کیا بنگلہ دیش حسینہ واجد کی سربراہی میں انڈیا کی بجائے پاکستان اور چین کے قریب ہو رہا ہے؟


آج سے 45 برس قبل، 15 اگست 1975 کو بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت کا علم ہونے کے بعد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ اپنے شوہر اور بہن کے ساتھ بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں بنگلہ دیش کی سفیر ثنا الحق کے ساتھ رہیں۔

جب سفیر ثناالحق کو پتا چلا کہ شیخ مجیب فوجی بغاوت میں مارے گئے ہیں تو انھوں نے شیخ مجیب کی دونوں بیٹیوں اور داماد کو کسی بھی طرح کی مدد فراہم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ان کا گھر بھی چھوڑ دیں۔

اس کے بعد انھیں جرمنی میں بنگلہ دیش کے سفیر ہمایوں راشد چودھری کی مدد سے جرمنی لے جایا گیا۔

لیکن بڑا سوال یہ تھا کہ شیخ حسینہ اور ان کی بہنوں کو سیاسی پناہ کون دے گا؟

یہ بھی پڑھیے

چین نیپال سے الجھا انڈیا اور ادھر پاکستان بنگلہ دیش میں ’بڑھتے تعلقات‘

بنگلہ دیش اور انڈیا میں زیادہ خوش حال کون؟

کیا بنگلہ دیشی انڈین شہریت لینا چاہیں گے؟

ہمایوں راشد چودھری نے اس وقت کی انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ساری بات بتاتے ہوئے دونوں بہنوں کو پناہ دینے کی درخواست کی، جس پر اندرا گاندھی راضی ہو گئیں۔

24 اگست 1975 کو شیخ حسینہ اور ان کے اہلخانہ ایئر انڈیا کے ایک طیارے کے ذریعے دلی کے ایئرپورٹ پہنچے۔ انھیں یہاں فلیٹ الاٹ کیا گیا، حسینہ کے شوہر ڈاکٹر واجد کو بھی محکمہ جوہری توانائی میں ایک فیلو شپ سے نوازا گیا۔

اندرا نہ صرف حسینہ کے ساتھ کھڑی تھیں بلکہ وہ ان کے والد شیخ مجیب کے ساتھ بھی تھیں۔

13 مئی 1971 کو اندرا گاندھی نے امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن کو، امریکہ میں انڈیا کے سفیر لکشمیکنت جھا کے ذریعہ ایک خط بھیجا تھا، جس میں انھوں نے شیخ مجیب کو پاکستانی جیل میں قید رکھنے کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

کیا شیخ حسینہ اپنا رویہ تبدیل کر رہی ہیں؟

انڈیا نے مشکل اوقات میں شیخ حسینہ اور بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد رکھی تھی لیکن کیا اب حالات بدل رہے ہیں؟ کیا بنگلہ دیش شیخ حسینہ واجد کی سربراہی میں پاکستان اور چین کے قریب جا رہا ہے؟

22 جولائی کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے درمیان گفتگو ہوئی۔

حالیہ دنوں میں چین کو بنگلہ دیش سے اربوں ڈالر کے منصوبے بھی ملے ہیں اور چین نے بھی بنگلہ دیش کے سامان کو مختلف ٹیکسوں سے چھوٹ دے کر دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تجارت میں اضافہ کیا ہے۔

بی بی سی بنگلہ سروس کے نمائندے سبھجیوتی گھوش کہتے ہیں ’شیخ حسینہ کے دور حکومت میں انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ سنہ 1996 میں گنگا واٹر معاہدہ، زمین کی حد کے معاہدے جیسے بڑے فیصلے ہوئے۔ اس کے علاوہ گاندھی خاندان اور کانگریس کے ساتھ بھی ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔‘

سال 2014 میں جب نریندر مودی کی حکومت آئی تھی تو دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں لیکن آغاز بہت اچھا تھا۔

گوش کے مطابق ’مودی کا دورہ بنگلہ دیش ایک کامیابی تھا، جسے لوگ اسے ایک عظیم آغاز کے طور پر دیکھ رہے تھے۔‘

مودی

جے این یو کے پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور بنگلہ دیش کے مابین پچھلے 10-12 برسوں میں بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے لیے، جو کچھ بھی وہ کر سکتے تھے جیسے تجارتی فیصلے، زمینی تنازعات اور سکیورٹی سے متعلق فیصلے تھے، انھوں نے یہ سب کیا۔ ‘

لیکن ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حالیہ دنوں میں تعلقات میں تھوڑی بہت تلخی ہوئی ہے۔ مودی سرکار کی ہندوتوا سیاست اور حال ہی میں منظور شدہ شہریت ترمیمی قانون نے بنگلہ دیش کے عوام کے ذہنوں میں انڈیا کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے انڈیا کی پالیسیاں کو مسلمان دشمنی کی حیثیت سے دیکھا۔

بھاردواج نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’بنگلہ دیش ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ سی اے اے اے اور این آر سی کے معاملے کے بعد بنگلہ دیش کے لوگوں کے ذہن میں ایک احساس پیدا ہوا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کا دباؤ بڑھ گیا ہے، عوام انڈیا سے ان امور پر ناراض ہیں اور شیخ حسینہ اس بارے میں محتاط ہیں۔‘

تاہم وینا سیکری جو بنگلہ دیش کے امور پر مہارت رکھتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ سی اے اے کے بارے میں بنگلہ دیش میں اس طرح کا کوئی احساس موجود ہے۔‘

’کچھ سیاسی قوتیں ایسے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں اور انڈیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ انڈیا نے اپنی طرف سے وضاحت کی ہے کہ ان قوانین کا تعلق انڈیا یا بنگلہ دیش میں بسنے والے مسلمانوں سے نہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔‘

شی جن پنگ

معاشی محاذ پر چین کا مؤقف؟

سیاسی استحکام، تجارت، معاشی ترقی کے نقطہ نظر سے انڈیا بنگلہ دیش کے لیے بہت اہم ہے لیکن چین بہت بڑی سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہا ہے۔

شیخ حسینہ چین کی سرمایہ کاری کو ایک موقعے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’حسینہ ان مواقع سے محروم نہیں ہونا چاہتی ہیں۔‘

’اس کے علاوہ وہاں کے نوجوان بھی ترقی چاہتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ جو بھی ملک ترقی میں مدد کرتا ہے اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ یہاں تک کہ روہنگیا کے معاملے پر چین نے انڈیا پر زور پکڑ لیا لہذا شیخ حسینہ بھی ایک متبادل دیکھ رہی ہیں۔‘

اس کے علاوہ بھاردواج کا یہ بھی ماننا ہے کہ سیاسی استحکام کے لیے حسینہ کو انڈیا کی زیادہ ضرورت نہیں کیونکہ وہاں حزب اختلاف کی قوتیں بہت کمزور ہیں۔

وینا سیکری کا کہنا ہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کئی منصوبوں پر ایک ساتھ ہیں۔

ان کے بقول ’انڈیا نے حال ہی میں ریل گاڑی کے انجن فراہم کیے، جن کی بنگلہ دیش کو ضرورت ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات بہت بہتر چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سنہ 2019 میں شیخ حسینہ کا دورہ انڈیا بھی کامیاب رہا۔‘

عمران خان

تو کیا شیخ حسینہ کی پاکستان سے قربت بھی بڑھ جائے گی؟

حال ہی میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی بات چیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ قربت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

بھاردواج کہتے ہیں ’بنگلہ دیش اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے۔‘

بنگلہ دیش میں بھی پاکستان کی حمایت کرنے والے لوگ موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی غلط تھی لیکن یہ شیخ حسینہ کے ووٹ حاصل کرنے کی وجہ نہیں۔ مذاکرات کے لیے پاکستان کی طرف سے مسلسل کوشش کی جاتی رہی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے مابین بہت سے حل طلب معاملات ہیں، جس کی وجہ سے تعلقات میں زیادہ بہتری کا امکان نہیں لیکن دونوں ممالک متعدد معاملات میں ایک دوسرے پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ تعلقات خراب ہو جائیں گے، غلط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp