جو ڈیٹا کا مالک ہے، وہی مستقبل کا مالک ہے


جو ڈیٹا کا مالک ہے، وہی مستقبل کا مالک ہے

پچھلی چند دہائیوں میں، پوری دنیا کے لوگوں کو بتایا گیا کہ انسانیت مساوات کی راہ پر گامزن ہے اور عالمگیریت اور نئی ٹیکنالوجی ہمیں جلد وہاں پہنچنے میں مدد فراہم کریں گی۔ حقیقت میں اکیسویں صدی تاریخ کا سب سے غیر مساوی معاشرے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگرچہ عالمگیریت اور انٹرنیٹ ممالک کے مابین پائے جانے والے فاصلے کو ختم کرتے ہیں، لیکن وہ طبقوں کے مابین پائے جانے والے تنازعہ کو بڑھانے کے حوالے سے خوفزدہ کرتے ہیں اور اگرچہ بظاہر انسانیت عالمی یکجہتی کے حصول کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے، لیکن یہ نسل انسانی خود مختلف حیاتیاتی ذاتوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔

عدم مساوات کا یہ عنصر ہمیں پتھر کے زمانے میں لے جاتا ہے۔ تیس ہزار سال پہلے متلاشی شکاریوں کے گروہ کچھ ممبروں کو ہزاروں ہاتھی دانوں کی مالا، کڑا، زیورات اور آرٹ کی چیزوں کے ساتھ بھری قبروں میں دفن کیا کرتے تھے، جبکہ دوسرے ممبروں کو زمین میں کھڈا کھود کر لٹا دیا جاتا۔ اس کے باوجود، قدیم شکاری گروہ بعد کے آباد ہونے والے کسی بھی معاشرے کے مقابلے میں زیادہ مساوات کے حامی تھے، کیونکہ ان کے پاس بہت کم جائیداد تھی۔ پراپرٹی طویل مدتی عدم مساوات کی بنیادی شرط ہے۔

زرعی انقلاب کے بعد املاک میں کئی گنا اضافہ ہوا جس نے عدم مساوات کو جنم دیا۔ جب انسانوں نے زمین، جانوروں، پودوں اور اوزاروں کی ملکیت حاصل کی تو، سخت درجہ بندی والے معاشرے معرض وجود میں آئے۔ جس میں چھوٹی سی اشرافیہ نے نسل در نسل سب سے زیادہ دولت اور طاقت کو اپنے قابو میں رکھا۔ انسان اس انتظام کو فطری اور یہاں تک کہ خدائی عطا کے طور پر قبول کرتے تھے۔ درجہ بندی صرف سماج کا معمولی حصہ نہیں تھی بلکہ اسے مثالی حیثیت حاصل تھی۔

اشرافیہ اور عام لوگ، مرد اور عورت یا پھر والدین اور بچوں کے درمیان واضح تقویم کے بغیر کیسے درجہ بندی ہو سکتی ہے؟ پوری دنیا کے پادریوں، فلاسفروں اور شاعروں نے صبر کے ساتھ بتایا کہ جس طرح انسانی جسم میں تمام اعضا برابر نہیں ہوتے ہیں (پیروں کو سر کی اطاعت کرنی چاہیے ) اسی طرح انسانی معاشرے میں بھی مساوات انتشار کے سوا کچھ نہیں لائے گی۔

تاہم، جدید دور کے اواخر میں مساوات تمام انسانی معاشروں میں ایک آئیڈیل بن گئی۔ اس کی ایک وجہ کسی حد تک کمیونزم اور لبرل ازم کے نئے نظریات کا عروج تھا۔ لیکن یہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے بھی تھا جس نے عوام کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ اہم بنا دیا تھا۔ صنعتی معیشتوں کا انحصار عام کارکنوں پر تھا، جبکہ صنعتی فوجوں نے عام فوجیوں پر انحصار کیا۔ جمہوری حکومتوں اور آمریتوں دونوں ادوار میں حکومتوں نے عوام کی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی، کیونکہ ان کی پیداواری مشینری کو چلانے کے لیے لاکھوں صحت مند مزدوروں اور خندقوں میں لڑنے کے لئے لاکھوں وفادار فوجیوں کی ضرورت تھی۔

نتیجتاً، بیسویں صدی کی تاریخ بڑی حد تک طبقوں، نسلوں اور صنفوں کے مابین عدم مساوات کی کمی کے حوالے سے گھومتی ہے۔ اگرچہ اکیسویں صدی کے اوائل کی دنیا ابھی بھی تنظیمی ڈھانچے کا حصہ تھی، لیکن اس کے باوجود یہ 1900 دنیا کی نسبت کہیں زیادہ مساوی مقام تھا۔ اکیسویں صدی کے پہلے سالوں میں لوگوں نے توقع کی کہ مساوات کا عمل جاری رہے گا اور اس میں مزید تیزی آئے گی۔ خاص طور پر انہوں نے امید ظاہر کی کہ عالمگیریت سے پوری دنیا میں معاشی خوشحالی پھیلے گی اور اس کے نتیجے میں ہندوستان اور مصر میں لوگ انہی مواقع اور مراعات سے لطف اندوز ہوں گے جیسے فن لینڈ اور کینیڈا کے عوام ہورہے ہیں۔ ایک پوری نسل اس وعدے پر پروان چڑھی۔

اب ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ وعدہ پورا نہیں ہوا ہے۔ عالمگیریت، یقینی طور پراس کا انسانیت کے بڑے حصوں کو فائدہ پہنچا ہے، لیکن معاشروں کے مابین اور اس کے اندر بھی عدم مساوات کی واضح علامات موجود ہیں۔ صرف کچھ گروہ ہی عالمگیریت کے فوائد کو تیزی سے اپنے قابو میں کرتے ہیں، جبکہ اربوں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پہلے ہی آج، دنیا کی آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ دنیا کی آدھی دولت کا مالک ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ، امیر ترین سو افراد کے کل اثاثہ جات چار ارب غریب افراد سے زیادہ ہیں۔

یہ صورتحال مزید بھی خراب ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ابواب میں بیان کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا عروج زیادہ تر انسانوں کی معاشی قدروقیمت اور سیاسی طاقت کو ختم کر سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں، بائیو ٹیکنالوجی میں بہتری کی وجہ سے معاشی عدم مساوات کو حیاتیاتی عدم مساوات میں بدلنا ممکن ہو سکتا ہے۔ آخر کار انتہائی مالدار افراد کے لیے اپنی دولت کی بدولت کچھ نہ کچھ کرنا ممکن ہوگا۔ اگرچہ اب تک وہ ایسی تمام چیزیں خرید سکتے ہیں جو معاشرے میں سٹیٹس سمبل سمجھی جاتی ہیں، لیکن جلد ہی وہ خود زندگی جیسی نعمت کو خرید سکیں گے۔ اگر عمر بڑھانے، جسمانی اور علمی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے نئے علاج مہنگے ثابت ہوئے تو پھر انسانیت حیاتیاتی ذاتوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔

پوری تاریخ میں دولت مند اور امراء ہمیشہ ہی یہ تصور کرتے رہے کہ ان کے پاس باقی افراد کی نسبت اعلی مہارت ہے، جس کی بدولت انہوں نے باقی دنیا کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے۔ جہاں تک ہم بتا سکتے ہیں، یہ سچ نہیں تھا۔ ڈیوک اوسط کسان سے زیادہ باصلاحیت نہیں تھا بلکہ اسے جو استحقاق حاصل تھا اس کے پیچھے قانونی اور معاشی ناہمواری تھی۔ تاہم، اکیسویں صدی میں امیر افراد واقعی کچی آبادیوں کی نسبت زیادہ قابل، تخلیقی اور ذہین ہوسکتے ہے۔

ایک بار جب امیر اور غریب کے مابین قابلیت کا اصل خلا پیدا ہوجاتا ہے تو، اسے ختم کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اگر امیر اپنی اعلیٰ صلاحیتں اپنے آپ کو مزید طاقتور بنانے کے لیے استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرکے بہتر جسم اور دماغ خرید سکیں تو امیر غریب کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ اکیسویں صدی کے حساب سے، امیر ترین افراد (جو دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصد بنتے ہیں ) صرف دنیا کی بیشتر دولت ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کی بیشتر خوبصورتی، تخلیقی صلاحیتیں اور صحت کے بھی مالک ہوسکتے ہیں۔

دو عمل (بائیو انجینیئرنگ اور مصنوعی ذہانت کا عروج ) مل کرشاید انسانوں کو سپرہیومن کی ایک چھوٹی سی کلاس اوربے کار ہوموسیپین کی بڑی کلاس کو الگ کردیں گے۔ جونہی عوام اپنی معاشی اہمیت اور سیاسی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں تو یہ خراب صورتحال کو مزید بدتر بنادے گا، اور ریاست کم از کم ان کی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب سے محروم ہو سکتی ہے۔ بے کار ہونا بے حد خطرناک بات ہے۔ لہذا اس صورت حال میں عوام کا مستقبل ایک چھوٹی سی اشرافیہ کی منشا کے مرہون منت ہوگا۔ ممکن ہے کہ کچھ دہائیوں تک خیر سگالی کے جذبات برقرار رہیں۔ لیکن بحران کی گھڑی میں (جیسا کہ آب و ہوا کی تباہی) لوگوں سے جان چھڑانا انتہائی احسن کام محسوس ہو۔

فرانس اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں (جن میں لبرل اعتقادات اور فلاحی ریاست کی ایک طویل روایت موجود ہے ) شاید اشرافیہ عوام میں موجود بے کار افراد کی دیکھ بھال کرتے رہیں گے۔ تاہم، سرمایہ دارانہ امریکہ میں اشرافیہ ہر اس چیز کو ختم کرنے میں پہل کر سکتی ہے جو امریکی فلاحی ریاست کے لیے بے کار ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ ہندوستان، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے بڑے ترقی پذیر ممالک میں کھڑا ہے۔ وہاں، ایک بار جب عام لوگ اپنی معاشی قدر کھو جاتے ہیں تو، عدم مساوات عروج پر ہوتی ہے۔

نتیجتاً عالمگیریت کے بجائے عالمی اتحاد کا نتیجہ نوع بندی ہو سکتا ہے، یعنی انسانیت کا مختلف حیاتیاتی ذاتوں یا یہاں تک کہ مختلف نسلوں میں تقسیم کی صورت میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ عالمگیریت قومی سرحدوں کو مٹا کر افقی طور پر دنیا کو متحد کرے گی، لیکن اس کے ساتھ ہی انسانیت کو عمودی طور پر تقسیم کیا جائے گا۔ آمر ریاستوں مثلاً امریکہ اور روس جیسے ممالک میں حکمرانی عام سیپین کے خلاف بڑے پیمانے پر انضمام کی ایک مشترکہ وجہ بن سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے، ’اشرافیہ‘ کی موجودہ عوامی ناراضگی کی بنیاد اچھی طرح سے قائم کی جاچکی ہے۔ اگر ہم محتاط نہیں رہتے ہیں تو، سلی کون ویلی ٹائکونز اور ماسکو ارب پتیوں کے پوتے پوتیاں، اپالاچیان پہاڑیوں اور سائبیرین دیہاتیوں کے پوتے پوتیاں بناسکتے ہیں۔

آخر کار اس طرح کا منظر دنیا کی عالمگیریت کے عنصر کو ختم بھی کر سکتا ہے، کیونکہ معاشرہ کا بالائی طبقہ خود ساختہ ”تہذیب“ کو اندر سے مضبوط کرتا ہے اور اسے باہر موجود ’وحشیوں‘ کی جماعت سے الگ کرنے کے لئے دیواریں اور کھادیں کھڑی کرتی ہے۔ بیسویں صدی میں صنعتی تہذیب سستی مزدوری، خام مال اور منڈیوں کے لئے انہیں ’وحشیوں‘ پر انحصار کیا جاتا تھا۔ لہذا ان عناصر نے انہیں فتح کیا اور اپنے اندر جذب کیا۔ لیکن اکیسویں صدی میں، ایک صنعتی دور کے بعد کی تہذیب جو مصنوعی ذہانت، بائیو انجینیئرنگ اور نینو ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے، اس سے کہیں زیادہ خود کفیل اور خود کو برقرار رکھنے والی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نہ صرف پوری کلاس، بلکہ پورے ممالک اور براعظم غیر متعلق ہو جائیں۔ ڈرون اور روبوٹ کی حفاظت سے قائم قلعے خود ساختہ مہذب زون کو الگ کر سکتے ہیں، جہاں سائبرگ ایک دوسرے سے منطقی بموں سے لڑتے ہیں، انہیں سر زمینوں پہ وحشی انسان ایک دوسرے تلوار اور کلاشنکوفوں سے لڑتے ہیں۔

اس پوری کتاب میں اکثر انسانیت کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لئے متکلم صیغہ ٌکا کثرت سے استعمال کرتا ہوں۔ میں اس کے بارے میں بات کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے کیا کرنا کی ضرورت ہے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ یہاں ہم کوئی بھی نہ ہو۔ شاید ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کے مختلف گروہوں کامستقبل ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ شاید دنیا کے کچھ حصوں میں آپ اپنے بچوں کو کمپیوٹر کا کوڈ لکھنا سکھانا چاہیں، جبکہ دوسرے حصے میں آپ انہیں تیز رفتار ی اور درست سمت میں گولی مارنا سکھانا بہتر سمجھتے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments