ماں تجھے سلام


مجھے یہ دہرانے کی تو ضرورت نہیں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے، امثال میں بھی لکھا ہے ”بچے کی اس راہ پر تربیت کر جس پر اسے جانا ہے، وہ بوڑھا ہوکر بھی اس سے نہیں مڑے گا۔“ لگ بھگ پندرہ سال قبل ہم نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں ”مدرزڈے“ کی تقریب کا انعقاد کیا۔ مدرز ڈے کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات تو نہیں تھی اور تقریب کا مقصد Get together تھا لہذا قریبی دوستوں کو مدعو کیا، دوستوں نے گپ شپ کے ماحول میں اپنی ماؤں کے ساتھ محبت کا برملا اظہار کیا۔

تقریب میں دوستوں جیسے قریبی عزیز مزمل حسین صابری (مرحوم) اس وقت ’اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ (آئی سی سی آئی) کے سینئر وائس پریذیڈنٹ کو مدعو کیا۔ بعد ازاں صابری صاحب آئی سی سی آئی کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ صابری صاحب نفیس انسان تھے، دھیمے لہجے میں بڑی بڑی باتیں کہا کرتے تھے۔ گزشتہ سال انہی دنوں میں ان موت کی خبر سن کر بڑا افسوس ہوا۔ مرنے سے قبل ان کے گھر پر میری ملاقات ہوئی تھی، کہنے لگے یار بہت دیر ہوگئی ہم نے کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا، کوئی پروگرام بناؤ پرانے دوستوں کو اکٹھا کرتے ہیں، گپ شپ بھی ہو جائے گی اور دل کی باتیں بھی۔

میں نے کہا عید کے بعد کوئی پروگرام بناتے ہیں، لیکن قدرت کو شاید یہ منظور نہیں تھا، گزشتہ سال عید سے چند روز سلطان بشیر (فوٹو جرنلسٹ) نے فیس بک پر لکھا کہ مزمل حسین صابری کا بیرون ملک انتقال ہوگیا ہے، عید کے بعد اسلام آباد کے قبرستان میں جنازہ ہوگا۔ یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ ہم اکثر اوقات بہت سے کاموں کو ٹال دیتے ہیں لیکن پھر وقت ہی نہیں ملتا۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ ”محمد ارسلان“ نامی ایک نوجوان اپنی والدہ کو زدوکوب کر رہا تھا اور مبینہ طور پر اس کی سوتیلی بہن نے ”زوبیہ میر“ نے ویڈیو بناکر وائر ل کردی۔

ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اسے حراست میں لے لیا۔ بعض ازاں اس نوجوان کی بیوی نے اپنی صفائی میں ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی مگر کسی نے اس کی صفائی قبول نہ کی۔ مجھے اس ویڈیو کلپ سے یہ اندازہ ہوا کہ نوجوان کو اس کی بیوی نے ہی اشتعال دلایا جس کے بعد اس نے یہ حرکت کی جس پر معاشرے کے ہرفرد نے اسے لعنت ملامت کی۔ طاقت کے نشے میں ہم بعض اوقات ایسے کام کر جاتے ہیں جو بعد میں ساری عمر ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور معافی مانگنے سے بھی نہیں ملتی۔

اسی سے متعلق ایک واقعہ پر پنجابی کے معروف شاعر انور مسعود نے شاعری بھی کر رکھی ہے جس میں انورمسعود صاحب نے ایک حقیقی واقعے کو نفیس انداز میں پیش کیا ہے۔ ایسے بہت سے کردار معاشرے میں ہمیں نظر آتے ہیں مگر معاشرے میں ایسے کاموں کا سدباب نہیں کیا جاتا۔ البتہ سوشل میڈیا کے عام ہونے کی وجہ سے اب اگر ایسی کوئی بات سامنے آ جائے تو ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ حکمران ہاتھ دھو کر سوشل میڈیا کے پیچھے بھی پڑے ہوئے ہیں۔

بیرونی ممالک میں بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کے لئے باقاعدہ طور پر ایسے ادارے بنائے جاتے ہیں جہاں بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل مشنریوں کے قائم کردہ کچھ ادارے ابھی بھی موجود ہیں جہاں پر معاشرے کے ٹھکرائے گئے افراد کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے اس وقت بھی مجھے بعض دوستوں نے کہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ”مدرز ڈے“ یا ”فادرز ڈے“ نہیں منائے جاتے بلکہ ہردن مدرز ڈے یا فاردرز ڈے ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ایسے واقعات ہمارے معاشرے کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہم بظاہر مغربی تہذیب کو برا بھلا کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور بطور معاشرہ ہم والدین کی خدمت کے دعویدار ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ارسلان جیسے بہت سے کردار معاشرے میں آج بھی موجود ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ریاستی سطح پر بوڑھے اور معذور افراد کی دیکھ بھال کے لئے ادارے بنانے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ غیر سرکاری سطح پر کچھ ایسے ادارے کام کر رہے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر کل وقتی اداروں کی ضرورت ہے۔ غیر سرکاری اداروں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 12.5 ملین بوڑھے افراد ہیں اور اسے دنیا کے صرف 15 ممالک کے گروپ میں شامل کیا گیا ہے جس میں ایک کروڑ سے زیادہ عمر رسیدہ افراد ہیں۔

معاشرے میں اپنے اردگرد ایسے لوگوں کا خیال رکھیں اور نہ صرف اپنی مدد آپ کے تحت ایسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے بلکہ ایسے اداروں کے قیام کے لئے حکومت وقت پر بھی دباؤ بڑھایا جائے جہاں پر بوڑھے افراد کی مناسب دیکھ بھال ہو سکے بلکہ انہیں مصروف رکھتے ہوئے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ حاصل کرکے بہت سے کام لیے جا سکتے ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ وفاقی وزارت انسانی حقوق کی جانب سے مرکز میں پرسن ود ڈس ایبلیٹی Person with Disability اور سینئر سٹیزن ایکٹ Senior Citizen Act کے تحت مسودے پر کام ہو رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات خوش آئند ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت انسانی حقوق کی وزارتیں چونکہ صوبوں میں بھی قائم ہیں لہذا امید کی جاسکتی ہے کہ صوبائی سطح پر بھی قانون سازی کے بعد ایسے اداروں کا قیام ممکن ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments