نئے خلیفہ کی ریاست مدینہ اور میرے پیر و مرشد


موجودہ سیاسی افکار کے عظیم مدبر اور خلیفہ حاضر الوقت عمران خان نیازی نے جس دن مملکت خداداد پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کا عہد و پیمان کیا تھا اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری طور پر سود کی شرح چھ فیصد سے قدرے اوپر تھی۔ آنے والے خلیفہ کا ریاست مدینہ کا وعدہ میرے جیسے تھوڑے جذباتی مسلمانوں کو موجودہ ظالم طاغوتی نظام کے خلاف کلمہ حق لگا۔ میرے رہبر شیخ پیر طریقت جن کی شخصیت نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے بھی خداوند تعالی کی بارگاہ میں سر بسجود ہوئے۔

شکرانے کے نفل ادا کیے کہ کیسا مخلص لیڈر عطا کیا جس نے ستر سال میں پہلی بار ملک کوصحیح معنوں میں مدینہ کی ریاست بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ پھر نہایت خضوع و خشوع طریقے سے اللہ رب العزت کے حضور گڑ گڑا کر کیمرے کے سامنے ہم نے اس کی کامیابی کی دعایں مانگیں۔ کیمرے کے سامنے تصویر اور ویڈیو بنوانے کا مقصد اپنے برادران اسلام کے لیے راہ آسان کرنا تھا تاکہ وہ تاریخ کے اس عظیم خلیفہ کو پہچان سکیں اور اس کی کامیابی کے لیے اسے ووٹ کر سکیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کیمرا جیسی خرافات سے کوی شغف نہیں ہے۔

ہماری دعایں رنگ لایں اور پھر چشم فلک نے وہ پر ذوق نظارے دیکھے کہ ہمارے خلیفہ وقت کو اٹھا کر مسند خلافت پہ براجمان کر دیا گیا۔ بٹھانے والے بٹھا کے ایک طرف ہو بیٹھے اور ہم شدت سے انتظار کرنے لگے کہ خلیفہ ابھی زمانے کی نا انصافیوں کے خلاف جہاد اکبر کا اعلان کر دیں گے جیساکہ آج سے چودہ سو سال پہلے مدینہ منورہ کی ریاست میں اعلان ہوا کہ ”سود کرنے والے سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہے“ (سورۃ البقرہ) ۔

مگر ہم اس وقت غش کھا گیے جب خلیفہ وقت کی ریاست مدینہ میں سود کی شرح سرکاری طور پر چھ فیصد سے بڑھ کر تیرہ فیصد سے اوپر جا پہنچی۔ بتایا گیا کہ ریاست کی عوام کی خوشحالی اور وسیع تر مفاد کے لیے ”ہاٹ منی“ یا ’گرما گرم لکشمی‘ اکٹھی کرنے کے لیے سود کی شرح بڑھائی جا رہی ہے۔ ہم کبھی مدینہ منورہ کی ریاست کے منشور کو دیکھیں، کبھی خلیفہ وقت کے تیور کو جانچیں تو کبھی اپنے پیر ومرشد مدظلہ کے فرمان دیکھیں جس میں ہمیں وہ مسلسل نیک خلیفہ کی تقلید کا حکم فرما رہے تھے۔

سو ہم نے اپنے شیخ طریقت کے حکم کی روشنی میں سود والے قضیے کو پس پشت ڈالا اور ان کے حکم کے مطابق کہ خلیفہ بہت نیک ہے بس تھوڑا انتظار کریں مدینہ کی ریاست تھوڑی مسافت پہ ہے پھر دیکھنا ایسا عدل و انصاف ہو گا کہ اگر بہاولپور کے صحراوں کے نزدیک بے آب بہنے والے دریاے بیاس کے کنارے کتا بھی پیاس سے مر گیا تو خلیفہ وقت ذمہ دار ہوں گے۔ مرشد کے فرمان عالی شان نے دل میں چنگاری بھر دی۔ ہم ایک دفعہ پھر دل میں ریاست مدینہ کا خواب لے کر دشمنان خلیفہ وقت پر ٹوٹ پڑے جو خلیفہ پر طنز کے نشتر چلا رہے تھے۔

ابھی دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے قریب ہی تھے کہ کہیں سے معصوم بچوں کی دلدوز چیخوں نے کلیجہ چیر دیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ساہیوال کے قریب قومی شاہراہ پر نامعلوم لوگوں نے معصوم بچوں اور ان کے والدین پر گولیاں چلا دیں۔ کسی ستم ظریف نے واقعے کو کیمرے جیسی خرافات میں عکسبند کر لیا جس کو دیکھنے کے بعد میرے سمیت ہر انسان کا دل لہو لہو ہوا۔ خلیفہ وقت بھی اس منظر کر دیکھ کر بلبلا اٹھے اور فرمایاکہ ’وہ اس واقعے کی وجہ سے رات بھرسو نہیں سکے ابھی قطر یاترا پہ جا رہے ہیں واپسی پہ ذمہ داروں کو عبرت ناک سے عبرتناک سزا دیں گے۔‘

پیر ومرشد نے ہمارے کلیجے کے زخموں کو مندمل کرتے ہوئے فرمایا تم لوگ بہت خوش قسمت ہو جو اس خلیفہ کے دور میں پیدا ہوئے ہو۔ خلیفہ وقت مدینہ منورہ کی ریاست کے ماڈل پہ یقین رکھتے ہیں جس میں فرمایا گیا تھا کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔ امید کی روشن آس دل میں جگانے کے لیے حضرت علیؑ کا قول سنایا گیا کہ ”کفر پہ تو نظام چل سکتا ہے مگر عدل کے بغیر کبھی حکومت نہیں چل سکتی“ ۔ دل کو تشفی ہوی کہ واقعی ایسا ہی ہے چونکہ ہمارا خلیفہ مدینہ کی ریاست بنا رہے ہیں تو نہ صرف اس واقعے میں ملوث قاتلوں بلکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے ساتھ ملک کے ہر مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

پھر پوری دنیا پہ ہمارے خلیفہ وقت کی مدینہ کی ریاست کے چرچے ہوں گے۔ وہ وقت دور نہیں ہو گا جب کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو ہم آزادی جیسی نعمت سے بہرہ ور کرائیں گے۔ ابھی ہم اس خواب خرگوش میں ہی تھے کہ خلیفہ وقت خراماں خراماں دوحہ کی ہواؤں کو سلام الفت کہہ کر وطن پہنچے اور اپنے دربار میں خاموشی سے گوشہ نشین ہو گیے۔ دل مضطرب ہوا، یا الہی ماجرا کیا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا ہے رعایا انصاف کے لیے مسلسل زنجیر ہلا رہی ہے اور خلیفہ وقت ہیں کہ ان کے منہ پر چپ کی مہر لگی ہے۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے سانحہ کے مقتولین کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ انصاف کے نام پہ بننے والی حکومت اور اس کے قاضی القضا نے سانحہ کے قاتلوں کو شک کا فائدہ دے کر رہا کر دیا۔ اس دفعہ تھوڑا پریشان ہو کر رہبر اعلی مولانا حضرت پیر طریقت کی طرف پلٹ کر سوالیہ نظروں سے دیکھا تو حضور کوکرلاتے ہوئے اور چیخیں مارتے یہ دعا مانگتے پایا ”اے اللہ! ہمارا خلیفہ ایماندار ہے نیک ہے پرہیز گار ہے، کرپٹ نہیں ہے۔ ستر سالوں میں پہلا بندہ ہے جو تیرے نام پہ ریاست بنا رہا ہے۔ وہ خود ایماندار اور نیک ہے۔ اسے نیک مشیر وزیر عطا کر“ ۔ میرے مرشد نے میری رہنمائی کی۔ ’دیکھو! خلیفہ وقت اس وقت مدینہ کی ریاست بنانے کے فل موڈ میں ہیں مگر یہ جو اس کے وزیر مشیر ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں۔ بس اب خلیفہ وقت کرپٹ درباری نکال رہے ہیں اور تبدیل کر رہے ہیں ان کی جگہ نیک، پرہیز گار اور صوم صلواۃ کے پابند وزرا اور مشیران دنیا بھر سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ جس دن انہوں نے آ کے خلیفہ وقت کے ساتھ کام سنبھالنا ہے پوری دنیا میں ہمارے انصاف کا دبدبہ بیٹھ جائے گا۔

پیر و مرشد کی آہ پکار، کرب اور ان کی پرنالے کی طرح بہتی آنکھوں سے ایک بار پھر پختہ یقین ہو چلا کہ حضور ٹھیک فرما رہے ہیں۔ بس تھوڑا انتظار اور پھر مدینہ کی ریاست میں ہم کیا پوری امت مسلمہ اکٹھی ہو گی۔ اس ریاست میں میرے پیر و مرشد امام الوقت ہوں گے اور ہم ان کے مقتدی۔

ہم اپنے مرشد کے ملفوظات میں اسیر ہوہی رہے تھے کہ ریاست مدینہ کی اسپتالوں سے مفت ملنے والی دوائی غائب، معمولی ٹیسٹس جو پہلے کم قیمت پہ ہوتے تھے ان کی فیسیں کیی گنا بڑھ گییں، ادویات کی قیمتوں میں پہلے پندرہ فیصد پھر دس فیصد اضافہ کر کے ریاست کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کی پہنچ سے دور کر دی گییں۔ ریاست مدینہ کے شتر بے مہار ذخیرہ اندوزوں نے پہلے گندم ایکسپورٹ کروا کر پیسے کماے پھر گندم ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کر قیمتیں بڑھای گئیں اور اپنی چاندی کی۔ خلیفہ وقت نے بھی ان کی دیدہ دلیری پہ تاؤ کھایا اور ریاست میں چینی کی قلت پہ خود نوٹس لے لیا۔ انکوائری کمیٹی بیٹھی تو پتا چلا کہ خلیفہ وقت نے خود پہلے عوام کے ٹیکس سے ان ذخیرہ اندوزوں کو سبسڈی کی مد میں اربوں روپے سے نوازا پھر انہیں چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گی جس سے انہوں نے پھر اربوں کماے۔

میرے مرشد کی ریاست مدینہ میں کچھ دن پہلے ہمارے خلیفہ وقت کے ایک دیانتدار اور دانا وزیر بھرے دربار میں پھوٹ پھوٹ کر روتے پاے گیے کہ گندم کی فصل کو کٹے ابھی تین مہینے بھی نہیں ہوئے اور سرکاری گوداموں سے ساٹھ لاکھ گندم غائب ہو چکی ہے۔ ابھی گندم کی اگلی فصل کٹنے میں نو ماہ پڑے ہیں اور مایہ ناز ذخیرہ اندوزوں نے ملک میں گندم کی قلت پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے آٹھ سو ساٹھ روپے من میں بکنے والا آٹا اب چودہ سو روپے من کی ریکارڈ حد پار کر چکا ہے۔

رعایا کے لیے وزیر خوراک و لوازمات نے دہائی دیتے ہوئے فرمایا کہ ابھی گندم کی اگلی فصل آنے میں نو ما ہ پڑے ہیں اس عرصے میں عوام روٹی کھاے یا ملک کی قومی مٹھائی گلاب جامن، جو مرضی کھائے پر ہمارا سر نہ کھائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کرپشن سے پاک وزرا نے ملک میں چینی، آٹا، تیل پانی کی قلت پیدا کر کے زیادہ قیمتوں پر بیچ کر خلیفہ وقت کی بغل کو جائے پناہ کے طور پر مسکن بنا رکھا ہے

ہمیں مدینہ منورہ کی ریاست کا بار بار خیال آتا ہے کہ جس میں ذخیرہ اندوزوں کے لیے سخت عذاب کی وعید تھی۔ مدینہ منورہ کی ریاست میں اگر ایک بے روزگار میرے آقا ﷺ کے پاس فریاد لے کے آتا تو آپ خود اس کے لیے کلہاڑی کا بندوبست فرماتے، کلہاڑی میں دستہ ڈالتے۔ پھر اسے مشورہ دیتے جاؤ لکڑیاں کاٹ کر بیچو۔ اپنے لیے اور اہل وعیال کے لیے روزی کماؤ۔ مگر میرے پیرومرشد کے خلیفہ وقت کی ریاست میں کتنے رہڑی اور چھابڑی والوں کے روزی کے اڈے تباہ کر کے ان کے گھر کے چولھے ٹھندے کیے گیے ہیں۔ کتنے غریب لوگوں سے ان کی چھت چھینی گیی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خلیفہ وقت کے اپنا بنی گالہ شریف کے محل کو غیرقانونی سے قانونی شکل دلوائی گئی ہے۔ میرے پیر طریقت اب بھی اس بات پہ مصر ہیں کہ ”دیکھو خلیفہ نے خود تو کرپشن نہیں کی نا“ ۔

حضور والا! گزارش یہ ہے کہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال اور پھر علما کرام کا استعمال تاریخ میں یہ نیا قصہ نہیں ہے۔ مگر جب بھی مذہب کو لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا تو اس کے طویل المدتی تباہ کن نتایج نکلے۔ اس کی تازہ مثال بھارت میں مودی کی طرف سے ہندو مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا ہے جس کی وجہ سے بھارت آج نہ صرف اندرونی خلفشار کا شکار ہے بلکہ خارجہ پالیسی میں بھی اسے مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستانی عوام کا شمار دنیا کی ان اقوام میں ہوتا ہے جو مذہب کے نام پر بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سامنے جب کبھی مذہب کا نام آتا ہے تو ہم بغیر کسی تحقیق کے، سچائی جانے بغیر اس پر تن من دھن وارنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ شاید اتنی زحمت کرنا گوارا نہیں کرتے کہ مخاطب آدمی کی باتوں کی حقیقت قرآن و سنت کی روشنی میں ہی دیکھ لیں کہ کہیں مذہب کے نام پہ ہمیں ورغلایا تو نہیں جا رہا ۔ اس بندے کا اپنا کیا کردار ہے؟

اگر ہم جذباتی ہونے سے پہلے تھوڑا سوچ لیں تحقیق کر لیں تو کوی حرج تو نہیں ہے۔ اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیں تو ہمیں مدینہ منورہ کی مقدس اور تہذہب یافتہ ریاست اور عمران نیازی کی نام نہاد ریاست مدینہ کے دعوؤں میں واضح فرق نظر آئے گا۔ خدا را اپنے مفادات کی خاطر چودہ سو سال پہلے عدل وانصاف، اور مساوات کے عظیم اصولوں کی بنیاد پہ بنی مدینہ منورہ کی ریاست کا نام لے کر اسے بدنام مت کریں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”جب تمہارے پاس کوی فاسق فاجر جھوٹی خبر لائے تو پہلے اس کی تصدیق کر لیا کرو“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments