لاہور میں لالی وڈ کی فلم نگری: وہ جگہ جہاں وقت تھم سا گیا ہے


لالی وڈ فلم

گولیوں کی بوچھاڑ، چیخ و پکار، ہر طرف خون ہی خون۔۔۔

میں نے اِردگرد نظر دوڑائی تو ایک نوجوان جینز اور جیکٹ پہنے پیٹھ پر بیک پیک (بستہ) لادے تن تنہا بنگلے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔

باہر کھڑے آدھے درجن سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی تو اُس نے ایک کو ایسی کراری لات ماری کہ وہ قلابازی کھا کر دور جا گرا۔ پھر دوسرے کو ایسا زور دار مُکا رسید کیا کہ وہ منھ سے خون کا فوارہ نکالتا وہیں ڈھیر ہوگیا۔

لیکن پھر اچانک ’کٹ‘ کی چیختی آواز آئی اور مجھے فلم سے حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم میں سے اکثر لوگ ایسی ہی فلموں کا مذاق اُڑاتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ وہ فلمیں جن میں اکیلا ہیرو درجنوں مخالفین کی ٹھکائی لگا کر اپنی محبت کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

ایسی فلمیں جن میں ہیروئین کھیتوں کے بیچوں بیچ رقص کر کے ایک ایسے ہیرو کا دل جیتنے کی کوشش کرتی ہے جو خود کوئی حرکت نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی فلمیں عوام کا دل جیتنے میں ناکام کیوں؟

پاکستان کے’چاکلیٹی ہیرو‘ کو گوگل کا خراجِ تحسین

سلطانا ڈاکو اور برصغیر میں امیر کو لوٹ کر غریب کو دینے کی روایت

ذکر پاکستان کی ایک گمشدہ فلم کا

یا پھر ایسی فلمیں جن میں ولن پے در پے گولیاں کھا کر بھی مرنے کا نام نہیں لیتا۔

پچھلے کچھ برسوں میں چند پاکستانی فلمسازوں نے ڈگر سے ہٹ کر اچھوتے موضوعات پر کامیاب فلمیں پیش کیں تو بہت سوں کو گمان ہوا کہ شاید اب پہلے والی فلمیں بننا بند ہو گئی ہیں۔ اور لالی وڈ فلم انڈسٹری ایک نئے راستے پر چل پڑی ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔

آئیے لاہور کی فلم نگری لالی وڈ چلے چلتے ہیں جہاں آج بھی ایسی فلمیں تیار ہو رہی ہیں جنھیں حقیقت سے دور کہانیوں، کمزور کردار نگاری اور غیر معیاری پروڈکشن کی وجہ سے دل بھر کر بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔

جب عہد نے کروٹ لی

لاہور کی بیدیاں روڈ کے فارم ہاؤس پر پنجابی فلم ‘رنگ عشقے دا’ کی شوٹنگ کے دوران کھانے کا وقفہ ہوا۔

میں نے فلم کے ہدایتکار اور مصنف پرویز کلیم سے لاہور کی فلم انڈسٹری یعنی لالی وڈ کی زبوں حالی کی وجہ معلوم کرنا چاہی۔

پرویز کلیم

پرویز کلیم، فلم کے ہدایتکار اور مصنف

’جب عہد کروٹ لیتا ہے تو بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ لوگوں کا مزاج تو بہت پہلے ہی بدل گیا تھا۔ ہم ہی نہیں مان رہے تھے۔ جب نوجوانوں نے بیہودہ، لچر اور کمزور فلموں کو مسترد کیا تو آج ہمیں عقل آئی ہے۔‘

لالی وڈ نہ رہا

پچھلی چار دہائیوں سے فلم کے کام سے منسلک پرویز کلیم مانتے ہیں کہ یہ حقیقت سے قریب فلموں کا دور ہے۔ اب فلم بین سطحی فلموں کو پسند نہیں کریں گے۔

‘وہ جو ہم رنگ برنگے سیٹ لگایا کرتے تھے، کبھی کوئی رنگ کا تو کبھی کوئی رنگ کا، تو فلم اُس سے فرار حاصل کر چکی ہے۔’

نامور فلم نقاد اعجاز گُل کا دعویٰ ہے کہ لالی وڈ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ یہاں بننے والی فلمیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو اکا دکا فلمیں بن بھی رہی ہیں اُنھیں فلم انڈسٹری کا حصہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔

‘گذشتہ دو دہائیوں میں لالی وڈ کی فلموں کا معیار انتہائی کمتر رہا۔ ہدایتکاری، تحریر اور ٹیکنیکل اعتبار سے یہ فلمیں مکمل طور پر ناکام تھیں اور یہی اِس انڈسٹری کی تباہی کی وجہ بنی۔’

’ہم اپ ڈیٹ نہیں ہوئے‘

اگلے سین کے لیے فلم کی ہیروئین کا وارڈروب (کپڑے) منتخب کرتے ہوئے پرویز کلیم نے ذکر چھیڑا کہ لاہور کے پرانے فلمسازوں کو جدید ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ ٹیکنیکل عملے کی کمی کا سامنا ہے۔

لالی وڈ فلم

‘اپ ڈیٹ ہونا لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جو جہاں کھڑا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں یہاں بہت ٹھیک ہوں۔ یہ انڈسٹری بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ جو کیمرا آج آتا ہے تو ایک سال بعد ایک نیا کیمرا اُس کے مدمقابل آجاتا ہے۔ خیالات اور فلم بنانے کا طریقہ نہیں بدلتا لیکن تکنیک بدل جاتی ہے۔’

ہالی وڈ والے کیمرے

ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی اِن خیالات سے متفق ہے۔

پرویز کلیم کے ساتھ بیٹھے اُن ہی کی فلم کے نوجوان پروڈیوسر کاشف ریاض کی رائے اِس بارے میں مختلف ہے۔

’جدید کیمرے اور لائٹس یا دیگر ساز و سامان حاصل کرنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ لاہور میں بننے والی اکثر فلمیں جدید ترین کیمروں پر فلمبند ہو رہی ہیں۔ ہمارے پاس وہی کیمرے ہیں جو ہالی وڈ اور بالی وڈ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اب اِس فلم کی ہی مثال لے لیں۔ ’رنگ عشقے دا‘ جدید ایری الیکزا کیمرے پر عکسبند ہو رہی ہے۔‘

سٹوڈیوز جو نہیں رہے

لاہور کی فلمی صنعت کی زبوں حالی کا ایک نتیجہ فلم سٹوڈیوز کے ختم ہونے کی صورت میں بھی دیکھا گیا۔ اِس کی وجہ پرویز کلیم سٹوڈیو مالکان کے غلط فیصلوں کو قرار دیتے ہیں۔

‘سٹوڈیوز کی اہمیت اِس لیے ختم ہوئی کیونکہ نہ تو انھوں نے جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا اور نہ ہی اپنے کام کا دائرہ کار وسیع کیا۔

لالی وڈ فلم

’آج سے بیس سال پہلے جب میں نے تھائی لیںڈ میں ڈیجیٹل فلم کیمرے دیکھے تو پاکستان واپس آکر یہاں سٹوڈیو مالکان اور کیمرامین حضرات کو بتایا۔ لیکن وہ سب مجھے بُرا بھلا کہنے لگے کہ یہ کیا بات ہوئی؟

انھیں یہ سننے کو ملا کہ ’فلم نیگیٹو کیسے ختم ہو سکتا ہے؟‘ اس پر وہ کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ تبدیلی کو ذہنی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن آج سب کو ماننا پڑا ہے۔‘

گھر بیٹھے فلم بنائیں

فلم نقاد اعجاز گُل کے مطابق سٹوڈیو سسٹم کے ختم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب فلم بنانا انتہائی آسان اور عام فہم ہو چکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اب آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر بھی فلم بنا سکتے ہیں۔

’موجودہ دور میں اکثر فلمیں حقیقی لوکیشنز پر فلمائی جاتی ہیں لہذا اب بڑے سٹوڈیوز کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک دہائی قبل فلم نیگیٹو پر عکسبند کی جاتی تھی جسے سٹوڈیوز میں قائم لیب میں ڈیویلپ کیا جاتا تھا۔ فلم کے ڈیجیٹل پر چلے جانے کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔’

لاہور بمقابلہ کراچی

ایک زمانے میں لاہور کو پاکستانی فلم انڈسٹری کا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن اب اکثر مقامی فلمیں کراچی میں تیار ہو رہی ہیں۔ اِس تبدیلی نے دونوں شہروں میں کام کرنے والے فلمسازوں کے درمیان مقابلے کو بھی فروغ دیا ہے جس کی ایک جھلک مجھے ہدایت کار پرویز کلیم اور پروڈیوسر کاشف ریاض کی گفتگو میں بھی نظر آئی۔

پرویز کلیم نے شکوہ کیا کہ کراچی کے فلمساز لاہور کی فلم انڈسٹری کو ’انڈسٹری ہی نہیں مانتے۔‘

‘کراچی کے نوجوان فلمساز ہمارے جونیئر ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اب پڑھے لکھے لوگ بھی فلم انڈسٹری میں آ رہے ہیں۔

’لیکن کراچی میں جو فلم بنائی جا رہی ہے وہ ٹی وی ڈرامے سے متاثر ہے۔ اِن فلموں میں سکرین پلے کا بھی فقدان ہے اور ممبئی میں بننے والی فلموں کی چھاپ تو بہت ہی واضح ہے۔‘

‘بجٹ ہی سب کچھ نہیں’

اپنی پہلی فلم پروڈیوس کرنے والے کاشف ریاض نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں بننے والی اکثر فلموں کو کارپوریٹ سیکٹر سپانسرشپ (مالی معاونت) کی مد میں حمایت کرتا ہے اور یہ وہ سہولت ہے جو اُن جیسے پروڈیوسرز کو حاصل نہیں ہے۔

لیکن ہدایت کار پرویز کلیم کے خیال میں صرف بڑا بجٹ ہی اچھی فلم کی ضمانت نہیں ہے۔

‘یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ فلم کو بجٹ سے ناپا تولا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں تو فلم کو خیال سے ناپا تولا جانا چاہیے۔ یہ ایک تخلیقی اور کریٹیو کام ہے۔ اگر آپ نے ‘مغلِ اعظم’ تخلیق کرنی ہے تو یقیناً بڑا بجٹ درکار ہوگا لیکن اگر کسی سماجی موضوع پر کوئی فلم ہے تو وہ کم بجٹ میں بھی بن سکتی ہے۔’

ملٹی پلیکسوں کی بے نیازی

لالی وڈ فلم سازوں کو ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ بڑے شہروں میں قائم جدید ملٹی پلیکس سنیما گھر اُن کی بنائی ہوئی فلموں کی نمائش نہیں کرتے حالانکہ موجودہ زمانے میں فلموں کی اصل آمدنی انھی ملٹی پلیکسز سے حاصل ہوتی ہے۔ اِس کا جواب فلم نقاد اعجاز گُل دیتے ہیں۔

لالی وڈ فلم

‘فلم جو بھی ہو اُس کی آخری منزل سنیما ہال ہی ہوتا ہے۔ اِن فلموں کو ملٹی پلیکس شائقین تک رسائی نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ ملٹی پلیکس مالکان صرف اُن فلموں کو نمائش کے لیے منتخب کرتے ہیں جو آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ فلمیں اُس معیار کی نہیں ہوتیں کہ بہت زیادہ پیسہ کما سکیں۔’

مصنف اور ہدایت کار پرویز کلیم تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کی اور اُن کے ساتھی ہدایت کاروں کی بنائی ہوئی اکثر فلمیں ملٹی پلیکسز تک نہیں پہنچ پاتیں۔

‘میرا خیال ہے کہ ابتدا میں کچھ مشکلات آئیں گی۔ ابھی تو بارش کے چند قطرے ہی گرے ہیں۔ ہمیں ملٹی پلیکس مالکان کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ اور اعتماد میں کیسے لیں گے؟ اچھی فلم بنا کر۔’

بائے بائے گنڈاسا

لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کی بھلا کون سی فلم کامیاب ہے، لاہور کی فلم اچھی ہے یا کراچی کی، کیا فلم ہے اور کیا ڈرامہ، ہماری فلم انڈیا کی فلم کا مقابلہ کب اور کیسے کرے گی۔۔۔

چار دہائی قبل بننے والی فلم مولا جٹ کا پوسٹر

چار دہائی قبل بننے والی فلم مولا جٹ کا پوسٹر

اِس تمام بحث سے قطع نظر ایک بات طے ہے کہ نئے زمانے میں صرف نئے خیالات اور نئی تکنیک کی جگہ ہے اور پرانی روایات سے کنارہ کشی میں ہی بہتری ہے۔ اگلے سین کی شوٹنگ کے لیے اُٹھنے سے پہلے پرویز کلیم نے تسلیم کیا کہ آج کی نسل فلموں میں گنڈاسا اور بے جا مار دھاڑ نہیں دیکھنا چاہتی۔

‘میں جو فلم بنا رہا ہوں اُس میں نہ گنڈاسا ہے اور نہ ہی کلاشنکوف۔

’اِس میں نہ کچھ لاؤڈ ہے اور نہ ہی بیہودہ مکالمے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں پوری طرح کامیاب ہوگیا ہوں لیکن اپنی طرف سے ایک کوشش ضرور کر رہا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp