پاکستان میں صوبے فنانس کمیشن کیوں نہیں بناتے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟


کراچی، بارش

کراچی میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر صوبائی حکومت تنقید کی زد میں ہے

کراچی کے معروف علاقے لیاری میں واقع گندے پانی کی نکاسی کے لیے بنے ’پکچر نالے‘ کی صفائی کئی برسوں سے نہیں ہوسکی۔ پولی تھین بیگوں اور دوسری غلاظت کی وجہ سے یہ نالہ اس وقت علاقے کے مکینوں کے لیے عذاب بن جاتا ہے جب بارش کا موسم ہو۔ ساری غلاظت نالے سے نکل کر اردگرد کی سڑکوں اور گلیوں میں پھیل جاتی ہے۔

سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے علاقے کے یونین کونسل چیئرمین فہیم علی کراچی کی ضلعی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو اس وقت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے پاس ہے۔

فہیم علی کے مطابق نالوں کی صفائی کراچی میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری ہے لیکن وہ اس سلسلے میں فنڈز نہیں دیتی۔ ان کے مطابق اس نالے کی صفائی کے لیے ’گذشتہ چار سالوں میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ترقی پذیر ممالک چین کے ’قرض کے جال‘ میں

پاکستان کے ذمے قرض کی واپسی مؤخر، ملک کے لیے کتنی سود مند

70 سال میں پہلی دفعہ قومی پیداوار منفی، عوام کیسے متاثر ہوں گے؟

کورونا کے باعث امیر عرب ریاستیں قرض لینے کے دہانے پر کیسے پہنچیں؟

صوبے فنانس کمیشن کیوں نہیں بنا رہے

کراچی کے پوش علاقوں نارتھ ناظم آباد بلاک بی اور بلاک ایف کی سڑکیں اس وقت مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ وسیع و عریض بنگلوں اور مکانات والے اس علاقے میں سڑکوں کی بری حالت پر یہاں سے منتخب ہونے والے یونین کونسل کے چیئرمین نعیم الدین، جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے ہے، کہتے ہیں کہ سڑکوں کی بری حالت کی ذمہ دار حکومت سندھ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت مقامی حکومت کو ترقیاتی فنڈز فراہم نہیں کرتی جس کی وجہ سے ان کے علاقے میں بے پناہ مسائل ہیں۔

نعیم الدین کہتے ہیں کہ جب کراچی کی ضلعی حکومت کے پاس ہی فنڈز نہیں ہوں گے تو یونین کونسل کی سطح پر فنڈز کی فراہمی تو ممکن ہی نہیں ہے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ صوبائی حکومت فنڈز اپنے پاس رکھنے کے باوجود خود یہ کام بھی نہیں کرتی۔

وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی بحث

صوبائی حکومت کی جانب سے ضلعی حکومتوں اور وہاں سے یونین کونسل کی سطح تک فنڈز کی عدم فراہمی اور اس پر ایک دوسرے پر الزامات پاکستان میں اکثر سننے میں آتے ہیں۔

تاہم یہ مسائل اور تنازعات صرف کراچی تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے جس کی بنیادی وجہ صوبائی سطح پر فنانس کمیشن کا غیر فعال ہونا ہے۔

پاکستان میں نیشنل فنانس کمیشن کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہوتی ہے جس کے تحت وفاق سے صوبوں کو وسائل کی فراہمی کی جاتی ہے۔

یہ وسائل ایک فارمولے کے تحت تقسیم کیے جاتے ہیں جن میں صوبوں کی آبادی، رقبہ، پسماندگی، ٹیکسوں کی وصولی وغیرہ کو مدنظر رکھ کر یہ وسائل صوبوں کو منتقل کیے جاتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں صوبوں کو فنانس کمیشن بنانے کی ہدایت کی ہے۔

پاکستان میں صوبائی فنانس کمیشن کیوں نہیں فعال ہو سکے، اس کے بارے میں معیشت کے ماہرین پاکستان میں صوبائی حکومتوں کو الزام دیتے ہیں جو اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق سے اختیارات اور وسائل لینے کے بعد خود نچلی سطح پر ان کی منتقلی سے گریزاں ہیں۔

صوبائی فنانس کمیشن کی تاریخ

پرویز مشرف

سن 2001 میں ملک کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے اختیارات کے نچلی سطح کے پلان کے تحت صوبوں کی سطح پرفنانس کمیشن کی تشکیل دی گئی

پاکستان میں نیشنل فنانس کمیشن کے مقابلے میں صوبائی کمیشن کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔

سن 2001 میں ملک کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچانے کے پلان کے تحت صوبوں کی سطح پر فنانس کمیشن کی تشکیل دی گئی جس کے تحت صوبوں سے ضلعی اور یونین کونسل کی سطح تک وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔

پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کی بعد جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کو ختم کر دیا گیا تو اس کے ساتھ صوبائی فنانس کمیشن بھی ختم ہوگئے۔

سنہ 2010 میں پارلیمان سے پاس ہونے والی 18ویں ترمیم میں صوبوں کو آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت پابند بنایا گیا کہ وہ بلدیاتی نظام تشکیل دے کر نچلی سطح تک سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات اور وسائل منتقل کریں گے۔

مالیاتی وسائل کی منتقلی کے لیے صوبے کی سطح پر فنانس کمیشن تشکیل دیے جانے تھے تاہم صوبوں کے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔

18ویں ترمیم کی منظوری کو دس سال گزرنے کے باوجود آج بھی صوبے فنانس کمیشن کو بنانے اور انھیں فعال کرنے میں ناکام ہیں اور ایک عبوری انتظام کے تحت یہ وسائل تقسیم کیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں کہا کہ صوبائی فنانس کمیشن کے تحت اضلاع کے درمیان وسائل اس طرح تقسیم ہوں گے جس طرح وفاقی سطح پر فنانس کمیشن کے تحت صوبوں کے درمیان وسائل تقسیم کیے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق ’یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ صوبے دس سال میں اس آئینی ضرورت کو پورا نہیں کر سکے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ان کا آئین کے آرٹیکل 140 پر اپنا موقف ہے۔ ’یہ آرٹیکل سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات بلدیاتی حکومتوں کو دینے کے لیے کہتا ہے لیکن یہ اختیار کتنا ہو اس پر کچھ نہیں کہتا۔‘

ان کے مطابق بلدیاتی اداروں کو سندھ میں اختیارات حاصل ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ انھیں لامحدود اختیارات مل جائیں کیونکہ لامحدود اختیارات تو صوبائی حکومتوں کے پاس بھی نہیں اور انھیں بھی وفاق کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔

صوبائی فنانس کمیشن کی کیا اہمیت ہے؟

پاکستان میں صوبے اپنی مرضی سے وسائل جہاں چاہیں خرچ کریں تو پھر صوبائی فنانس کمیشن کی کیا ضرورت ہے؟

اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ صوبائی فنانس کمیشن آئینی ضرورت کے ساتھ ساتھ ایک صوبے میں اضلاع کے درمیان وسائل کی تقسیم کو بھی منصفانہ بناتے ہیں۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں بتایا کہ سب سے اہم چیز ’فِسکل ایکولائزیشن‘ ہے اور اس کے تحت وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوتی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ اس میں مخلتف عوامل کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ وسائل کی تقسیم میں جو علاقہ زیادہ وسائل پیدا کرتا ہے اسے زیادہ حصہ دیا جائے تو جو سب سے پسماندہ ہے اس کا بھی خیال رکھا جائے، جیسے نینشل فنانس کمیشن میں بلوچستان کو اپنی پسماندگی کی وجہ سے اپنے پیدا کردہ وسائل سے کچھ حصہ زیادہ دیا جاتا ہے۔

صوبے فنانس کمیشن کیوں نہیں بنا رہے

انھوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں کراچی صوبائی خزانے میں 90 فیصد سے زیادہ وسائل ڈالتا ہے تو اسے صوبے سے اضلاع کی سطح پر وسائل کی منصفانہ تقسیم میں زیادہ حصہ ملنا چاہیے، اسی طرح ایک ایسا ضلع جو پسماندہ ہو اس کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ وہاں بھی ترقی ہو سکے۔

انھوں نے کہا کہ صوبوں میں فنانس کمیشن کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں کراچی صوبائی خزانے میں نوے فیصد حصہ ڈالنے کے باوجود شکایت کرتا ہے کہ اسے اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ دوسری جانب پنجاب میں جنوبی حصہ صوبے کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا تو اسی طرح خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ سے ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

صوبے فنانس کمیشن کیوں نہیں بناتے؟

پاکستان میں صوبے وفاق سے نیشنل فنانس کمیشن سے وسائل کی وصولی کے باوجود صوبائی فنانس کمیشن کیوں نہیں بناتے؟

اس سلسلے میں پاکستان میں معاشی امور کے ماہر مزمل اسلم نے کہا کہ ’صوبے وفاق سے ضلعی سطح تک فنڈز کی منتقلی کے لیے مڈل مین کا کردار ہیں تاہم 18ویں ترمیم کے بعد انھوں نے اس سلسلے میں انصاف سے کام نہیں لیا اور وسائل پر خود قابض ہو کر بیٹھ گئے۔‘

مزمل اسلم نے کہا کہ صوبائی حکومت ’ان وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بجائے ان کا سیاسی استعمال کرتی ہے، جہاں ان کے سیاسی مفادات ہیں وہ وہیں پر لگائیں گی۔‘

پی ٹی آئی

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پنجاب میں نواز لیگ نے لاہور کو نوازا‘ کیونکہ ان کے سیاسی مفادات اس شہر سے جڑے ہیں تو دوسری جانب ’پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنا سیاسی مفاد نہ دیکھتے ہوئے اسے نظر انداز کیا۔‘

مزمل اسلم کے مطابق صوبے میں جس بھی پارٹی کی حکومت ہو وہ سرکاری وسائل کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں جو صوبائی فنانس کمیشن کی موجودگی میں مشکل ہو گا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ وسائل کی صوبوں سے نچلی سطح پر منتقلی کے پس پردہ ایک ذہنیت کارفرما ہے کہ ’ملک میں کسی نئی سیاسی قیادت کو پیدا نہیں ہونے دینا ہے۔‘

انھوں نے کہا جب وسائل ضلع اور یونین کونسل کی سطح پر منتقل ہوں گے تو ’ایک نئی سیاسی قیادت کا ابھرنا لازم ہے جو پاکستان میں موجود سیاسی قیادت نہیں چاہتی۔‘

صوبائی وزیر سعید غنی نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ان کی حکومت صوبائی فنانس کمیشن کی تشکیل نہیں چاہتی۔ تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس میں تاخیر ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جب متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ اسمبلی میں صوبائی فنانس کمیشن بنانے کی قرارداد جمع کرائی تھی تو پی پی پی حکومت نے اس کی مخالفت نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا اس کمیشن کو نہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

انھوں نے اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ یہ بہت جلد بن جائے گا۔

جب ان سے صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے فنڈز کی ضلعی حکومتوں کی بجائے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو سعید غنی نے کہا کہ ’یہ تاثر غلط ہے۔‘

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اکثر پی پی پی حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ کراچی کے لیے فنڈز نہیں دیتی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ کراچی جہاں سے دوسری سیاسی جماعتوں کی نمائندگی زیادہ ہے وہاں سے زیادہ فنڈز حکومت نے دیے ہیں۔

مقامی سطح پر وسائل کی پیداوار

مقامی سطح پر وسائل کی پیداوار یعنی ٹیکسوں کی وصولی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ صوبوں نے مقامی سطح پر ٹیکس اکٹھا کرنے سے بھی مقامی حکومتوں کو محروم کر دیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال پراپرٹی ٹیکس ہے جو صوبائی حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے وسائل کی فراہمی میں رکاوٹ اور مقامی سطح پر ٹیکس اکٹھا کرنے سے محرومی نے مقامی حکومتوں کو مالی مشکلات کا شکار کر رکھا ہے۔

صوبے فنانس کمیشن کیوں نہیں بنا رہے، پشاور

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ جب وہ آج کی صورتحال دیکھتے ہیں کہ جہاں اضلاع وسائل سے محروم ہیں تو انھیں بطور وزیر خزانہ اپنے اس فیصلے پر افسوس ہوتا ہے کہ جب انھوں نے ’ٹیکس‘ ختم کیا تھا جو مقامی حکومت کو جاتا تھا۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آکٹرائے ٹیکس سے کراچی کو معقول ٹیکس وصول ہوتا تھا اور اس کے ختم کرتے وقت یہ طے ہوا تھا کہ سیلز ٹیکس کی مد میں وصول ہونے والے ٹیکس سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا جو ایک افسوسناک صورتحال ہے۔

غیر فعال صوبائی فنانس کمیشن نے کیا مسائل پیدا کیے؟

صوبے کی سطح پر فنانس کمیشن کے غیر فعال ہونے سے مقامی طور پر ترقیاتی کاموں کی رفتار کیسے رک گئی اس کے بارے میں مزمل اسلم نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبے صوبوں کو مل گئے لیکن انھوں نے آگے انھیں مقامی سطح پر منتقل نہیں کیا جس کی وجہ سے ان شعبوں میں کام کو ریورس گیئر لگ گیا۔

مزمل اسلم نے کہا کہ مقامی سطح پر کام کرنے والے کونسلر کو مسائل کا صحیح پتا ہوتا ہے لیکن جب وہ وسائل سے محروم ہوں تو وہ مسائل کیسے حل کریں۔ انھوں نے کہا کہ پورے ملک اور خاص کر بڑے شہروں میں بڑھتے ہوئے شہری مسائل اس کا واضح ثبوت ہیں کہ صوبائی فنانس کمیشن ’نہ بننے کی وجہ سے مقامی سطح پر وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں ہو رہی‘۔

مزمل اسلم کے مطابق اٹھارویں ترمیم پر مکمل عمل درآمد کرتے ہوئے صوبائی فنانس کمیشن کو بھی فعال کریں یا پھر ترمیم کو ہی غیر فعال کر دیں۔

ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ صوبائی فنانس کمیشن کے تحت میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور یونین کونسل کو فنڈز ایک خاص تناسب سے دیے جاتے ہیں اور اس کہ عدم موجودگی میں صوبائی حکومت اپنی صوابدید پر فنڈز تقسیم کرتی ہے جس سے مسائل نے جنم لیا ہے اور اس کا واضح ثبوت اس وقت ’کراچی کی صورتحال ہے جو صوبائی اور قومی خزانے میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود وسائل کی کمی کا شکار ہے اور بے پناہ شہری مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp