دادی جان کی یاد میں


جولائی سن 1976 کی 29 اور 30 کی درمیانی رات تھی۔ اس رات کینیڈا کے شہر مانٹریال میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ہاکی ٹیموں کے مابین سیمی فائنل کا میچ ہو رہا تھا۔ ہم کچھ دوست کرشن نگر میں باصر کاظمی کے گھر پر ٹی وی پر میچ دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ پہلا ہاف مکمل ہو چکا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو میرا چھوٹا بھائی زاہد تھا جو مجھے تلاش کر رہا تھا۔ زاہد نے بتایا کہ گھر سے پیغام آیا ہے ماں جی (ہم اپنی دادی جان کو ماں جی کہتے تھے) فوت ہو گئے ہیں۔

خیر چند گھنٹوں بعد ہم گاوں جانے کے لیے بس میں سوار ہوئے۔ زاہد بس میں سفر نہیں کرتا تھا کیونکہ اس کی شہرت تھی کہ جس بس میں وہ بیٹھے وہ کبھی منزل پر نہیں پہنچتی۔ اس روز مجبوری تھی لیکن ثابت ہوا کہ زاہد کی شہرت بلا سبب نہیں تھی۔ شیخوپورہ تک کا آدھا فاصلہ طے ہوا ہو گا کہ بس خراب ہو گئی۔ اس کے بعد ایک اور بس میں سوار ہو کر شیخوپورہ پہنچے اور وہاں سے ٹرین پر سوار ہو کر گوجرہ پہنچے۔ گاوں تک پہنچنے میں ہمیں دوپہر کا وقت ہو گیا، اس وقت تک تدفین ہو چکی تھی۔ ماں جی کی عمر اس وقت تقریبا پچاسی برس تھی۔

دادی جان اور دادا جان آپس میں خالہ زاد کزن تھے۔ دونوں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے والدین نے اپنے زمانے کے رواج کے مطابق ان کی شادی بہت چھوٹی عمر میں کر دی تھی۔ میاں جی (دادا جان کو ہم میاں جی کہتے تھے) بتایا کرتے تھے کہ شادی کے وقت ان کی عمر نو سال اور ماں جی کی عمر آٹھ سال تھی۔

دادا جان نے اپنی سوانح عمری 1944 میں لکھی تھی۔ اس وقت ان کی شادی کو چالیس برس سے اوپر ہو چکے تھے۔ اس میں ماں جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا: “مجھے اپنی شادی سے لے کر کوئی کسی قسم کی تکلیف یا رنج اپنی بیوی کی طرف سے نہیں پہنچا اور ہم ہر دو میاں بیوی کی زندگی بہت محبت اور آرام سے بسر ہو رہی ہے جیسا کہ ہر خوش نصیب بشر کی ہونی چاہیے۔ شروع بچپن سے کے زمانہ سے لے کر آج تک خدا کے فضل و کرم سے خوش ہی رہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تا حیات ایسے ہی خوش رکھے۔ (آمین)۔

میاں جی نے تیس برس کے لگ بھگ کا عرصہ گھر سے باہر دور دراز علاقوں اور ملکوں میں ملازمت کرتے گزارا۔ صرف دو بار دادی جان ان کے پاس بڑودہ گئی تھیں۔ وہاں کے قصے سنایا کرتی تھیں خاص طور پر کہ وہاں بندر کس قدر زیادہ ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اجمیر شریف کی زیارت کا احوال بھی بیان کیا کرتی تھیں۔

گھر پر زیادہ وقت تنہا گزارنے کی وجہ سے ماں جی کے اندر بے پناہ اعتماد پیدا ہو چکا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے زندگی میں اس قدر پراعتماد عورت شاید ہی کوئی اور دیکھی ہو۔ ڈر خوف کا ان کی شخصیت میں شائبہ تک نہ تھا۔ وہ گھر بار کے ساتھ باہر کے تمام معاملات کو بھی خوب نبھانا جانتی تھیں۔ قابل رشک قوت فیصلہ کی مالک تھیں۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود بہت ذہین اور دانا خاتون تھیں۔ ان کے اندرانسانوں کی پہچان کا بے پناہ ملکہ تھا۔ ایک نظر میں کسی بھی شخص کو وہ جانچ لیتی تھیں۔

ماں جی نے بہت فعال زندگی گزاری ہوئی تھی۔ تقسیم سے چند برس پہلے ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ماں جی کے آبائی اور سسرالی دیہات میں چند میل کا فاصلہ تھا۔ کئی برس تک وہ دونوں گھر سنبھالتی رہیں۔ پیدل چل کر جاتیں اور اپنے والد کا کھانا پکانے کے علاوہ دیگر کے دیگر کام بھی کر کے آتی تھیں۔ ایک بات کہا کرتی تھیں کہ آج کل کی عورتیں کم کھاتی ہیں کہ پیٹ نہ بڑھ جائے۔ ہم نے تو ساری عمر خوب کھایا ہمارا تو کبھی پیٹ نہیں بڑھا تھا۔ ظاہر ہے جو روزانہ کئی میل پیدل چلے گا اس کے پیٹ بڑھنے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔

سن 1954 میں ہم گوجرہ شہر سے گاوں منتقل ہو گئے تھے لیکن دادا جان گوجرہ میں ہی رہے کیونکہ انھوں نے وہاں برتنوں کی دکان کھولی ہوئی تھی۔ ابا جان بھی ایک برس بعد رحیم یار خان چلے گئے تھے۔ اس طرح گاوں میں زمین کے تمام معاملات کی نگرانی بھی ماں جی ہی کیا کرتی تھیں۔ 1960 میں میاں جی نے دکان بند کر دی تھی اور پھر وہ بھی مستقل طور پر گاوں منتقل ہو گئے تھے۔

میاں جی اور ماں جی دونوں ہی بہت جلالی طبیعت کے مالک تھے لیکن میں نے میاں جی کو کبھی ان کے سامنے بلند آواز سے یا غصے سے بولتے نہیں سنا تھا۔ ماں جی کو غصہ آ بھی جاتا تھا تو بس خاموشی کے ساتھ سنتے رہتے تھے۔ میرے بزرگوں میں عورتوں کے ساتھ بلند آواز میں گفتگو کرنے کا رواج نہیں تھا۔ گھر کا خرچہ اور انتظام ماں جی کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ جب وہ میاں جی سے پیسے مانگتیں تو وہ کبھی آگے سے کہہ دیتے جو پہلے دیے تھے کیا وہ سب خرچ ہو گئے ہیں۔ اس پر ماں جی کو بہت غصہ آتا تھا اور کہتیں خرچہ خود سنبھالیں، مجھ سے نہیں سنبھالا جاتا۔ ایک محاورہ وہ اکثر بولا کرتی تھیں: بابا بابا کہندے سی بڑے سکھی رہندے سی، بابا اکھوایا تے بڑا دکھ پایا۔

دیہاتی ماحول کے باوجود ماں جی کے اندر ضعیف الاعتقادی کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا تھا۔ ایک بار ان کے سر میں درد شروع ہو گیا جو کچھ دن جاری رہا۔ اس زمانے میں گاوں میں علاج معالجہ کی سہولت بہت کم دستیاب تھی۔ کسی عورت نے ماں جی کو ایک تعویذ لا دیا۔ اس کے اصرار پر ماں جی نے گلے میں پہن لیا لیکن دوسرے ہی دن انھوں نے گلے سے اتار کر زور سے گھما کر چھت پر پھینک دیا اور کہا ایویں میرے متھے مار گئی سی۔

بچوں کی تربیت کے معاملے میں وہ بہت سخت گیر تھیں۔ شدید بخار یا بیماری کے علاوہ کبھی سکول سے چھٹی نہیں کرنے دیتی تھیں۔ ہماری ایک ایک حرکت پر ان کی نظر ہوتی تھی۔ ہمارے گھر میں بچوں سے لاڈ پیار کا کوئی رواج نہیں تھا۔ نہ ہمیں وڈیایا جاتا تھا نہ تعریف کی جاتی تھی۔ لیکن آج سوچتا ہوں تو ان کی محبت کا ایک انداز یاد آتا ہے تو آنکھوں میں آنسو امڈ آتے ہیں۔

گاوں میں ابتدائی برسوں میں ہمارے پاس احاطے کا ایک تنگ سا حصہ تھا۔ چولھا کھلے صحن میں تھا۔ گرمیوں کی سخت جلتی دوپہر میں جب ہم سکول سے واپس آ کر گھر کے دروازے میں داخل ہوتے تو عین اس وقت دادی جان چولھے میں آگ جلا کر توا اوپر رکھتیں۔ وہ اپنے بچوں کو توے سے اترتی گرم گرم تازہ روٹی کھلاتیں۔ وہ روٹی پہلے سے بنا کر نہیں رکھتی تھیں۔

جیسا کہ ذکر کر چکا ہوں کہ ماں جی نے بہت فعال زندگی گزاری تھی لیکن آخری تین چار برسوں میں انھیں بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔ فالج کے نتیجے میں بستر تک محدود ہو گئی تھیں۔ چلنا پھرنا ممکن نہیں رہا تھا لیکن یہ وقت بھی انھوں نے بڑے حوصلے سے گزارا۔ کسی قسم کا شکوہ شکایت کبھی ان کی زبان پر نہیں آیا تھا۔ انھیں دنیا سے رخصت ہوئے آج چوالیس برس ہو گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments