کوریا کی جنگ: اُن جنگی قیدیوں کی بیٹیاں ان کی عزت کے لیے آج بھی لڑ رہی ہیں جو کبھی گھر نہیں لوٹے


پھانسی

وہ جتنا چاہے کوشش کر لے لیکن لِی کو یاد نہیں آتا کہ ان کے بھائی اور والد کو سزائے موت دینے والے جلاد کی جانب سے تین گولیاں چلائے جانے کے بعد کیا ہوا۔ یہ تین دہائی پہلے کی بات ہے جب وہ خوف اپنی عمر کی تیسری کی دہائی میں تھیں۔

البتہ انھیں یہ یاد ہے کہ اس سے کچھ دیر پہلے کیا ہوا تھا۔ سکیورٹی اہلکار انھیں شمالی کوریا کے ایک دور دراز گاؤں اوجی میں گھسیٹتے ہوئے ایک سٹیڈیم تک لائے۔ انھیں زبردستی ایک لکڑی کے پُل کے نیچے بٹھایا گیا جہاں انھیں انتظار کرنا تھا، یہ جانتے ہوئے کہ وہاں کیا ہونے والا ہے۔

مجمع اکٹھا ہوا، ایک ٹرک آیا اور دو افراد کو باہر نکالا گیا، یہ اُن کے والد اور بھائی تھے۔

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں لِی کا کہنا تھا ’انھیں ستونوں کے ساتھ باندھا گیا، انھیں قوم کا غدار، جاسوس اور رجعت پسند کہا گیا۔‘

یہ وہ لمحہ تھا جب ان کی یاداشت لڑکھڑا گئی۔ وہ کہتی ہیں ’میرا خیال ہے میں چیخ رہی تھی، میرا جبڑا ٹوٹ گیا تھا، میرے ایک ہمسائے مجھے گھر لائے تاکہ میرا جبڑا ٹھیک کر سکیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

کوریا سے دہائیوں بعد چینی فوجیوں کی باقیات واپس

ہزاروں کوریائی مہاجروں کو بچانے والی ’معجزوں کی کشتی‘

’دشمن‘ ملک کے بچوں کو پالنا کتنا آسان؟شمالی کوریا کے بچے جنوبی کوریا میں

بھولے بسرے قیدی

لِی کے والد اُن پانچ ہزار قیدیوں میں شامل تھے جنھیں کوریا کی جنگ کے بعد شمالی کوریا میں قید کر لیا گیا تھا۔

ان قیدیوں کو ان کی مرضی کے خلاف شمالی کوریا کے فوجی یونٹوں میں اکٹھا کیا گیا اور ان سے باقی کی تمام زندگی تعمیراتی کام اور کان کنی کروائی گئی۔

جب 27 جولائی 1953 کو عارضی صلح ہوئی تو جنوبی کوریا نے یہ سوچا کے جلد ہی قیدیوں کا تبادلہ ہو گا اور انھیں گھروں کو بھیج دیا جائے گا۔ لیکن شمالی کوریا نے محض قیدیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ واپس بھیجا۔

جلد ہی جنوبی کوریا والے اُن قیدیوں کو بھول گئے۔ جنوبی کوریا کے تین صدور شمالی کوریا کے رہنماؤں سے ملے لیکن ان کے ایجنڈے پر بھی جنگی قیدیوں کا ذکر نہیں رہا۔

صدر

جنوبی کوریا کے صدر سنگ مین ری نے یکطرفہ فیصلہ لیتے ہوئے شمالی کوریا کے جنگی قیدی رہا کیے تھے

شمال میں لِی کے خاندان کو بُرا سمجھا جاتا ہے۔

لی کے والد جنوبی کوریا میں پیدا ہوئے اور کوریا کی جنگ میں اقوام متحدہ کی فوج کے شانہ بشانہ شمال کے خلاف لڑے جو ان کے خاندان کے لیے سیاہ دھبہ بن گیا۔

معاشرے میں ان کی کم حیثیت ان کی ملازمتوں اور حالات میں مزید تنزلی کا باعث بنی۔ لی کے والد اور بھائی دونوں کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے جہاں جان لیوا حادثات معمول تھے۔

لی کے والد کا خواب تھا کے وہ ایک روز گھر لوٹیں گے، اس وقت جب دونوں ملک پھر سے متحد ہو جائیں گے۔ کام کے بعد وہ بچوں کو اپنی جوانی کے قصے سناتے، کبھی کبھی وہ اپنے بچوں سے جنوب میں بھاگ جانے کو کہتے۔ وہ کہتے ’وہاں مجھے اعزاز دیا جائے گا تم لوگ ایک ہیرو کے بچے کہلاؤ گے۔‘

لیکن لی کے بھائی نے ایک روز دوستوں کے ساتھ شراب پیتے ہوئے اپنے والد کی باتیں ان سے کر دیں۔ ان کے ایک دوست نے حکام تک یہ باتیں پہنچا دیں۔ کچھ مہینوں میں لِی کے بھائی اور والد کو مار دیا گیا۔

سنہ 2004 میں لی جنوبی کوریا آنے میں کامیاب ہو گئیں۔ تب انھیں اپنے والد کی غلطی کا احساس ہوا۔ ان کا ملک انھیں ہیرو کے طور پر نہیں جانتا تھا، ان پرانے قیدیوں کو گھر لانے کے لیے بہت کم مدد کی گئی تھی۔

Choi scolded her father after being rejected to study at a university

شمالی کوریا میں رہ جانے والے فوجی مشکلات کا شکار رہے۔ انھیں ریاست کا دشمن سمجھا جاتا ہے، انھیں شمالی کوریا کے معاشرے میں بس ادنی سا مقام دیا جاتا ہے۔

ایسا مقام موروثی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے بچے بھی اعلی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے یا انھیں اپنا پیشہ اختیار کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔

چوئی بھی ایک نمایاں طالب علم تھیں لیکن یونیورسٹی جانے کی ان کی خواہش ان کے والد کی حیثیت کی وجہ سے پوری نہیں ہو سکی۔ ’تم رجعت پسند ، تم اپنے ملک واپس کیوں نہیں جاتیں۔‘

ان کے والد کبھی واپس پلٹ کر جواب نہیں دیتے۔ تاہم شکستگی سے انھیں ضرور کہتے کہ ان کا ملک ان کی واپسی کے لیے بہت کمزور ہے۔ آٹھ سال پہلے چوئی اپنے خاندان کو چھوڑ کر جنوبی کوریا آ گئیں۔

’میرے والد یہاں آنا چاہتے تھے، میں وہاں آنا چاہتی تھیں جہاں وہ شخص تمام عمر آنے کا خواہشمند رہا لیکن آ نہیں سکا، آنا چاہتا تھا جسے میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔ اسی لیے میں نے اپنے بیٹے، بیٹی اور شوہر کو چھوڑ دیا۔‘

چوئی کے والد اب نہیں رہے اور جنوبی کوریا کے کاغذات میں ان کے والد حیات نہیں تھے کیونکہ وہ جنگ میں مارے گئے تھے۔

Son retrieved her father's remains from North Korea

’والد کی ہڈیاں گھر لانی ہیں‘

سن میونگ کو واضح طور پر یاد ہے کہ ان کے والد نے 40 برس قبل بستر مرگ پر جو آخری الفاظ کہے۔ ’اگر تم جنوب میں جاؤ تو میری ہڈیاں لے جانا، مجھے وہاں دفن کرنا جہاں میں پیدا ہوا تھا۔‘

ان کے والد جنوبی کوریا کے فوجی تھی، وہ بوسان سے 14 کلومیٹر دور ہے۔ شمالی کوریا میں انھیں کوئلے کی کان اور لکڑی کے کارخانے میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انھیں کینسر سے موت سے محض 10 روز قبل گھر جانے کی اجازت ملی۔

انھوں نے اپنے بیٹے کو بتایا ’اپنے والدین کو دوبارہ نہ دیکھ سکنے کے بعد یہ بہت قابل رحم موت ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ وہاں دفن ہو جاؤں۔‘

سن میونگ کو آٹھ برس لگے اپنے والد کی باقیات کو جنوبی کوریا لانے میں۔ انھوں نے اپنے بہن بھائی سے کہا کہ وہ والد کی باقیات کو کھود کر نکالیں اور چین میں ایک بروکر تک پہنچائیں۔ اس کے لیے تین سوٹ کیسز درکار تھے۔ ’بیٹے کے دو دوست آگے آئے لیکن باپ کی کھوپڑی لے جانے والے ان کے بیٹے تھے۔‘

’سن نے‘ ایک سال تک اپنے والد کی حیثیت کو تسلیم کیے جانے کے لیے احتجاج کیا ایک ایسا سپاہی جسے واپس نہیں لایا گیا اور بلآخر سنہ 2015 میں وہ ان کی تدفین قومی قبرستان میں کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں ’میرا خیال ہے کہ میں بے بحیثیت بیٹی بلآخر اپنا فرض ادا کیا۔ لیکن میرا دل دکھتا ہے جب مجھے ان کی آخری سانسیں یاد آتی ہیں۔‘

سن نے کو بعد میں علم ہوا کہ اس تدفین کی ان کے خاندان کو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ بعد میں اُن کے بہن بھائیوں کو سیاسی قیدی بنا دیا گیا۔

سن اب ایک تنظیم چلاتی ہیں وہ ایسے 110 قیدی فوجیوں کے خاندان کی بھلائی کے لیے کام کرتی ہے جو کبھی گھر نہیں لوٹ سکے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے سن یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئیں کہ وہ اپنے والد کی بیٹی ہیں۔ یہ ثابت کرنا ان کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ انھیں جنوبی کوریا سے اپنے والد کے واجبات کی وصولی کرنا تھی۔

اگر وہ جنوبی کوریا سے بھاگ نکلنے میں کامیاب بھی ہو جاتے تو جنگی قیدیوں کے بچوں کو سرکاری طور پر شناخت نہیں ملتی اور بہت سے واپس نہ آنے والے قیدیوں کو مردہ یا گمشدہ تصور کر لیا جاتا۔

صرف مٹھی بھر جنگی قیدی جو فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، انھیں بلا معاوضہ اجرت ملی اور جو لوگ شمال میں قید میں مر گئے وہ کسی بھی معاوضے کے اہل نہیں تھے۔

جنوری میں سن اور ان کے وکلا نے عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں اس بار پر زور دیا گیا کہ شمالی کوریا میں مرنے والے جنگی قیدیوں کے خاندانوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا اور یہ کہ حکومت نے قیدیوں کو ان کے ملک بھیجنے کے لیے کچھ نہیں کیا، جو کبھی نہ واپس آنے والے قیدیوں کے ذمہ دار ہیں۔

سن کہتی ہیں ’ہم اداس تھے کے ہم قیدیوں کے بچوں کے طور پر پیدا ہوئے اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ جنوبی کوریا آ جانے کے بعد بھی ہمیں نظر انداز کیا گیا۔‘

’اگر ہم اپنے پاپ کی عزت واپس نہ لا سکے تو جنگی قیدیوں اور ان کے بچوں کی خوفناک زندگیوں کو بھلا دیا جائے گا۔‘

اس تحریر میں کچھ نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ تصویری خاکے ڈیوس سریا نے بنائے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp