ڈاکٹر خالد سہیل اور گرین زون کا فلسفہ۔ ۔ ۔


ڈاکٹر خالد سہیل سے میرا تعلق اتنا ہی پرانا (یانیا) ہے جتنی میری شادی! چونکہ مارچ 1997 میں وہ میری شادی پر میرے سسرال کی طرف سے مدعو تھے۔ مجھے اپنی شادی پر جہاں بے شمار اقسام کے تحائف ملے جن میں کیسٹ پلیر سے لے کر استریاں تک تھیں وہاں ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ان کے اپنے کیمرے سے کھینچی ہوئی تصاویر کے دو پوسٹر سائز فریم بھی تھے۔ ان میں سے ایک تصویر شاہی مسجد کے گنبد شاہی قلعہ لاہور کے جھروکے سے لی گئی تھی۔ جبکہ دوسری تصویر میں ایک چڑیا اپنا دانا دنکا چگ رہی تھی۔ ان تصاویر کو دیکھ کر ہی مجھے اندزہ ہو گیا تھا کہ یہ شخص دنیا کو ایک خاص زاویہ سے دیکھنے اور دکھانے میں ملکہ رکھتا ہے۔

ان دنوں انٹرنیٹ اور موابائل کا صرف تزکرہ ہی شروع ہوا تھا اور لوگ ان کے بغیر ہی جی لیا کرتے تھے۔ کوئی نہ کوئی ادبی گروپ کہیں نہ کہیں کوئی پروگرام کرتا رہتا تھا۔ اور اس کہیں نہ کہیں سے مراد کسی اپارٹمنٹ ’بیسمنٹ یا لائبریری کا ہال ہیں۔ ایسی ہی جگہوں پر ڈاکٹر خالد سہیل صاحب بھی اپنی نظم و نثر کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ عام شاعروں اور ادیبوں کے برعکس ڈاکٹر خالد سہیل صاحب ایک عملی آدمی تھے اور آج بھی ہیں۔ لہذا ان کی نثر‘ شاعری اور تحقیق میں خیالی پلاؤ کم اور زندگی کی حقیقتیں بہت زیادہ ہیں۔ اس وجہ سے وہ لوگ جو خیالی دنیا کی (افیمی) گولی کھا کر مدہوش ہو جانا چاہتے ہیں ان کے لیے ڈاکٹر صاحب کی شاعری اسی طرح ہے جیسے کوئی سرجن بغیر بے ہوش کیے آپریشن کر دے۔

آپ ذرا تصور کریں کہ ایک شخص کینیڈا میں بیٹھ کر ٹی وی پر ایک ملزم جاوید اقبال مغل کی تصویر دیکھتا ہے اور اس ملزم کو سمجھنے اور حقیقت پانے کے لیے لاہور کی ایک جیل کی موت کی کوٹھڑی میں پہنچ جاتا ہے اور پھر ’اپنا قاتل‘ کتاب لکھتا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب اپنے (یا ہمارے ) مروجہ اور روایتی نطام کو بہت پہلے جھٹک چکے ہیں لہذا انہیں اپنی سوچ کو کاغذ پر منتقل کرتے اس چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کہ جب ان الفاظ کو میری بیوی ’میرا بھائی‘ میرے بچے اور میرے دوست پڑھیں گے تو میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ اس آزادی کی بنا پر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کی وہ حقیقتیں ’وہ سادہ حقیقتیں جو ہمارے اندر کی بند گلیوں میں ہماری موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں باہر نکال کر ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔

پچھلے کئی سالوں میں میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بعض نظریات پر شدید اختلاف بھی رہا ہے اور اب بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب خود کو تمام مذاہب سے جدا کر کے انسان دوست سمجھتے ہیں جبکہ میں مذہب پر بڑی شدت سے ایمان اور حسب توفیق عمل پر یقین اور مذہب کو دو بڑے ستونوں حقوق اللہ اور حقوق العباد پر کھڑی عمارت سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب دعا کو ایک نفسیاتی مدد جبکہ میں تمام کامیابیوں کی کنجی مانتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب مشرق کی عورت کے حقوق کی بات بجا طور پر کرتے ہیں لیکن میں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ابھی تو مغرب کی عورت بھی برابری کی سطح سے بہت نیچے ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اختلاف الرائے کرتے ہوئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کی بات ’جس کو وہ غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں‘ سنتے ہوئے بھی مسکراتے رہتے ہیں۔ آگے سے آستین چڑھاتے ہیں نہ غصہ دکھاتے ہیں بس ان کی یہ بات مجھے پسند نہیں کہ بحث کا ماحول ہی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ جس طرح ٹھنڈے ٹھنڈے آتے ہیں اسی طرح ٹھنڈے ٹھنڈے واپس چلے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل کی بنیادی مہارت (بنیادی میں نے اس لیے کہا ہے کہ ان کے پاس اس کی ڈگری بھی ہے ) انسانی نفسیات ہے اور میں بعض نفسیاتی مسائل جیسے ڈیپریشن کو بقول پنجابی کہاوت کو ’بھرے پیٹ کے نخرے‘ سمجھتا رہا ہوں۔ تاہم چند سال پیشتر جب میری ایک عزیزہ کو ایک کینیڈین ڈاکٹر نے غلط دوائی تجویز کر دی اور نتیجہ انتہائی درجہ کے ڈیپریشن کی صورت میں نکلا تو ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ انہیں نفسیاتی ماہر کو دکھایا جائے۔ ٹورانٹو میں ایک ماہر نفسیات کے زیر علاج رہنے کے بعد جب ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ لغوی معنوں میں بھی سچا ثابت ہو گیا تو ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کو دکھایا جائے۔

چنانچہ جب مکرم ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ نئے مریضوں کے لیے اگلے ایک سال تک کوئی اپائمنٹمنٹ دستیاب نہیں۔ تاہم ڈاکٹر صاحب نے کمال مہربانی سے اپنی چھٹی والے دن کا وقت دے دیا اور جب میں اپنی عزیزہ اور ان کے میاں کے ساتھ وہاں پہنچا تو اپنے کلینک پر اکیلے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ اپنی سیکرٹری کی غیر موجودگی کی وجہ سے خود ہی تمام فائل اور دوسرے ضروری کاغذات وغیرہ تیار کیے۔

اس دن میں نے پہلی دفعہ ’ریڈ زون‘ ’ییلو زون‘ اور ’گرین زون‘ کی اصطلاح سنی اور سوچنے لگا کہ آیا میں کسی ماہر نفسیات کے کلینک میں آیا ہوں یا کسی وار زون میں یا کسی ٹریفک لائٹ پر پھنس گیاہوں یا پھر کسی ’کچھوا گھر‘ میں کہ ہر طرف پلاسٹک ’لکڑی‘ شیشے اور پتھر کے کچھوے کچھوے ہی نظر آ رہے تھے۔

ڈاکٹر سہیل نے ہمیں سمجھانا شروع کیا

’ ڈیپریشن اور دوسرے ذہنی مسائل پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں (اس کا تو مجھے بھی پتہ تھا) انسانی جسم کے کئی کیمیکل ہوتے ہیں (ڈاکٹر صاحب نے جتنے کیمیکل بتائے تھے ان میں سے ایک نام بھی یاد نہیں مشکل ہی اتنے تھے ) جن کے تناسب میں کمی بیشی سے ڈیپریشن شروع ہو جاتا ہے۔ ڈیرپیشن ہلکا‘ درمیانہ اور انتہائی شدید ہو سکتا ہے اور بعض نفسیاتی مسائل میں انسان خود کشی بھی کر سکتا ہے (کسی مولوی صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ایسی خودکشی بھی حرام ہے؟ )

عام انسانوں کو زندگی میں کئی دفعہ ڈیرپیشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا دورانیہ چند منٹوں سے لے کر کئی مہینوں اور سالوں تک محیط ہو سکتا ہے اور اس دوران مریض (مریض؟ نہ نزلہ نہ زکام نہ کھانسی نہ آپریشن پھر بھی مریض۔ ۔ ۔ ؟ ) دنیا سے بیزار ہو کر ہر قسم کی دلچسپی سے دور ہو جاتا ہے جس کا اثر نہ صرف مریض بلکہ اس کے ارد گرد کے رہنے والے تمام افراد پر بھی پڑتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈیرپیشن کی وجوہات تلاش کرتا ہے اور ان کا علاج کرتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے ہمیں مزید بتایا کہ ’میں نے ذہنی علاج کے لیے ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے یعنی‘ ریڈ زون ”ییلو زون ’اور‘ گرین زون ’۔

ریڈ زون وہ کیفیت ہوتی ہے جب آپ پوری طرح ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور کسی کام میں آپ کا دل نہیں لگتا اور مرنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔

ییلو زون وہ کیفیت ہے جب آپ مرنے کی حد تک تو نہیں سوچتے لیکن کام کاج سے دور رہتے ہیں اور زندگی کی دلچسپیوں سے بیزار رہتے ہیں۔

گرین زون وہ کیفیت ہے جب آپ زندگی کے بارے میں مثبت سوچتے ہیں اور اپنے تمام مشاغل سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ’

ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا کہ میں نے جو طریقہ کار اپنایا ہے اس کے مطابق میں مریض سے کہتا ہوں کہ میرے سمجھنے کے لیے وہ سونے سے پہلے یہ سوچے کہ اس نے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں سے کتنے گھنٹے گرین زون میں کتنے ییلو زون مین اور کتنے ریڈ زون میں گزارے او اسن کی کیا وجوہات تھیں۔

ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر مجھے تو ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک باپ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹا اگر میرے پاس چار سیب ہوں اور ایک میں تمہیں دے دوں اور ایک تمہارے بھائی کو تو میرے پاس کتنے سیب بچ جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ بچہ جواب دیتا اس کا چھوٹا بھائی بول اٹھا۔ بھائی جان لگتا ہے کہ ابو تمہیں حساب پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب بظاہر تو مریض کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی مدد کے لیے یہ چارٹ تیار کرے لیکن مریض اس پروسسprocessمیں خود اس بات کی شناخت کر رہا ہوتا ہے کہ کن عوامل سے اس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے اور کن سے کم ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس ملاقات سے واپسی پر عزیزہ کے شوہر نامدار تو مجھے تھوڑے بہت مایوس ہی نظر آئے لیکن اہلیہ کا دل رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کے لیے اس پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے مجھے بتایا کہ شروع میں تو ان کی اہلیہ چوبیس گھنٹے ریڈ زون کی کیفیت میں رہتی تھیں۔ پھر ایک دن ان کو خیال آیا کہ جب سو رہی ہوتی ہیں تو ریڈ زون میں نہیں ہوتیں۔ چونکہ ان کو نیند صحیح نہیں آتی تھی لہذا انہوں نے ان چھ گھنٹوں کو ییلو زون میں شمار کرنا شروع کر دیا اور بعد ازاں جب نیند کا مسئلہ حل ہو گیا تو یکایک وہ آٹھ گھنٹوں کے لیے گرین زون میں داخل ہونا شروع ہو گئیں۔

قصہ کوتاہ عزیزہ نے خود بھی اور ان کے شوہر نے بھی کوشش کر کے ایسے کام کرنے سے گریز کیا جن سے ریڈ زون کا ڈر رہتا تھا۔ اور پھر ریڈ زون ییلو زون میں اور بالاخر گرین زون میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ اس دوران وہ ہر دوسرے تیسے ہفتے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لیے جاتے رہے اور ایک ایسا وقت بھی آ گیا کہ ان کے چوبیس گھنٹے گرین زون میں بسر ہونے شروع ہو گئے۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی پہلی ملاقات پر کہی ایک بات یاد آ گئی۔ انھوں نے کہا تھا

ڈیرپیشن کے مریض قدرتی طور پر کبھی نہ کبھی اپنے ڈیپریشن سے باہر نکل ہی آتے ہیں لیکن بطور معالج میرا کام یہ ہے کہ میں اپنے مریضوں کو اس سے جلد از جلد باہر لے کر آؤں اور اس میں سب سے زیادہ کوشش مریض خود ہی کر سکتا ہے اور میرے اس طریقہ کار سے مریض کے پاس چونکہ اپنی کیفیت کی پیمائش کرنے کی سہولت آ جاتی ہے جس کی وجہ سے غیر یقینی کیفیت ختم ہو جاتی ہے اور تاریک سرنگ میں پھنسے اس انسان کو روشنی اور امید کی ایک ایسی کرن نظر آ جاتی ہے جس کا پیچھا کرتے کرتے باقی راستہ وہ خود ہی ڈھونڈ لیتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ کوئی بھی مریض ایک دن میں ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ صحتیابی کی طرف جانے والا راستہ نسبتاٌ سست ہوتا ہے اسی لیے آپ کو میرے کلیک میں ہر طرف کچھوے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل کے بارے میں بلا شک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ انسان اور انسانیت کی مدد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے غریبوں ’بیماروں‘ مظلوموں اور بے چارہ گروں کے درمیان نہ صرف وقت گزارا ہے بلکہ اوائل زندگی میں اس کا حصہ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے زندگی کی تکلیفوں کا جواب ’قدرت حاصل ہونے کے بعد‘ انتقام سے نہیں دیا ’بلکہ لوگوں کے ان مسائل کو کم کرنے کی کوشش کر کے دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب انسانوں کے ساتھ رہنا بلکہ ان کے ساتھ زندہ دلی کے ساتھ رہنے پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہ ایک انسان دوست انسان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments