نوشابہ کی ڈائری: ٹی وی فریج بیچ کر اسلحہ خریدنا ہوگا 28 دسمبر 1986


اتنے دنوں میں جانے کیا کچھ ہوگیا، سب سے بڑا واقعہ تو باجی کی شادی ہے۔ باجی کے پیادیس جانے کا افسوس تو تھا لیکن مزہ بہت آیا۔ شادی تک کئی دس بارہ دن پورا خاندان ہمارے گھر پر تھا۔ پھر محلے کی عورتیں لڑکیاں، میلہ لگا تھا گھر پر، روز ڈھول بج رہا ہے گانے ہورہے ہیں، پھر مہندی اور ابٹن۔ ہم گا بجا اور رسمیں کر رہے ہوتے اور خاندان کے بزرگ کمرے میں بیٹھے باتیں بنا رہے ہوتے ”ارے یہ سب فاطمہ ثریا بجیا کی مہربانی ہے، اپنے ڈراموں کے ذریعے ان ساری خرافات کو زندہ کر دیا ورنہ یہ ہندوانہ رسمیں ختم ہوچکی تھیں۔“ ابو، چھوٹے ماموں، بڑے ابو سب کے سب سارا الزام بے چاری معصوم سی بجیا پر دھر رہے تھے، لیکن شکر ہے کسی نے منع نہیں کیا ورنہ سارا مزہ کرکرا ہوجاتا۔

اب نہ باجی ہیں نہ بھائی جان، گھر میں بس میں امی اور ابو۔ جب سے پٹھان مہاجر فسادات شروع ہوئے ہیں امی بھائی جان کے لیے بہت پریشان رہتی ہیں۔ بھائی جان تو شہاب بھائی کے ساتھ اکتیس اکتوبر والے جلسے میں بھی حیدرآباد گئے تھے، وہاں سے دونوں یہاں آگئے تھے۔ جب انھوں نے بتایا کہ جن بسوں پر سہراب گوٹھ پر فائرنگ ہوئی ان میں سے ایک پر وہ بھی تھے، تو میری اور امی کی تو جان ہی نکل گئی۔ امی نے دونوں کو ڈانٹا اور فوراً شکرانے کی نماز ادا کی۔

شہاب بھائی کہہ رہے تھے ”خالہ! الطاف بھائی صحیح کہتے ہیں، مہاجروں کو ٹی وی فریج بیچ کر اسلحہ خریدنا ہوگا، دیکھیں کیا ہوا ہمارے ساتھ۔“ شہاب بھائی اور بھائی جان رات کو بیٹھے یہی باتیں کرتے رہے، ”ٹی ٹی کتنے تک کی آ جائے گی، ماؤزر کتنے میں پڑے گا، کلاشنکوف لیں یا چھوٹا سامان۔“ اب تو مجھے بھی ان ہتھیاروں کے نام پتا چل گئے ہیں، ہر جگہ یہی باتیں جو ہو رہی ہیں۔ پہلے ہمارے ہاں فریج، گاڑی، گھر لینے کی باتیں ہوتی تھیں، بقرعید کو بغدا بھی کسی کے گھر سے آتا تھا اور اب کلاشنکوف اور ٹی ٹی خریدنے کا ذکر ہوتا ہے۔

میں اخبار میں صرف بچوں کا صفحہ اور خواتین کا صفحہ پڑھتی تھی اب خبریں بھی پڑھتی ہوں۔ ہر کچھ روز بعد فسادات اور لوگوں کے مرنے کی خبر ہوتی ہے۔ اخبار والے ”دو گروہوں میں تصادم“ یا ”فلاں علاقے میں فائرنگ سے اتنے ہلاک“ ہی لکھتے ہیں لیکن سب کو پتا ہوتا ہے کہ مہاجروں اور پٹھانوں کی بات ہو رہی ہے۔ ناموں سے اندازہ ہوجاتا ہے۔ گولی لگی لاش کا نام ”گل خان، سمندر خان“ ہے تو پٹھان ہوگا اور ”سلیم، فریدالدین“ جیسا نام ہے تو مہاجر ہوگا۔

یہاں تو لوگ نام دیکھ کر گنتے ہیں پھر کہتے ہیں ”آج ان کے زیادہ ہیں“ یا ”آج دس میں سے سات اپنے ہیں۔“ پھر بی بی سی ہے نا سب بتانے کے لیے۔ ہمارے گھر میں بلکہ محلے کے ہر گھر میں اب رات کو بی بی سی لازمی سنا جاتا ہے۔ اکتیس اکتوبر کا واقعہ ہو یا کوئی اور، ہر سانحے کے بعد لوگ یہی کہتے ہیں ”بہت لوگ مرے ہیں، حکومت چھپارہی ہے، رات کو بی بی سی صحیح بتائے گا۔“ بہت پہلے جب میں چھوٹی تھی، کراچی میں شیعہ سنی فسادات ہوئے تھے تب ہمارے گھر میں بی بی سی سنا جاتا تھا یا اب سنا جا رہا ہے۔ ورنہ تو ریڈیو پاکستان کے پروگرام چل رہے ہوتے تھے یا باجی اور بھائی جان آل انڈیا ریڈیو سے گانے سنتے تھے۔

کراچی میں علی گڑھ اور قصبہ کالونی اور اورنگی ٹاؤن کے دوسرے کئی علاقوں پر حملے کے بعد تو حالات اور خراب ہوگئے ہیں۔ کتنے سارے لوگ مارے گئے۔ بڑے خالو کچھ دنوں پہلے ہی کراچی ہوکر آئے ہیں۔ ان کی بہن اورنگی ہی میں رہتی ہیں۔ ان کے محلے سے کچھ ہی فاصلے پر وہ بستیاں ہیں جن پر حملہ ہوا۔ بڑے خالو کہنے لگے حملہ کرنے والے اندھادھند فائرنگ کرکے لوگوں کو مار رہے تھے، گھر لوٹ رہے تھے، ان کے پاس کوئی کیمیکل بھی تھا جسے چھڑکتے ہی ایک چنگاری سے بھی ایسی آگ بھڑکتی کا گھر تندور بن جاتے۔

گھر لوٹے گے، لوگوں کو زندہ جلایا گیا، بچوں کو آگ میں پھینک دیا گیا۔ اف خدایا اتنا ظلم۔ پورے آٹھ گھنٹے تک یہ حملہ جاری رہا اور کوئی مرتے لوگوں کو بچانے نہیں آیا۔ بڑے خالو کی وہاں ایک صاحب ابوسلمان شاہجہاں پوری سے ملاقات ہوئی، کہنے لگے بڑے عالم فاضل آدمی ہیں محقق اور مورخ ہیں بیسیوں کتابیں لکھ چکے ہیں، حملے میں ان کے گھر کو آگ لگی اور کی لائبریری جل کر راکھ ہوگئی۔ ابوسلمان شاہجہاں پوری کے پاس لڑکوں نے آکر کہا ہم بدلہ لیں گے۔ انھوں نے جواب دیا دیکھو جو ہونا ہے ہوچکا، یہاں کے پٹھانوں نے کچھ نہیں کیا، اس لیے ہم ان کے ساتھ کچھ نہیں کریں گے۔

سب کہہ رہے ہیں یہ حملہ سہراب گوٹھ میں ہیروئن اور اسلحے کے خلاف پولیس کے آپریشن کی وجہ سے کیا گیا۔ چوں کہ آپریشن کا مطالبہ ایم کیو ایم کا تھا اس لیے مہاجروں کو سزا دی گئی۔ آپریشن ہوا لیکن ملا کچھ نہیں۔ پختون ایکشن کمیٹی نے اس آپریشن کے خلاف ہڑتال کی تھی۔ بھائی جان کہہ رہے تھے، ”مہاجر اب خاموشی سے مار نہیں کھائیں گے، جیسے ایوب خان کے بیٹے کے جلوس سے کھالی تھی۔ اب مہاجر لڑنا سیکھ گئے ہیں، اسلحہ بھی بہت ہے۔

دیکھا نہیں ملیر میں کیسے پٹھانوں کو جلا دیا۔“ سن کر ہی دل عجیب سا ہوگیا کہ زندہ انسانوں کو جلا ڈالا۔ لوگ کہہ رہے ہیں پٹھان اسلحہ اور منشیات بیچتے ہیں۔ مگر میں نے تو کراچی میں جتنے پثھان دیکھے سب محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کوئی موچی ہے، کوئی رکشہ ٹیکسی چلارہا ہے کوئی چوکی داری کر رہا ہے۔ اگر پٹھان اتنے برے ہیں تو ہر امیر مہاجر کا چوکی دار اور ڈرائیور پٹھان کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے جتنے امیر رشتے دار ہیں ان کے ہاں تو میں نے یہی دیکھا۔ لیکن اب کوئی کچھ نہیں سوچ رہا سب پٹھانوں کا ذکر نفرت سے کرتے ہیں، ابو کے علاوہ۔ میں بھی اس سانحے کے بعد پٹھانوں سے نفرت کرنے لگی ہوں مگر ڈائری لکھتے ہوئے پتا نہیں کیا ہوجاتا ہے، میری سوچ بدل جاتی ہے۔ شاید ابو کی ایک بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔

ابو بتانے لگے جب بہار میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا تو انھیں بچانے کوئی اردو بولنے والا یا مسلم لے گیراہ نما آگے نہیں بڑھا۔ ایک پٹھان لیڈر خان عبدالغفارخان اس وقت بہار پہنچا۔ وہ بھرے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینے والے بہاری مسلمانوں کو گاڑی میں دو دو تین تین کی تعداد میں ہندو آبادیوں میں واقع ان کے گھر لے جاتا، جہاں وہ اپنا سامان لیتے اور عبدالغفارخان کی ساتھ ہی واپس آجاتے۔ پھر اس نے بے گھر ہوجانے والے مسلمانوں کو بہ حفاظت بنگال پہنچانے کا انتظام کیا وہ کئی ماہ بہار میں مقیم اور اور اپنی جان خطرے میں ڈالے وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی خدمت میں جتا رہا۔ ”وہی عبدالغفارخان جنھیں غدار کہا جاتا ہے“ میرے سوال پر ابو کا جواب تھا ”ہاں وہی۔“

کراچی میں اتنے بڑے قتل عام کے بعد تو واقعی اسلحہ ضرورت لگنے لگا ہے۔ بھائی جان نے مجھے چپکے سے بتایا ”شہاب نے اسلحہ لے لیا ہے، مجھے دکھایا تھا۔ وہ ایم کیوایم میں بہت آگے تک چلا گیا ہے۔“ کہنے لگے میں بھی ٹی ٹی تو لے ہی لوں گا، مجھے ہنسی آ گئی، بھائی جان تو مرغی بھی نہیں کاٹ سکتے، جب بھی امی نے مرغی لاکر ذبح کرنے کو کہا چھری ابو کے حوالے کردی یا کسی دوست کو بلا لیا، اسلحہ کیا چلائیں گے۔

پہلے تو صرف سعید تھا اب تو کتنے ہی لڑکوں کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ ایم کیوایم میں چلے گئے ہیں۔ رفیق صاحب جماعت اسلامی والے کا بیٹا اختر بھی، سامنے والی بینا کے بڑے بھائی، پڑوس کی راشدہ باجی کا دیور۔ پچھلی گلی کے فیض قادری صاحب جو مولانا نورانی کی جماعت میں تھے، ان کے انتقال کے بعد بھی ان کے گھر پر جمعیت علمائے پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا تھا، کچھ دن پہلے دیکھا وہاں ایم کیوایم کا پرچم لہرا رہا ہے۔ امی بتارہی تھیں کہ فرید صاحب کی بیوی ملی تھیں، کہہ رہی تھیں سعید جانے کن چکروں میں پڑ گیا ہے، اسکول نہیں جا رہا ۔

آرائیوں سے لڑائی ہوگئی تھی، پولیس اسے بھی پکڑ کر لے گئی تھی۔ دو تین دن تھانے میں رہ کر آیا ہے۔ پتا نہیں کیوں، اب دل میں سعید کے لیے وہ پہلے سے جذبات نہیں۔ اب کمال اچھا لگنے لگا ہے۔ یہ لوگ کچھ مہینے پہلے ہی ہمارے محلے میں آئے ہیں۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔ سعید جیسا اسمارٹ تو نہیں مگر بہت ذہین ہے۔ پچھلے سال میٹرک میں اے ون گریڈ لیا تھا اس نے، ہمارے گھر مٹھائی لائی تھیں اس کی امی۔ کہہ رہی تھیں میرا کمال تو ہر وقت کتابوں میں گم رہتا ہے۔

کتابیں تو میں بھی پڑھنے لگی ہوں، ناول اور شاعری۔ اشتیاق احمد کے ناول تو پڑھتی ہی تھی، اب بڑوں کے بھی پڑھتی ہوں، ناول تو بس دو تین ہی پڑھے ہیں اب تک، ایک نسیم حجازی کا ”خاک اور خون“ اور دو رومانوی ناول ایک اے آر خاتون کا ”شمع“ دوسرا رضیہ بٹ کا ”اک لڑکی“ ، یہ کتابیں مچان پر کب سے ایک بکسے میں بند رکھی تھیں، اور بھی کتابیں ہیں وہاں سب پڑھوں گی باری باری۔ ان میں سے کچھ کتابیں ابو کی ہیں کچھ چھوٹے چچا کی۔

شاعری کی کتابیں پروین شاکر اور احمد فراز کی کئی پڑھ چکی ہوں، وہ تو میں نے جیب خرچ یا عیدی کے پیسوں سے خریدی تھیں۔ ابو اور امی تو کہتے ہی ہیں کہ یہ ملک کتنی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا، لیکن ”خاک اور خون“ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے کیا کچھ قربان کیا ہے۔ اس دن یہی بات شہاب بھائی سے کہہ دی۔ وہ ملک کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ میری بات سن کر بولے ”مسلمانوں نے نہیں صرف مہاجروں نے قربانیاں دی ہیں، بیس لاکھ جانیں دی ہیں اور اس کا یہ صلہ ملا ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد صحیح کہتے تھے، تم لوگ کہاں جا رہے ہو“ پھر شروع ہوگئے پاکستان کے خلاف بولنا۔ میں نے پڑھا تھا کہ تقسیم کے وقت سب سے زیادہ مسلمان مشرقی پنجاب میں شہید ہوئے، لیکن شہاب بھائی وہاں سے آنے والوں کو مہاجر نہیں مانتے، نہ ان کے شہیدوں کو۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی شہاب بھائی ہیں جو چودہ اگست کو بڑے جوش وخروش سے گلی سجاتے تھے۔ اور جب گلی سج جاتی تو ”پاکستان زندہ باد“ کے کیسے زوردار نعرے لگوائے تھے، طارق عزیز کی طرح۔

اب تو وہ طارق عزیز کے بھی مخالف ہوگئے ہیں بھیا، کہہ رہے تھے ”نیلام گھر پی ٹی وی کراچی سے نشر ہوتا ہے، اس کا میزبان ایک پنجابی کو کیوں بنایا ہوا ہے۔“ مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کی ایک تقریر کا اب بہت ذکر ہوتا ہے، پہلے تو ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ پہلے اور بھی بہت سے نام نہیں سنے تھے، سیاست پر بات بھی بہت کم ہوتی تھی، پچھلے سال انتخابات کے بعد سے ہر ایک سیاست پر بات کرنے لگا ہے۔ الیکشن میں امی کے ساتھ میں بھی گئی تھی، مگر باہر کھڑی رہی تھی اندر نہیں جاسکی تھی جہاں امی نے ووٹ ڈالا تھا، امی نے کہا تھا ابھی تمھاری ووٹ دینے کی عمر نہیں ہوئی، مگر پچھلے سال جو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں ضیاء الحق اکیلے ہی کھڑے ہوئے تھے اس میں تو میری عمر کے کئی لڑکوں نے ووٹ دیا تھا، رفیق صاحب جماعت اسلامی والے انھیں لے گئے تھے ووٹ ڈلوانے، ہو سکتا ہے اس عمر کے لڑکوں کو اجازت ہو لڑکیوں کو نہ ہو!

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: مشرقی پاکستان اور کنفیڈریشن کا ذکرنوشابہ کی ڈائری: کیا ہر وقت دہلی کی باتیں، چھوڑیں نہ یہ دہلی دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments