۔‘

چین کے سرکردہ دانشور کا خیال ہے کہ انڈیا امریکہ اور اتحادیوں سے فوجی اشتراک مستحکم کرنے میں زیادہ پر اعتماد نظر آتا ہے اور بقول ان کے یہ ’چین کی سلامتی کے لیے نسبتاً ایک بڑا خطرہ پیش کر رہا ہے اور اس سے مستقبل میں گلوان جیسے معاملات سے نمٹنا اور زیادہ مشکل ہوگا۔‘

انڈیا میں بھی چین کے حوالے سے سٹریٹیجک سوچ میں بنیادی تبدیلی لانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

ملک کے کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ ماضی کے رہنماؤں کے مقابلے زیادہ طاقتور اور جارح ہیں۔

سابق خارجہ سکریٹری وجے گوکھلے نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ صدر شی اپنی قابلیت کے زور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔

وجے گوکھلے لکھتے ہیں ’انھیں (صدر شی) یقین ہے کہ وہ اکیسویں صدی کو چین کی صدی میں تبدیل کریں گے۔ جس طرح ماؤ زے دنگ کو ’فرسٹ ہنڈرڈ‘ کارہنما تصور کیا جاتا ہے اسی طرح شی ’سیکنڈ ہنڈرڈ‘ کے رہنما بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے دنیا کو ایک لمبے عرصے تک ان کا سامنا رہے گا اور اسی لیے انھیں سمبھنا بہت ضروری ہے۔‘

انڈیا کی نئی نسل کو 1962 کی انڈیا چین جنگ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن جنگ میں چین سے شکست انڈیا کی قومی نفسیات میں بہت گہرائی سے پیوست ہے۔

چند دنوں پہلے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کہا تھا کہ ’وزیر اعظم نریندر مودی نے لوگوں کے سامنے ایک طاقتور رہنما کا امیج پیش کیا ہے لیکن اب وہ گلوان میں انڈیا کی سرزمین سے چینیوں کو پیچھے دھکیلنے کے بجائے اپنا طاقتور رہنما والا امیج بچانے میں مصروف ہیں۔‘

چین کے ضمن میں انڈیا اب تذبذب سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مودی نے ابتدائی جھجھک کے بعد چین کے خلاف اس محاذ میں شامل ہونے کافیصلہ کر لیا ہے جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے اور جس میں چاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔

چین کو فوجی طور پر شکست دینے کی انڈیا کی تمنا بہت پرانی ہے۔ بدھ کو فرانس سے پانچ رفال جنگی طیارے جب انڈیا پہنچے ہیں تو اس وقت انڈین میڈیا میں ایک جنون طاری تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انڈیا اب ان طیاروں کی مدد سے چین کو شکست فاش دینے والا ہے۔

اس جنون میں میڈیا ہی نہیں دائیں بازو کی ہندو مائل قوم پرست حکومت بھی مبتلا ہے۔ چین سے اپنے جنگی ساز و سامان کا موازنہ کرنے میں انڈین تجزیہ کار یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ چین اقتصادی طورپر دنیا کا دوسرا سب سے طاقتور ملک ہے۔

چین امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کی دہلیز پر ہے۔ وہ ٹیکنالوجی میں، ریسرچ میں سب سے آگے نکل چکا ہے۔ انڈیا اپنے سارے جنگی سازو سامان دوسرےملکوں سے خریدتا ہے۔ اس کے برعکس چین اپنے جنگی طیارے، طیارہ بردار بحری جہاز ، آبدوزیں، بندوقیں توپیں ٹینک سبھی کچھ خود تیار کرتا ہے۔

چینی فوجی

چین کی فوج میں 2183000 فوجی اہلکار ہیں

ملکوں کے جنگی ساز وسامان کا تجزیہ کرنے والے معروف ادارے فائر پاور کے مطابق انڈیا کا سالانہ دفاعی بجٹ 71 ارب ڈالر کا تھا جبکہ چین کا بجٹ261 ارب ڈالر کا ہے۔ انڈین فوج میں 1444000 فوجی ہیں جبکہ چین میں 2183000 فوجی ہیں جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 620000 ہے۔

چین کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 3210 ہے جبکہ انڈیا کے پاس 2123 طیارے ہیں اور پاکستان کے پاس 951 طیارے ہیں ۔ چین کے پاس فوجی نوعیت کے 911 ہیلی کاپٹر جبکہ انڈیا کے پاس 722 ہیلی کاپٹر ہیں۔

انڈیا کے پاس 4292 اور چین کے پاس 13050ٹینک ہیں، چین کے پاس 40000 بکتر بند گاڑیاں اور انڈیا کے پاس یہ تعداد 6686 ہے۔

انڈیا کے پاس ایک طیارہ بردار بحری جہاز ہے جبکہ چین کے پاس ان کی تعداد دو ہے۔ انڈیا کے پاس 16 آبدوزیں ہیں تو اس کے برعکس چین کے پاس 74 ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 8 آبدوزیں ہیں۔

انڈیا کے پاس 346 ہوائی اڈے جبکہ چین میں یہ تعداد 507 ہے۔

سیپری کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پاس 150 جوہری بم جبکہ پاکستان کے پاس 160 بم ہونے کا اندازہ ہے۔ چین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس 320 جوہری بم ہیں۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب انڈیا اور پاکستان کے عسکری پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ جوہری بم مستقبل میں جنگ روکنے کا سبب بنیں گے لیکن گزشتہ سال بالاکوٹ میں کارروائی اور اب جون میں وادی گلوان میں خونریز جھڑپ کے بعد اس سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔

انڈیا نے اپنے روایتی ایک محاذ کی پالیسی ترک کر دی ہے اور اب وہ بیک وقت دو محاذوں پر ٹکرانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ یہ ایک پر خطر راستہ ہے۔

تباہ کن جوہری بموں سے آراستہ دنیا کے دو سب سے بڑے آبادی والے ملک اس راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو یقیناً امن کا راستہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp