سازشیں روکنی ہیں تو مکالمہ بہت ضروری ہے


جولائی میں ہونے والے واقعات پاکستان کی تاریخ میں دور رس اثرات رکھتے ہیں۔ مینار پاکستان کی تعمیر بھی جولائی ہی میں مکمل ہوئی تھی۔ مینار پاکستان کو یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھٹو کی حکومت کے خلاف ڈائریکٹ مارشل لا بھی جولائی میں لگا اور پاکستان میں پردے میں لپٹی آمریت بھی دو سال پہلے جولائی میں ہی مسلط ہوئی۔ عدلیہ بحالی تحریک میں آزاد عدلیہ کا نقطۂ آغاز بننے والا صدارتی ریفرنس بھی جولائی میں مسترد ہوا اور پاناما کیس کی شکل میں عدلیہ پر سیاہ دھبا بننے والے فیصلہ بھی جولائی ہی میں ہوا۔

جولائی ہی میں سپریم کورٹ نے تین نومبر کی ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دے کر آمر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا اور 100 سے زائد ججز کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر گھر بھیج دیا۔ اس فیصلے سے جہاں عدلیہ کی آزادی کی رمق پیدا ہوئی تھی، وہیں سپریم کورٹ نے جولائی ہی میں منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ایک غیر وصول شدہ خیالی تنخواہ کی بنیاد پر گھر بھیجنے کا فیصلہ دیا، جس سے عدلیہ کی تکریم کم ہوئی۔

نواز شریف کی سیاسی زندگی میں جولائی میں ہوئے واقعات خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف کی پہلی حکومت اٹھارہ جولائی 1993ء کو ختم ہوئی۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبد الوحید کاکڑ کے دباؤ پر وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ نواز شریف کی آخری حکومت بھی جولائی ہی میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم ہوئی۔ نواز شریف کو احتساب عدالت سے سزا کا فیصلہ بھی جولائی ہی میں سنایا گیا۔

جولائی 2017ء میں نواز شریف کی نا اہلی سے لے کر انھیں جولائی 2018ء میں سزا ہونے تک رونما ہونے والے واقعات نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جج ارشد ملک کے وِڈیو اعتراف نے خفیہ قوتوں کے اس کھیل کا پردہ چاک کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سازشوں کے اس کھیل سے نا معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور نا ہی سیاسی استحکام نصیب ہو رہا ہے۔

مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کی عزت کے نعروں نے آئینی بالادستی پر یقین رکھنے والی عوام کی آنکھوں میں امید کے ایسے دیپ جلائے کہ انھیں اپنی منزل صرف جمہوریت نظر آنے لگی۔ دو سال پہلے ہونے والے الیکشن نے جمہور پسند اور غیر جمہوری سوچ رکھنے والے عناصر کے درمیان ایک گہری خلیج حائل کر دی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش بھی کریں تو ووٹرز فوراً ووٹ کی عزت کا علم اٹھا کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنہیں کل تک مقدس گائے کہا جاتا تھا اب ان سے نا صرف حساب کی باتیں ہوتی ہیں بلکہ انھیں سیاسی عدم استحکام پھیلانے کا منبع بھی گردانا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود سازشوں کا کھیل ایک بار پھر عروج پر ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی تبدیلی کے لئے نت نئی چالیں سوچی جا رہی ہیں۔

دو ہفتے پہلے پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے ایک پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ سلیکٹرز پیچھے ہٹیں اور ان ہاؤس تبدیلی لانے دیں۔ اس پریس کانفرنس کے بعد بلاول بھٹو کافی متحرک نظر آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے اہم رکن اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق حکومتی رخصتی کے لئے فارن فنڈنگ کیس کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ فارن فنڈنگ کے علاوہ کچھ نئے کیس سامنے آنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی ایک بار پھر سڑکوں پر نکلنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ حالیہ ملاقاتوں کے بعد اپوزیشن جماعتیں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا عندیہ دے رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بڑی جماعتوں سے خوش نہیں ہیں۔ اگر اپوزیشن متحد نہ ہوئی تو مولانا ستمبر میں ایک بار پھر سولو فلائٹ کر سکتے ہیں۔

افواہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ عید کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی گرفتاری کی افواہ بھی پھیلائی جا رہی ہے۔ اگست میں دونوں رہنماؤں میں سے کسی ایک یا دونوں کی گرفتاری پاور بروکرز کے کردار کا تعیین کر دے گی۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے حوالے سے پہلے بھی ایک کالم میں لکھ چکا ہوں۔ شہباز شریف کی گرفتاری وزیر اعظم عمران خان کی اولین خواہشوں میں سے ایک ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری سے حکومتی مضبوطی کا تاثر ابھرے گا۔ گرفتاری نہ ہونے کا مطلب ہو گا کہ فی الوقت پاور بروکرز نے حکومتی کشتی میں اپنا وزن کم کیا ہوا ہے۔

موجودہ صورت حال میں مقتدر قوتوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کسی عدالتی فیصلہ سے ختم ہوئی تو نئے بحران جنم لیں گے۔ افواہیں دانستہ پھیلائی جا رہی ہیں۔ کبھی تحریک انصاف کے اندر سے ہی متبادل ملنے کی نوید سنائی جاتی ہے اور کبھی شاہد خاقان عباسی اور ایاز صادق کا نام متوقع وزیر اعظم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ آج کل بلاول بھٹو کو بھی قلیل مدتی وزیر اعظم بننے کا لالی پاپ دیا گیا ہے۔ بلاول کا دورہ لاہور اسی سلسلے کی کڑی بتائی جا رہی ہے۔

حالات سدھارنے کے لئے موجودہ افواہوں کے درمیان ہی سے راستہ نکلے گا۔ دو سال پہلے جولائی میں جس حکومت کو بنانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی گئی تھی، اب جولائی ہی میں اس کے خاتمے کی کوششیں بھی اسی تگ و دو سے جاری ہیں۔ جو خفیہ ہاتھ حکومت بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے، حکومت گرانے میں بھی انہی کا دست شفقت محسوس ہو رہا ہے۔ عید کے بعد بلوچستان اور پنجاب میں تبدیلی کی شنید دی جا رہی ہے۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان خود اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کر دیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہے اور موجودہ حالات کا واحد حل صرف نئے الیکشن ہیں، لیکن نئے الیکشن سے قبل ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔ طاقت کا زعم اپنی جگہ مگر پاور بروکرز کو سیاستدانوں کی بصیرت پر اعتماد کرنا ہو گا۔ سیاسی حکومتوں کے خلاف سازشوں کی ریشہ دوانیوں کی بجائے انھیں کام کرنے کا اختیار دینا ہو گا۔ طاقت کے مراکز کو دو قدم پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ وقت ہاتھ سے سرک رہا ہے۔ سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ورنہ بلوچستان کے خلاف سازشیں ایسے ہی توانا ہو رہی ہیں، جیسے مشرقی پاکستان میں کھیل رچایا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments