نئے دور کا صحافت نامہ


اگرچہ گریجویشن میں مخصوص مضامین کی وجہ سے میرے پاس آپشن میں صرف صحافت میں جانا ہی لکھا تھا اس لیے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں داخلہ لے لیا اگرچہ مجھے اس وقت تک اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ صحافت میرا مستقبل بنتی گئی۔

اور یوں 2009 میں میں نے باقاعدہ طور پر صحافت کو پڑھنا اور جاننا شروع کیا، اگرچہ اس سے قبل اخبار میں کام کرنے کا بھی تھوڑا سا تجربہ تھا۔ گریجویشن میں اسلم ڈوگر نامی مصنف کی کتاب پڑھ کر جو صحافت کا پرچہ پاس کرکے داخلہ لیا یہاں تو اس صحافت کے معنی ہی کچھ اور تھے۔

صحافت کی ڈگری میں صحافت سے منسلک مضامین ہی میں نے آخری دو سمسٹرز میں پڑھے، جو ہمیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پڑھائے گئے۔ کاش کہ اس میں صحافت اور صحافیوں کی اخلاقیات پر بھی کچھ سکھایا جاتا۔

خیر پھر جب اس فیلڈ میں عملی طور پر کام کرنے کا موقع ملا تو جہاں کام کرنے والے میرے سینیئر کولیگز اور حال وقت کے آفسران بالا نے مجھے اپنے ادارے کی صحافت سکھائی۔ لیکن خیر اس وقت تو سیکھنے کا عمل شروع ہوا تھا اس لیے جو کچھ سیکھا وہی کرتے چلے گئے، ہر بار بہت سی غلطیاں کرکے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا رہا۔ پرنٹ میڈیا سے شروع ہونے والا یہ سفر الیکٹرانک میڈیا سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا تک آن پہنچا اور ہمارے سیکھنے کا عمل جوں کا توں جاری ہے۔

تین مختلف قسم کی مختلف رنگ کی صحافت سیکھی۔ سفید سچ سے لے کر جھوٹ کی زرد صحافت سب دیکھی، سنی اور سیکھی۔ سچ کو سچ کیسے لکھنا اور بتانا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا رنگ کیسے دینا سب سیکھا۔

مجھے لگا تھا صحافت اپنے معنی کے اعتبار سے پوری دنیا میں ایک جیسی ہوگی لیکن نہیں حقیقت تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں صحافت کے اصولوں پر نہیں چلا جاتا بلکہ ہر ادارہ اپنے اصولوں پر صحافت کرتا ہے پھر چاہے وہ اخبار ہے یا الیکٹرانک میڈیا۔ وہاں کام کرنے والے ملازمین صرف اپنی ملازمت کرتے ہیں صحافت تو کب کی مر گئی۔

اس شعبے سے وابستہ مجھ سمیت بہت سے صحافی دوستوں نے اپنی نظروں کے سامنے اس صحافت کا جنازہ اٹھتا دیکھا ہے۔ اس کے زوال نے صحافت کے معنی کیا بدلے اس سے منسلک تمام ادارے تباہ کردیئے۔ اب تو بھئی اس شعبے میں کام کرنا ہے تو مالک کے بتائے ہوئے اصول اور قوانین کے مطابق ہی صحافت کرنی پڑے گی اور ہاں اس میں اخلاقیات کو بالا تر رکھ کر کام کرنا پڑے گا۔ اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ اور ادارے کامیاب ہیں جنہوں نے اپنا ضمیر بیچ کر اس نئے دور کی نئی صحافت کی ہے

جس دور میں ہم نے صحافت پڑھی تھی تب تک حالات بہت بہتر تھے۔ نوکریاں بھی مل جاتی تھیں اور تنخواہیں بھی، لوگ ایک دوسرے کی عزت بھی کرتے تھے۔ کبھی کسی خاتون صحافی کے بارے میں کچھ سننے کو نہیں ملتا تھا، ایک ادارے میں ایک فیملی کی طرح لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ لیکن اب تو جناب آپ کام بھی کرو دھرنے بھی دو، احتجاج بھی کرلو، اپنا حق مانگنے کے لئے جس مرضی کا دروازہ کھٹکھٹا لو خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑتا ہے۔ اب جو حالات میڈیا انڈسٹری کے ہو چکے، اخبارات نا ہونے کے برابر ہیں، جو کام کر رہے ہیں انہیں تنخواہیں ہی نہیں ملتیں۔

اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کا زوال بھی اپنے عروج پر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ادارے بند ہو رہے، ہزاروں صحافیوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا اور جو رہ گئے بچارے اپنی تنخواہ ملنے کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ اور جہاں تنخواہیں مل رہی ہیں وہاں تنخواہوں پر کٹ لگ رہے ہیں۔ جو سہولیات فراہم کی جاتی تھیں وہ بھی واپس لے لیں گئیں ہیں۔

ان سب سے تنگ آکر صحافیوں نے اپنی صحافت کو زندہ رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے محاذ سنبھال لیے۔ پہلے تو صرف ٹویٹر اور فیس بک ہوا کرتا تھا، اب تو سوشل میڈیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ فیس بک ٹوٹیٹر کے بعد ویب سائٹ اور یوٹیوب چینلز نے اپنے قدم جما لیے ہیں۔ پہلے آپ ادارے کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافتی خدمات سر انجام دیتے تھے، یہاں آپ کو تقریباً مکمل آزادی حاصل ہوئی ہے۔ آزادی صحافت پر بہت سے اداروں کو کئی بار اپنی نشریات کی بندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔

اس لیے بیروزگار ہونے والے متعدد صحافیوں نے اپنے اپنے یوٹیوب چینلز بنا لیے اور یوٹیوب والوں کی مہربانی کے وہ ان کو ان کی محنت کے پیسے بھی دے رہا ہے۔ بظاہر بہت آسان نظر آ رہا سننے میں لیکن یوٹیوب چینل پر بھی ایک خاص جدوجہد، محنت اور منفرد انداز میں کام کرنے والوں کو اس کا فائدہ مل رہا ہے۔

لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ جس ملک میں جمہوریت کے نام پر ہم ملک چلا رہے ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں ہر شہری اپنے حق کے لئے ترس رہا اور لڑ رہا ہے۔ حکومت کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے لیکن اگر انفرادی طور پر شہری کچھ کر لیں تو وہ بھی انہیں ناگوار گزرتا ہے۔ اداروں پر تو انہوں نے اپنی چھاپ بیٹھا لی ہے اب حق اور سچ کہنے والوں کو کس طرح روکیں۔ اس لیے پہلے تو سچ کہنے والوں کو آگاہ کیا جاتا کہ سچ کہنے سے گریز کرو اگر پھر بھی باز نا آئیں تو ویگوڈالا تحفے میں بھیج کر اس کی سیر کرائی جاتی ہے اور اس کے بعد بھی وہ سچ کہنے سے باز نہیں آتے تو ان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیا جاتا ہے، جیسا کہ ولی بابر، حاجی عبدالرزاق بلوچ، حامد میر اور مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کے ساتھ ہوا، ایسے دیگر صحافیوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔

لیکن وہ کیا ہے نا کہ ان سب سے بھی جب کام نہیں بنا تو کچھ روز قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے یوٹیوب کو بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔ کہا گیا کہ یوٹیوب پر ملک دشمن عناصر نفرت انگیز مواد کے ذریعے انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ارے بھئی سیدھی طرح بولو کہ سچ کو دبانے کا یہ ایک نیا حربہ استعمال کیا جانے لگا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ اداروں کو آپ خرید سکتے ہیں لیکن کسی کا ضمیر اتنا سستا نہیں کہ وہ چند اشرفیوں میں بک جائے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان صاحب کی جانب سے یہ ایک مثبت پیش رفت ہوئی کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اس بے جا پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔

کیونکہ ان ویب سائٹس اور یوٹیوب کی بدولت ہر کسی کو اپنا حق اور کہنے اور لکھنے کا موقع ملا ہے۔ اگر کچھ نہیں بھی ملتا تو کم از کم آپ کا پیغام کئی لوگوں تک ضرور پہنچ رہا ہے، جو صحافت کے لغوی معنی بھی ہیں مطلب ”خبر پہنچانا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments