قومی آزادی کا مطلب دوسروں کو تحفظ دینا بھی ہے


چودہ اگست آنے ہی والا ہے اور یقیناً ہم اس بار بھی جشن آزادی بھر پور انداز سے منایں گے۔ جس میں جھنڈا لہرانا اور باجا بجانا تو اہم ترین ہو گا۔ کیونکہ ہمارے نزدیک آزادی کا مطلب یہی ہے۔ پاکستان جو کہ اسلام کہ نام پہ بنایا گیا۔ جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کے تحفظ کا نشاں بنا۔ جس کا مقصد ہر انسان کو اس کے مذہب اور عبادات میں آزادی حاصل ہو گی۔ پاک و ہند میں قتل و غارت کی بنیادی وجہ ہی مذہب تھا اور تقسیم کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔

تو کیا اس آزادی کے بعد ہم آزاد ہوئے؟ قتل عام تو آج بھی پاک و ہند میں جوش و خروش سے جاری ہے۔ جہاں ہم کشمیر میں مسلمانوں پہ ہونے والے مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں وہیں پاکستان میں ہونے والے مظالم کو رتی بھر اہمیت نہیں دیتے جبکہ آپ کی اولین ذمہ داری اس ریاست کو پر امن بنانا ہے جہاں آپ مکین ہیں جب یہاں کہ مسائل کا حل ہی نہیں آپ کے پاس تو کیا توقع کی جائے کہ مسئلہ کشمیر سلجھا لیں گے۔ ۔ ۔ پہلے یہاں کی اقلیتوں کو تحفظ دیجیے جہاں ہندو خواتین کو جبراً اسلام قبول کروا کر ان سے شادی کرنا جہاد کے زمرے میں آتا ہے، عیسائیوں کے تہوار پر بم دھماکہ کر کے ان کی خوشیوں کو ماتم بنا دیا گیا، سکھوں کے گردواروں سے لے کر مختلف مسالک کی مساجد دربار بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شیعوں کا خون بہانا واجب اور قادیانیوں کا قتل اس ملک کے ایک خاص طبقہ کا عام مشغلہ ہے۔

یہاں رضی اللہ اور علیہ سلام کا کو مسئلہ بنا کر عدالتوں میں لے جایا جاتا ہے۔ مگر مدارس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو شیطان کا بہکاوا کہا جاتا ہے۔ جن مسائل کو حل ہونے کی ضرورت ہے انہیں پس پشت ڈال کر ان موضوعات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جن سے فرقہ واریت، مذہبی انتشار اور شدت پسندی جیسے عوامل رونما ہوتے ہیں۔

افسوس کہ ہم اس گھٹن زدہ، شدت پسند اور ایسے معاشرے میں جس کے منہ کو خون لگ چکا ہے رہتے ہوئے خود کو آزاد کہتے ہیں۔ شاید ہم نے آزادی کا معنی سمجھا ہی نہیں۔ آزادی نہ صرف عقائد و نظریات میں وسعت کا نام ہے بلکہ انسانیت کو تحفظ اور امن فراہم کرنا بھی آزاد انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ ملک جسے ریاست مدینہ کہا جاتا ہے نہ تو یہاں رسول ﷺ کی رحمت کو اپنایا گیا نہ ہی آل رسول ﷺ کی قربانیوں کے مقاصد کو پیش نظر رکھا گیا۔ جس کا مقصد انسانیت کی بقا تھا انہیں ہستیوں کا نام لے لے کر انسانیت کو فنا کیا جا رہا ہے اس سے بڑھ کر توہین رسالت کیا ہو گی۔

یہاں حکومت کے خلاف بولنے پر یو ٹیوب بین کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ مذہب اور مسلک پہ بولنے والا قتل کر دیا جاتا ہے۔ مگر شدت پسندی دہشت گردی پھلانے والے مولویوں کی دکانداری چلتی رہتی ہے۔ ہم جہاں اک پرچم کے سائے تلے ایک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہیں ہم دو چاند اور دو عیدیں منانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان سب کے باوجود بھی ہم اس بار جشن آزادی بھر پور طریقے سے منانے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments