سندھ میں آٹھ ماہ بعد مرغے کی پولیس تحویل سے رہائی


سندھ میں آٹھ ماہ بعد مرغے کی پولیس تحویل سے رہائی

سندھ کے ضلع گھوٹکی کی ایک مقامی عدالت نے آٹھ ماہ سے پولیس کی تحویل میں موجود ایک مرغے کو مالک کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔

سندھ کے دو تھانوں میں پانچ مرغے پولیس کے مہمان بنے رہے جن میں سے ایک کو اب رہائی مل گئی ہے۔ پولیس نے انھیں مرغوں کی لڑائی کے کھیل پر چھاپے مار کر مبینہ ملزمان کے ساتھ تحویل میں لیا تھا۔

گذشتہ روز گھوٹکی کے شہر حیات پتافی کے رہائشی ظفر میرانی نے سول جج میرپور ماتھیلو کی عدالت میں درخواست دے کر مرغے کی سپردگی کی گزارش کی تھی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ کسی نجی کام کے سلسلے میں کراچی میں رہائش پذیر تھا اس لیے پولیس تحویل میں لیے گئے مرغے کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکا۔ لہذا اب یہ مرغا اس کے حوالے کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

سرکار کے مہمان، ’مہنگے اور لڑاکا مرغے‘

مرغوں کی لڑائی: غیر قانونی مگر مقبول

‘مرغے ریٹائر بھی تو ہوتے ہوں گے’

کراچی کا ’ٹک ٹاک پولیس سٹیشن‘ سیل کر دیا گیا

عدالت نے ظفر میرانی کی درخواست قبول کرلی اور پولیس کو مرغا مدعی کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا اور جروار پولیس نے مرغا عدالتی احکامات کے تحت ظفر کے حوالے کردیا۔

’مہمان‘ مرغے پولیس کی جیب پر بھاری

ایس ایچ او جوہی ممتاز سرکی کا کہنا ہے کہ ملزمان ضمانت پر رہا ہوگئے جبکہ مرغے بطور کیس پراپرٹی پولیس کی تحویل میں ہیں اور جب تک عدالت ان کا فیصلہ نہ کر لے وہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے کے پابند ہیں۔

جوہی تھانے میں ان مرغوں کو لاک اپ یا مال خانے میں نہیں رکھا گیا۔ انھیں کھلی جگہ میں ایک ٹانگ میں رسہ باندھ کر بندی بنایا گیا ہے۔

مرغ

یہ روزانہ ایک سو روپے تک کا باجرہ کھا جاتے ہیں جو پولیس کو اپنی جیب میں سے خریدنا پڑتا ہے۔

ایک نائب ہیڈ محرر کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ مرغوں کے دانے پانی کا خیال رکھے گا، اگر یہ مرغے سست پڑ جائیں یا بیمار ہوجائیں تو محکمہ لائیو سٹاک کے ڈاکٹر سے ان کا علاج کرایا جاتا ہے۔

ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ان مرغوں کو بلوں اور کتوں سے بھی بچانا ہوتا ہے کہ وہ انھیں نقصان نہ پہنچائیں کیونکہ اگر نقصان پہنچا تو عدالت ناراضی کا اظہار کرسکتی ہے۔

مرغے پولیس کی تحویل میں کیوں؟

ضلعہ دادو کے جوہی تھانے میں کل چار اور گھوٹکی ضلعے کے جروار تھانے میں ایک مرغا موجود رہا جنھیں مرغوں کی لڑائی کے کھیل پر چھاپے مار کر مبینہ ملزمان کے ساتھ تحویل میں لیے گئے تھے۔

جوہی پولیس نے ان مرغوں کو کچھ ماہ قبل دو درجن ملزمان کے ساتھ تحویل میں لیا تھا۔

اس وقت تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہیں جبکہ مرغوں کی حوالگی کا کسی نے دعویٰ نہیں کیا۔ ایف آئی آر میں ان مرغوں کی برآمدگی کا ذکر آنے کے بعد انھیں کیس پراپرٹی قرار دیا گیا۔

اسی طرح جروار تھانے کی پولیس نے بھی ایک درجن کے قریب افراد کو گرفتار کرکے ایک مرغا برآمد کیا تھا، جو بدھ کی شام مالک کے حوالے کیا گیا۔

اس سے قبل یہ مرغا بعض اہلکاروں کے لیے سر درد بنا رہا۔

ایک اہلکار کے مطابق ’جب نائیٹ ڈیوٹی کرکے آتے ہیں تو مرغے کی بانگ پریشان کرتی ہے۔‘

کچھ ایسا ہی موقف ایس ایچ او جوہی کا ہے ان کا کہنا ہے کہ صبح و شام جب یہ بانگ دیتے ہیں تو ’بڑی بیزاری ہوتی ہے۔‘

مرغ

مرغوں کی لڑائی پر پابندی

پاکستان کے چاروں صوبوں اور بالخصوص دیہی علاقے میں مرغوں کی لڑائی ایک پسندیدہ مشغلہ اور کھیل ہے۔

بعض لڑاؤں میں مرغوں کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لڑائی میں مرغوں کی کامیابی پر شرط لگائی جاتی ہیں۔

ویسے تو مرغوں کی کئی نسلیں ہیں لیکن سب سے اعلیٰ نسل ’اصیل‘ کہلاتی ہے۔

سندھی اصیل بڑے قد اور بھاری جسامت کا ہوتا ہے جو طاقتور اور شاطر سمجھا جاتا ہے۔ مرغوں کی شوق رکھنے والوں کو خفتی کہا جاتا ہے جو اپنے لڑاکا مرغے کا نام رکھتے ہیں اور ان کی خوراک کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

مرغے لڑانے کی سزا

انسداد جوا ایکٹ 1977 کے مطابق تمام اقسام کے جوے پر پابندی ہے۔ سرعام شرط لگانے اور جوا کھیلنے پر زیادہ سے زیادہ ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ ہے۔

دادو کے سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ اگر مال مویشی ہو تو مختیارکار کے زیر انتظام سرکاری مال کیٹل فارم میں بھیج دیا جاتا ہے، تاہم پرندوں کے حوالے سے کوئی فارم موجود نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ لالہ حسن پٹھان کا کہنا ہے کہ پرندوں کے حوالے سے قانون خاموش ہے۔ سی آر پی سی 516 اے اور 517 میں ملزمان اور جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والی دیگر اشیا کے بارے میں وضاحت موجود ہے لیکن پرندوں کا کیا جائے اس بارے میں کوئی ذکر نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر پولیس مرغوں کی برآمد نہیں دکھاتی۔ انھیں واپس مالک کے حوالے کردیا جاتا ہے یا کہیں استعمال ہوجاتا ہے۔

’ایسے کم ہی کیسز ہیں جن میں مرغوں کو کیس کا حصہ بنایا گیا اور (یہاں) ان پچیدگیوں کا سامنا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp