سیاسی کورونا گلگت بلتستان میں


ٓٓآج کل گلگت بلتستان سیاست کی اماجگاہ بن چکا ہے۔ ہر الیکشن کی طرح اس بار بھی سیاسی وائرس گلگت بلتستان کی فضاء میں پھیل چکا ہے۔ یہ سیاسی وائرس کورونا وائرس سے مشابہت رکھتا ہے اسی لئے اس کو سیاست کا کورونا یاسیاسی کورونا کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ کورونا مختلف ہیتوں میں عوام کے بیچ وارد ہوتا ہے۔ کبھی کبھار یہ وائرس کسی ہیت کے بغیر ہی لوگوں میں پھیل جاتا ہے اور لوگ اس کے زیر عتاب آ جاتے ہیں۔

سیاسی کورونا کے مریضوں میں چند اہم علامات پائی جاتی ہیں جن کی نشاندہی کرنا عام آدمی کے لئے لازم ہے تاکہ ایک صحت مند شخص اس وبائی شخص سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ دونوں وبائی ہیں کورونا خود ہی پھیل جاتا ہے مریض چاہے یا ناچاہے لیکن سیاسی کورونا کے مریض چاہتے ہیں کہ ان کو لگی وبا ء جلد از جلد دوسروں میں بھی منتقل ہو جائے اور یہی کچھ آج کل گلگت بلتستان میں ہورہا ہے۔ لوگ دھڑا دھڑ اس کا شکا ر ہورہے ہیں اور نئے نئے گروہ بن رہے ہیں۔

کورونا کا پہلا مریض چائنہ کے شہر وہان میں دریافت ہوا اور وہاں سے چند ہی مہینوں میں پوری دنیا میں پھیل گیا جبکہ سیاسی کورونا کا پہلا مریض کون تھا کہاں سے پھیلا کچھ علم نہیں البتہ سیاسی کورونا کو پوری دنیا میں پھیلنے میں صدیاں لگی۔ گلگت بلتستان میں بھی کئی سالوں سے وفاق کا سیاسی کورونا پھیل رہا ہے اور یہاں کے باسیوں کو غلامی کے دلدل میں دھکیل رہا ہے۔

کورونا وائرس میں دوسرے جسم میں منتقل ہونے کے بعد تھوڈی تبدیلی رونماں ہوجاتی ہے اسی طرح ہر ملک میں سیاسی کورونا کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کی کئی اقسام ہیں اور ان میں سے کچھ گلگت بلتستان میں بھی پھیل چکی ہیں جن میں لاڈکانہ سے پی پی پی کا سیاسی کورونا، رائیونڈ سے ن لیگ کا سیاسی کورونا اور بنی گالہ سے پی ٹی آئی کا سیاسی کورونا سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ فرقاوارانہ منافرت کا کورونا ایران اور سعودیہ عرب سے امپورٹڈ بھی ہے جو مذہب کے نام پر لوگوں کولڑاتا ہے اور گلگت بلتستان کے کچھ سادہ لوگ مذہب کے نام پے لڑ کے کسی بھی مذہبی پارٹی کو ووٹ دے کر جنت کا ٹیکٹ پکا سمجھ لیتے ہیں۔

دونوں کورونا میں مماثلت یہ بھی ہے کہ کوروناوائرس ایک انسان کو دوسرے انسان سے دور کرتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے لئے موت کا فرشتہ ثابت ہو سکتا ہے اور سیاسی کورونا بھی بھائی کو بھائی سے، بیٹے کو باپ سے، بیوی کو شوہر سے اور نیز ایک رشتہ دار کو دوسرے رشتہ دار، ایک ہمسائے کو دوسرے ہمسائے سے جدا کرتا ہے اور نفرت کا بیچ بوتا ہے۔ الیکشن کے دنوں میں اس کا اثر عروج پہ جاتا ہے لیکن کچھ میں ایک دو ماہ یا سال ڈیڑھ سال کے بعد اثر مدہم پڑجاتا ہے لیکن چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں پورے پانچ سال تک یعنی کہ اگلے الیکشن ہونے تک اس کا اثر موجود رہتا ہے لیکن کورونا کا اثر مختصر اور شدید ہوتا ہے اور چند ہی دنوں میں یا تو مریض جان چھوڑتا ہے یا مریض کی جان کورونا سے چھوڑتی ہے۔

کورونا کا مریض اس کو جانے انجانے میں دوسروں میں منتقل کرتا ہے جبکہ سیاسی کورونا کا مریض اس وبا کا ایجنٹ بن جاتا ہے اور سہولتکار کے طور پر اپنی زندگی اس کی ترویج میں گزاردیتا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے ایک قسم سے چھٹکارامل جائے تو فوراً ہی اگلے قسم کا سیاسی کورونا اس کو اپنے گرفت میں کرلیتا ہے۔

کورونا کے ویکسین کے لئے دنیا بھر کے سائنسدان سر جوڑ کرکوشش میں لگے ہوئے ہیں اور بہت جلد ویکسین بھی تیار کر لی جائے گی۔ فل حال پلاسما کے ذریعے علاج کیا جا رہا ہے لیکن آ ج تک سیاسی کورونا کے لئے کوئی ویکسین بھی نہیں بنی ہے اور شاید بنے گی بھی نہیں۔ سیاسی کورونا کے مد مخالف انسانی جسم کا قوت مدافعت بھی لاچار ہے اور دوائیوں سے بھی افاقہ نہیں پڑتا۔

کورونا کے روک تھام کے لئے مریض کو کرنتینا سنٹر منتقل کیا جاتا ہے جبکہ سیاسی کورو نا کے مریض کے لئے کوئی کرنتینا سنٹر بھی نہیں ہے لہذا یہ کھلم کھلا گھومتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں صحت یاب ہونے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہو دونوں کورونا معاشرے میں انسانی سوچ اور صحت کے لئے مضر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments