صادقین، اک داستانوی شخصیت


1968۔ 69 ء میں جب میں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اکنامکس میں ایم اے سال اول میں داخلہ لیاتو میرا قیام کراچی یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں رہا جہاں ہمارے گروپ کی سربراہ نزہت سلطان تھیں۔ وہ انگریزی ایم اے فائنل کر رہی تھیں۔ طلعت شہناز ایم اے فائنل فزکس میں تھیں، ممتاز موسیٰ تھرڈایئر آنرز بائیو کیمسٹر ی میں اور بلقیس جسے ہم سب بلی کہتے تھے، فزیالوجی تھرڈ ایئر آنرز میں تھیں۔ کچھ عرصہ بعد ممتاز کے ڈپارٹمنٹ کی روحی پیرزادہ بھی ہمارے گروپ میں شامل ہو گئی تھیں۔

پولیٹکل سائنس ایم اے فائنل کی خاموش طبع نسیم بھی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ نزہت سلطان کو ہم متفقہ طور پر اپنا لیڈر مانتے تھے۔ ایک تو وہ اس وقت چین میں پاکستان کے سفیر سلطان صاحب کی بیٹی تھیں، دوسرے ہاسٹل کے پرووسٹ ترمذی صاحب کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں وہ ہم طالبات کی نمائندگی کرتی تھیں۔ شہر میں ہونے والی سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کی خبریں بھی وہی لاتی تھیں۔ ہم سب ویک اینڈپر اپنے اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتے تھے۔

ایک مرتبہ ویک اینڈ گزار کے آنے کے بعد انہوں نے بڑی گرمجوشی سے ہمیں بتایا کہ پیرس سے ایک آرٹسٹ آیا ہے، وہاں اس نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے، کوئی ایوارڈ بھی اسے فرانسیسیوں نے دیا ہے اور اب وہ کراچی میں ہی رہے گا۔ ظاہر ہے ہم سب بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ کب اس کاکام دیکھنے کا موقع ملے گاجس نے پیرس والوں سے اپنے کام کو منوایا، یقینی طور پر غضب کا آرٹسٹ ہو گا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کا نام صادقین تھا۔ اس کا کثیر ا لجہتی کام فرانسیسیوں کو پکاسو کی یاد دلاتا تھا۔

ایک دن خبر ملی کہ غالب کے اشعار پر بنائی ہوئی اس کی پینٹنگز کی نمائش آرٹس کونسل میں ہو رہی ہے۔ ہم شہر سے بارہ میل پرے کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بس میں سفر کر کے آرٹس کونسل پہنچ گئے۔ ہال میں چاروں طرف ترتیب سے پینٹنگز لگی ہوئی تھیں۔ غالب کے مختلف اشعار کے ساتھ بنی ہوئی پینٹنگز ہمیں دوسرے آرٹسٹس کی تصاویر سے بہت مختلف اور بہت اچھی لگیں۔ پانچویں یا چھٹی پینٹنگ کے سامنے پہنچی ہی تھی کہ اچانک ارد گرد ہر چیز کی موجودگی کا احساس ختم ہو گیا اور جسم لرزنے لگا، صرف پینٹنگ نظر آ رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے پورے جسم میں بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہو۔ یہ لمحاتی کیفیت ختم ہوئی تو میں اگلی تصویر کی طرف بڑھ گئی۔ اپنی وہ کیفیت آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی۔ نہ ہی میں نے کسی سے اس کا ذکر کیا۔

بہرحال جیسے آج ہم سوشل میڈیا پر اور ویسے بھی شاعری کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’یہ جون ایلیا کا عہد ہے‘ تو وہ مصوری، خطاطی، شاعری اور کراچی کی ثقافتی و سماجی زندگی کے حوالے سے صادقین کا عہد تھا۔ آرٹس کونسل میں ان کی تصویری نمائشیں آرٹ لورز کی عید ہوتی تھیں۔ کیکٹس کا پودا ان کی پسندیدہ علامت تھا جو ان کی اکثر تصویروں میں نظر آتا تھا۔ انسانی شبیہوں کے لمبے لمبے ہاتھ اور ناخن بھی کیکٹس جیسے لگتے تھے۔ ان دنوں کراچی یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ ایک دبلا پتلا، لمبا سا گورا چٹا لڑکا ہوتا تھا۔ اس کی وجہ ء شہرت یہ تھی کہ وہ صادقین کا بھتیجا تھا۔ شاید صادقین اپنی پینٹنگز میں مردانہ شبیہوں کے لئے اسے ماڈل کے طور پر استعمال کرتے ہوں۔ اس لڑکے کا نام سلطان احمد تھا اور حال ہی میں اپنے فیس بک پیج پراس نے ہمارے اس تاثر کی تائید کچھ اس طرح کی ہے :

” 1970 ء دوسری جنگ عظیم میں اتحادی ملکوں کی فتح اور اور فسطائیت اور نازی جرمنی کی شکست کا پچیسواں سال تھا۔ چچا جان (صادقین) نظریاتی طور پر مارکسسٹ تھے۔ اس موقع کی مناسبت سے انہوں نے چار فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی تصویر In the memory of heroesبنائی تھی۔ میں اس زمانے میں یونیورسٹی کا طالبعلم اور بائیں بازو کی تنظیم این ایس ایف کا سرگرم کارکن تھا۔ اس پینٹنگ کے ہیرو کے طور پر چچا جان نے میری قد آدم تصویر بنائی۔ اس تصویر کا ہیرو امن کا داعی اور قلم کا مجاہد ہے جو فسطائیت کے مونسٹر کو شکست دے کر اس کے سر پر کھڑا ہے۔ ایک ہاتھ میں امن کی کتاب اور سرخ پرچم ہے جب کہ ایک ہاتھ میں قلم ہے جس سے وہ خنجر کو توڑ رہا ہے۔ یہ تصویر رسالہ طلوع میں شائع ہوئی تھی۔ اب ماسکو کے کسی میوزیم میں ہے“

ہم صادقین کی پینٹنگز کے سحر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ انہوں نے خطاطی شروع کر دی، رباعیات لکھنے لگے۔ پٹ سن کی جلد والی ان کی رباعیات کی کتاب ان کے دستخطوں کے ساتھ سالوں میں نے سنبھال کر رکھی لیکن اب یاد نہیں آ رہا کہ کہاں ہے۔ صادقین کی ایک بہت بڑی وجہ شہرت ان کے میو رلز تھے۔ انہوں نے اسٹیٹ بنک، فرئیر ہال کراچی، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، منگلا ڈیم کے علاوہ ہندوستان کی یو نیورسٹیوں کے لئے بھی میورلز بنائے۔

دہلی کے اسلا مک انسٹیٹیوٹ کی بلڈنگ میں ان کی بہت سی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ کراچی کے فرئیر ہال والا میورل جس کا عنوان ”ارض و سما“ تھا، ان کی زندگی کا آخری میورل تھا۔ وہ اسے مکمل کرنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے اس میورل کو کراچی کے شہریوں کے نام منسوب کیا تھا۔ صادقین صحیح معنوں میں ایک درویش صفت آدمی تھے۔ وہ زیادہ تر اپنی پینٹنگز مفت بانٹ دیا کرتے تھے۔ سرکاری عمارتوں میں میورلز بھی انہوں نے مفت بنائے۔

ہمارا زمانہ ء طالبعلمی ختم ہوا تو غم روزگار اور ضیاء الحق کی آمریت کی بدولت آرٹ اور کلچر کی طرف توجہ دینے کی مہلت ہی نا ملی۔ بقول فیض: ’جب دکھ کی ندیا میں ہم نے جیون کی ناؤ ڈالی تھی۔ تھا کتنا کس بل باہوں میں لوہو میں کتنی لالی تھی۔ یوں لگتا تھا، دو ہاتھ لگے اورناؤ پورم پار لگی مگر ایسا نہ ہوا‘ ۔ ہم بھی کچھ ایسے ہی مراحل سے گزرے اور پھر ایک عشرے بعد سال اب یاد نہیں، ہاں ہم دو بچوں کی اماں بن چکے تھے، ایک مرتبہ پھر آرٹس کونسل میں صادقین کی نمائش دیکھنے پہنچ گئے اور اس مرتبہ پھر ایک عجیب تجربے سے گزرے۔

ہم اور ہمارے ساتھی لیفٹسٹ اور پروگریسو ہونے کی وجہ سے حکومت وقت کے زیر عتاب تھے۔ سائنٹفک سوچ میں یقین رکھتے تھے، مذہبی Rituals سے کوئی واسطہ نہیں رہا تھا مگر اس روز نمائش سے واپس آکر کچھ عجیب سی کیفیت میں سوئی۔ صبح فجر کے وقت نیند کھل گئی اور میں نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ بعد میں یہی سوچتی رہی کہ کیا یہ صادقین کی تصویری نمائش دیکھنے کا ما بعد الطبعیاتی اثر تھا؟ صادقین سے کبھی بالمشافہ گفتگو کا موقع نہیں ملا لیکن ان کے کام کے ذریعے مجھ تک کوئی روحانی یا ما بعد الطبعیاتی پیغام ضرور پہنچتا تھا۔

ایک صحافی کی حیثیت سے ہفت روزہ محور کے لئے اس زمانے ( ( 1978۔ 79 میں کراچی کے تقریباسارے ہی مشہور پینٹرز کا انٹرویو کیا تھا، ان کے تخلیقی وفور نے مجھے متاثر کیا تھا، دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں مصوروں کا انٹرویو کر کے مجھے زیادہ خوشی ملتی تھی لیکن جو کیفیت صادقین کی تصویروں کی بدولت مجھ پر طاری ہوئی، وہ پھر کبھی نہیں ہوئی۔

پاکستان ٹی وی نے ان کے کام کے حوال سے ”معجزۂ فن“ کے نام سے ڈاکیومینٹری بنائی تھی۔ 2003 میں HOLY SINNERکے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں موہٹہ پیلس میں ان کی نمائشوں میں رکھی جانے والی پینٹنگز کو کیٹیلاگ کیا گیا تھا۔ اتنی ضخیم کتاب اس سے پہلے پاکستان میں کبھی شائع نہیں ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ صادقین کے بارے میں شائع ہونے والے سارے مضامیں بھی اس کتاب میں شامل کیے گئے تھے۔ وکی پیڈیا کے مطابق صادقین ایک غیر روایتی، سیلف میڈ، خود آموزمصور اور خطاط تھے۔ ان کی مال و دولت سے بے نیازی نے ان کے گرد ایک پراسرار اور صوفیانہ ماحول پیدا کر رکھا تھا۔ میڈیا اور لکیروں کے بے باک اور بلا روک ٹوک استعمال نے ان کی زندگی میں ہی ان کے بہت سے پیروکار پیدا کر دیے تھے۔ وہ ایک صوفی آرٹسٹ تھے جو اپنی زندگی میں ہی ایک داستانوی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments