افغانستان میں اغوا کیے جانے والے سکھ: ‘ اغوا کاروں کو لگا میں جاسوس ہوں”


افغانستان سے 26 جولائی کو 11 سکھوں اور ہندؤں کے ایک گروپ کو لے کر ایک خصوصی طیارہ دلی پہنچا۔

حالیہ برسوں میں افغانستان میں سکھ اور ہندو برادری کے افراد پر حملوں میں شدت آئی ہے۔

سکھ اور ہندو افغانستان میں بہت چھوٹی اقلیتی برادریاں ہیں۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے حال ہی میں ایک بیان دیا تھا کہ ’انڈیا نے افغانستان میں اپنے تحفظ سے متعلق تشویش رکھنے والے ہندو اور سکھ برادری کے افراد کو واپس انڈیا لانے میں مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

انڈیا کی حکومت کی جانب سے اس بیان کے بعد سکھوں اور ہندوؤں کا یہ پہلا گروپ ہے جو کابل سے دلی پہنچا ہے۔

اس گروپ میں سکھ کاروباری ندان سنگھ سچدیوا بھی شامل ہیں۔ ایک ماہ قبل ان کو افغانستان میں اغوا کرلیا گیا تھا۔

انہیں ایک مسلحہ گروپ نے افغانستان کے پکتیہ صوبے کے چمکنی ضلع سے اغوا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سکھ سیاسی رہنما نے ’دھمکیوں‘ کے بعد پاکستان چھوڑ دیا

انڈیا: شہریت کا متنازع ترمیمی بل لوک سبھا سے منظور

لاہور: سکھ برادری سے متعلق متنازع ویڈیو، انڈیا کا پاکستان سے احتجاج

جس وقت ان کو اغوا کیا گیا تھا اس وقت وہ چکمنی ضلعے میں واقع سکھوں کے ایک تاریخی گرودوارے میں موجود تھے اور وہاں کے عوام کی ‘سیوا’ یا خدمت کر رہے تھے۔

ندان سنگھ کی کہانی

انہوں نے بی بی سی پنجابی کے نامہ نگار جسپال سنگھ کو بتایا ’وہ غیر مسلمانوں کو انسان سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ ان کے لیے صرف مسلمان ہی انسان ہیں‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں ’اغوا کے بعد ان کی تحویل میں بہت مشکل وقت گزرا۔ انہوں نے مجھے اتنی اذیتیں دیں کہ میں صحیح سے اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہو پارہا ہوں‘۔

اس برس مارچ کے مہینے میں کابل کے ایک گرودوارے پر شدت پسندوں نے ایک حملہ کیا تھا جس میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جن 11 افراد پر مشتمل گروپ دلی پہنچا ہے ان کے خاندان کے کئی افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

ندان سنگھ نے بتایا کہ وہ مسلحہ اغواکاروں کے قبضے میں زندہ رہنے کی امید چھوڑ چکے تھے۔ ان کے مطابق انہیں اغوا کرنے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ انڈین جاسوس ہیں۔

ندان سنگھ مزید بتاتے ہیں ’مجھے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ مجھے ایک پہاڑی کی چوٹی پر رکھا گیا تھا۔ میں نے اغوا کاروں سے کہا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں‘۔

ندان سنگھ

افغانستان سے 26 جولائی کو 11 سکھوں اور ہندؤں کے ایک گروپ کو لے کر ایک خاص ہوائی جہاز دلی پہنچا ہے

گرودوراے میں سیوا

55 سالہ ندان سنگھ نوے کی دہائی کے اوائل میں اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا آگئے تھے۔ تب سے ہی وہ اپنے چھ بچوں اور اپنی اہلیہ کے ساتھ انڈیا میں مقیم ہیں۔ لیکن وہ اکثر خاص طور پر مون سون کے دوران سیوا کے لیے افغانستان کے گرودوارے جاتے ہیں۔

ندان سنگھ کے بیٹے جسمیت سنگھ کہتے ہیں ’وہ سال میں ایک بار جاتے ہیں۔ وہ گرودوارے میں سیوا کے لیے جاتے ہیں۔‘

ندان سنگھ کہتے ہیں ’میں ہر سال وہاں گرودوارے کی عمارت کی مرمت، رنگ کرنے اور بجلی کنکشن ٹھیک کرنے جاتا ہوں‘۔

ندان سنگھ دلی کے گرو امرداس گرودوارے میں باورچی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ گرودوارہ افغان سکھوں اور ہندوؤں کے اشتراک سے تعمیر کیا گیا تھا۔

اس گرودوارے کی انتظامی کمیٹی کے ممبر درشن سنگھ کہتے ہیں کہ ’ندان سنگھ بہت وفادار اور پابند خدمت گار ہیں۔ وہ ہر سال افغانستان گروونانک دیو سے وابسطہ تاریخی مقام کا دورہ کرنے جاتے ہیں۔‘

خوست برادری کے افراد اس گرودوارے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ندان سنگھ حال ہی میں اسی گرودارے کی مرمت کے لیے افغانستان گئے تھے جور اسی دورے کے دوران ان کا اغوا ہوا تھا۔

چرن سنگھ لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے ہی انڈیا واپس آگئے تھے۔ وہ ندان سنگھ کے اغوا ہونے اور ان کی رہائی کے لیے کی جانی والی کوششوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔

چرن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’تین ماہ قبل وہ وہاں گئے تھے اور انہیں اغوا کر لیا گیا تھا۔ وہاں رہنے والے ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ ندان سنگھ کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ ہم نے ان کی رہائی کے لیے افغان حکومت سے رابطہ کیا۔ ہم نے وہاں کے بزرگ رہنماؤں سے بھی رابطہ کیا۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ مل کر ندان سنگھ کی رہائی کے لیے پوری کوشش کی۔‘

ندان سنگھ فی الوقت افغانستان کے شہری ہیں۔ بہت سے افغان شہری کئی دہائیوں سے انڈیا میں مقیم ہیں اور یہاں شہریت حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔

شہریت سے متعلق ترمیمی بل گذشتہ سال دسمبر میں انڈین پارلیمان میں منظور ہوا تھا جس کا مقصد پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مقیم غیر مسلمان تارکین وطن کو انڈیا کی شہریت فراہم کرنا ہے۔

جب ندان سنگھ سے مستقبل میں افغانستان جانے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا ’نہیں! اب ہو گیا ہے۔‘

ندان سنگھ

حالیہ برسوں میں افغانستان میں سکھ اور ہندو برادری کے لوگو پر حملوں میں شدت آئی ہے

سکھ اور افغان سماج

سکھ برادری صدیوں سے افغان معاشرے کا ایک حصہ رہی ہے۔ افغانستان کی کاروباری دنیا میں سکھوں کا اہم کردار رہا ہے۔ ان میں سے اکثر تجارت کے کام سے منسلک تھے۔ لیکن وہاں بسنے والی سکھ برادری نے جنگ کی ایک بڑی قیمت ادا کی ہے۔ افغانستان میں رہنے والی سکھ برادری اب اپنے لیے تحفظ کی تلاش میں دوسرے ممالک میں ہجرت کر گئے ہیں۔

بی بی سی پشتو سروس کے سعید انور کے مطابق ’جنگ شروع ہونے سے پہلے افغانستان میں سکھوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ کابل کے علاوہ قندھار، غزنی، ننگرہار، خوست اور پکتیہ جیسے صوبوں میں سکھوں کے کاروبار اور زمینیں تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد جیسے ہی متعدد دیگر لوگوں نے ملک چھوڑ دیا تو سینکڑوں سکھ بھی دوسرے ممالک جانے پر مجبور ہوگئے۔ ان میں سے بعض یورپی ممالک تو بعض انڈیا چلے گئے۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ یہاں سے آہستہ آہستہ چلے گئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سکھوں کی بڑی آبادی رہی ہے۔ لیکن جنگ سے پہلے 70 کی دہائی میں ان کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ چکی تھی اور اب وہاں سکھوں کے صرف چند سو خاندان باقی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp