حرمت کیا ہے



بے کار کا سوال کیا ہے تم نے
یہ کس قسم کا سوال ہے
بیٹا! بڑوں سے ایسے سوال نہیں کرتے۔
مذہب کے بارے میں سوال کرنا گناہ ہے۔
بس ہم نے کہہ دیا، اب کوئی سوال نہیں۔
اچھا تھوڑی دیر بعد پوچھنا۔
بزرگوں سے تمہیں بات کرنا کب آئے گی۔
بات کیوں کاٹی۔
آنکھیں نیچی۔
تمیز سیکھو پہلے۔
اتنی بڑی ہستیوں کا نام لینے کی تمیز ہے تمہیں۔
تم اس مسجد میں کیوں گئے۔ ارے وہ کافر ہیں۔
گفتگو کے آداب سیکھو۔
یہاں کیوں کھڑے ہو۔
تم اس مسئلے میں مت بولو۔
تمہیں کیا معلوم کیا بات ہو رہی ہے۔
جب ہم چھوٹے تھے تب پڑھے لکھے متمول طبقے میں بچوں کو ایسے ہی سرزنش کیا جاتا تھا۔ ہم سہم جاتے تھے۔
بچوں کی تربیت کا یہ انداز پچھلی دو دہایوں تک جاری رہا، پھر ہوا کیا۔

بچے سہمے نہیں مگرخاموش ہو گئے۔ سوال نہیں کرتے، شور نہیں مچاتے۔ ایک بند کمرے میں ان کی دنیا آباد ہو گئی۔

ان کے ہاتھ ایک چھوٹا سا سیل فون ہے۔ جس پر ان کا پورا اختیار ہے۔ اک ذرا ٹچ سے ان کے سامنے کائنات وا ہوجاتی ہے۔

اب گوگل، ان کا باپ، یو ٹیوب ان کی ماں، انسٹا گرام ان کے دوست اور مختلف ایپلیکیشنز ان کے استاد ہیں۔

اس بند کمرے میں وہ اب بھی سوال کرتے ہیں، تجسس کا برملا اظہار کرتے ہیں، تنقید اور تعریف کرتے ہیں۔ مگر ان کا باپ انہیں جھڑکتا ہے، نہ ماں مصروفیت کا بہانہ بنا کر انہیں ٹالتی ہے۔ انہیں خاموشی سے ان کے سوال کاجواب مل جاتا ہے۔ ان کے استاد انہیں سکھانے پر ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔ وہ دوستوں کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔ کہیں سیر کرنی ہوں۔ وہ باپ سے پیسے نہیں مانگتے، اور پلک جھپکتے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔

لیکن کبھی جو بند کمرے کی گھٹن حد سے بڑھ جائے، دروازے کھڑکیاں کھول دیتے ہیں، باغی ہو جاتے ہیں۔ برسوں کے رواج کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اور جو نعرہ مستانہ بلند نہیں کر سکتے، وہ بند کمرے میں پنکھے سے جھول جاتے ہیں۔

یہ تو ایک طبقہ ہے۔ ایک دوسرا طبقہ بھی ہے، جس سے تعلق رکھنے والے بچے بے حد مہذب ہوتے ہیں، بڑوں سے سوال نہیں کرتے نظریں نیچی رکھتے ہیں۔ بزرگوں کا لحاظ کرتے ہیں۔ بات نہیں کاٹتے۔ مذہب، ملک وملت، شخصیت، رسم و رواج، تاریخ، ۔ سیاست پر سوال اٹھاتے ہیں، نہ مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ اپنے ماں باپ کے ہر عمل کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ یہ اپنے والدین کی پسند سے شادی کرتے ہیں۔ ان کی مرضی سے بیوی کو طلاق دیتے ہیں۔ ان کی مرضی سے ہی بچوں کے نام رکھتے ہیں اور ان کی مرضی سے ہی اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں۔ ان کی زندگی عشق الہی میں بسر ہوتی ہے۔ ان کا دل شہادت کی تمنا میں دھڑکتا ہے۔ یہ دشمنان اسلام پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ اور موقع ملتے ہی انہیں مار ڈالتے ہیں۔

ایک تیسرا طبقہ بھی ہے۔ جس کے دماغ میں سوال جنم نہیں لیتے۔ اس طبقے کے مردوں کے دماغ میں مسائل اور عورتوں کے پیٹ میں بچے اور بچوں کے پیٹ میں کیڑے کلبلاتے رہتے ہیں۔ جسم اور پیٹ کی بھوک ختم کرنے کی فکر میں رات دن جڑے رہتے ہیں۔ ان سے آج تک کسی نے ان کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ انہیں خود نہیں معلوم کہ ان کا مذہب کیا ہے۔

یہ امداد بٹتے وقت ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کرتے ہیں، پانی کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو مارتے ہیں، یہ بچوں کی لڑائی میں فریق بن جاتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں کبھی مذہب پر بحث ہو تی ہے۔ نہ یہ ایک دوسرے کو کافر کہہ کر گلا کا ٹتے ہیں۔ نہ خود کشی کرتے ہیں۔ ان کا استاد، پیر اور کوئی رہنما نہیں۔ اس لیے یہ کسی کی حرمت کی بقا کے لیے جلوس نکالتے ہیں نہ احتجاج کرتے ہیں۔ یہ اپنے ہی ہاتھ پر بیعت ہیں۔ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔

عزت نفس جیسے الفاظ کبھی ان کے کانوں میں نہیں پڑے۔ اس لیے گال سہلانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ یہ ماں کی گالی سن کر کسی کو جان سے نہیں مارتے، جوابی گالی دے کر غصہ ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ پیدا کرنے والی کی حرمت کیا ہے۔ اور اس کی حرمت کے لیے جان دینے کا اجر کسی مقدس چار دیواری سے ان کے کانوں میں اگر پڑ جاتا تو شاید اس دن کے بعد سے ان کے ہاں بھی کوئی جگت باز پیدا ہو جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments