حکومت نے فٹیف جیسے حساس معاملے پر بھی سیاست کی


فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی فیٹف نامی انٹرنیشنل ادارہ منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرتا ہے تا کہ غیر قانونی ڈھنگ سے بنائی گئی بلیک منی کو کسی دوسرے ملک میں لانڈر کر کے ٹرانسفر نہ کیا جا سکے۔ 9 / 11 کے بعد اس ادارے میں ٹیرر فنانسنگ کو بھی شامل کر دیا گیا۔ فیٹف میں شامل ممالک کے ارکان دہشت گردانہ آپریشن میں استعمال ہونے والے پیسوں کی ترسیل کو روکنے کے لیے پالیسیز بناتے ہیں۔ فیٹف اپنے ہدف کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں نظر رکھتا ہے اور اس کی بنا پہ ممالک کی لسٹیں ترتیب دی جاتی ہیں جیسے وائیٹ لسٹ گرے لسٹ اور بلیک لسٹ۔ وائیٹ لسٹ والے ممالک کی کارگردگی اطمینان بخش ہوتی ہے۔ گرے لسٹ والے ممالک کو زیر مشاہدہ رکھا جاتا ہے اور ان کو تجاویز اور ٹاسک دیے جاتے ہیں تا کہ وہ ٹیرر فنانسنگ کو روک کر گرے لسٹ سے واپس وائیٹ لسٹ میں جگہ بنا سکیں۔

فیٹف ٹیرر فنانسنگ کو روکنے کے لیے اداروں کو مضبوط کرنے بینکس پہ چیک رکھنے اور قانون سازی کرنے پہ زور دیتا ہے۔

تیسری اور آخری لسٹ کو بلیک لسٹ کا نام دیا گیا ہے۔ ٹیرر فنانسنگ کو روکنے میں ناکام یا ٹیرر فنانسنگ میں ملوث ممالک کو بلیک لسٹ میں رکھا جاتا ہے۔ ایران اور نارتھ کوریا ایسے دو ممالک ہیں جو اس وقت بلیک لسٹ میں شامل ہیں اور ان ممالک پہ جان بوجھ کر ٹیرر کو بڑھاوا دینے کا الزام ہے۔ جب کوئی ملک بلیک لسٹ ہوتا ہے تو بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس ملک پہ پابندیاں لگاتے ہیں، تجارتی پابندیاں لگتی ہیں بعض صورتوں میں سفری پابندیاں لگتی ہیں بیرون ملک انویسٹرز ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ بیرونی امداد بند ہو جاتی ہے۔ کل ملا کر بلیک لسٹ ملک اک ایسا ہمسایہ بن جاتا ہے جس کا پورا محلہ سوشل بائیکاٹ کرتا ہے لین دین آنا جانا شادی برادری خوشی غمی دکھ سکھ بانٹنا سب بند کر دیا جاتا ہے یعنی مکمل قطع تعلقات کر دیے جاتے ہیں۔ اگر ہمسایہ امیر اور طاقتور ہو تو وہ اس کو جھیل جاتا ہے اگر کمزور معیشت کا حامل ہو تو اس کے لیے جینا مشکل ہو جاتا ہے۔

فیٹف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ کیا گیا ہے۔ پاکستان اک لمبے عرصے سے گرے لسٹ میں شامل ہے۔ حکومت پاکستان نے بڑے تعلقات اور کوششیں کر کے خود کو بلیک لسٹ ہونے سے بچایا تھا۔ ورنہ فیٹف کا پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا مکمل ارادہ تھا۔ بھارت و افغانستان جیسے ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان بلیک لسٹ ہو جائے بھارت تب سے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے پورا زور لگا رہا ہے۔ لیکن تاحال اسے ناکامی کا سامنا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے حامی ممالک پاکستان کو بچا رہے ہیں مگر ایسا کب تک چلے گا۔

لہذا پاکستان کو فیٹف کی تجاویز ماننی ہوں گی اور ٹاسک پورے کرنے ہوں گے۔ فیٹف کی تجاویز کے مطابق پاکستان کو اگست کے پہلے ہفتے تک کچھ قانون سازی کرنی ہے۔ جب پاکستان یہ قانون سازی کر لے گا تب ایشیا پیسفک گروپ اس پہ اک رپورٹ بنائے گا جو فیٹف میں جائے گی اور اس طرح آپ گرے لسٹ سے نکل کر وائیٹ لسٹ میں آ پائیں گے۔ اگر وائیٹ لسٹ نہ بھی ہوئے تو کم از کم بلیک لسٹ ہونے سے بچ جائیں گے۔ لامحالہ پاکستان کو یہ ٹاسک پورے کرنے ہوں گے۔ یہ قانون سازی کرنا ہو گی۔

حکومت نے فیٹف کے حوالے اس قانون سازی اور نیب آرڈیننس پہ بات کرنے کے لیے اپوزیشن سے رابطہ کیا یوں بل کی ڈسکشن کے لیے اک انفارمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے فیٹف بل پہ بات کرنے کے لیے نیب بل کی شرط رکھی تھی ورنہ ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب حکومت کا اک اور الزام سامنے آیا ہے کہ اپوزیشن والے نیب قانون میں چونتیس پنکچر لگا کر احتساب سے بچنا چاہ رہے ہیں اور اس کے لیے فیٹف بل کو لے کر بلیک میلنگ کر رہے ہیں۔ الزامات پہ مشتمل پریس کانفرنس کرنے والے شاہ محمود قریشی اس انفارمل کمیٹی کا حصہ تھے جو ان بلز پہ اپوزیشن سے بات چیت کر رہی تھی۔

لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب نے پریس کانفرنس میں جتنے بھی الزامات لگائے وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ فیٹف سمیت جتنے بھی قانونی بل پہ بات ہوئی وہ سب حکومت کے لائے گئے قانون تھے۔ حکومت نے خود اپوزیشن کو اس پہ ڈسکشن کی دعوت دی اور اس سلسلے میں تمام بیٹھکیں سپیکر قومی اسمبلی کے گھر پہ ہوئیں۔ ن لیگ و پیپلز پارٹی کے نمائندگان نے کمیٹی کے آغاز پہ حکومتی ارکان کمیٹی سے کہا کہ آپ میں تین فیڈرل منسٹرز اور دو پی ایم کے مشیر ہیں۔ ہمارے پاس تو اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے فیصلہ سازی کا مینڈنٹ ہے کیا آپ کے پاس مینڈنٹ ہے؟ تو حکومتی ارکان نے کہا کہ جی ہمارے پاس مینڈنٹ موجود ہے۔ اس کے بعد اپوزیشن ارکان نے اک نہیں متعدد بار کہا کہ اپوزیشن ہو یا حکومت ہم سب کو ملک عزیز ہے اور فیٹف والا قومی سلامتی کا معاملہ ہے تو آپ فیٹف اور نیب والے بلز کو الگ الگ رکھ کر بات کریں۔ فیٹف اور نیب کے بل کو مت جوڑیں لیکن حکومتی ارکان نے کہا کہ ہم ان سب بلز کو اکٹھے پاس کرانا چاہتے ہیں۔

حکومت نے فیٹف کے نام پہ تین بل دیے۔ جس میں دو ٹیرر فنانسنگ کے متعلق تھے اپوزیشن ارکان نے بل پڑھنے کے بعد اس پہ کسی قسم کا اعتراض ظاہر نہیں کیا بلکہ حکومتی ارکان کو تجاویز دیں کہ ان میں یہ یہ ترامیم کریں ورنہ ان بلز کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ حکومتی ارکان نے تائید کی اور ان تجاویز پہ اپوزیشن کمیٹی کا شکریہ ادا کیا۔ فیٹف کے نام پہ جو تیسرا بل پیش کیا گیا وہ بل حساس اداروں کو بنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزی کا حق فراہم کرتا تھا جیسے حساس ادارے کسی بھی شخص کو بنا کسی قانونی رکاوٹ کے 180 دن کے لیے اٹھا سکتے تھے۔

اپوزیشن نے اس بل پہ حیرانی کا اظہار کیا تو حکومتی ارکان نے کھسیانے ہو کر بتایا کہ یہ بل فیٹف کا حصہ نہیں ہے بلکہ وہی دو بلز ہیں جن پہ اپوزیشن نے آمادگی ظاہر کی ہے اور ان کو مفید بنانے کے لیے تجاویز بھی دیں ہیں۔ اس کے بعد جب نیب بل سامنے لایا گیا تو وہی پچھلا آرڈینس تھا الٹا اک اور شق کا اضافہ کیا گیا تھا کہ چئیرمین نیب کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن نے اس بل کو نان سٹارٹر قرار دیا تو حکومتی ارکان نے تجویز دی کہ ہم اک اک شق کو ڈسکس کر لیتے ہیں اور بعد میں آپ اپنی تجاویز دے دیجیے گا۔

اک شق پہ ڈسکشن کے بعد پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے فاروق نائیک نے اپنی تجاویز کے نوٹس آسانی کے لیے حکومتی ارکان کو دے دیے اور بارہا باور کرایا کہ یہ بل کا مسودہ نہیں بلکہ اپوزیشن کمیٹی کے صرف اک ممبر کی تجاویز ہیں جو آپ کی آسانی کے لیے آپ کو دی جا رہی ہیں کل کو یہ نہ ہو کہ آپ اسے لہراتے ہوئے الزامات لگاتے پھریں۔ حکومتی ارکان کمیٹی یہ تجاویز لے کر وزیراعظم کے پاس گئے اور وہاں سے ٹکا سا جواب لے کر واپس آ گئے۔

یہ ہے حکومتی الزامات کی اصل کہانی۔ نہ تو اپوزیشن نے فیٹف سے منسلک بلز کو نیب بل سے جوڑا نہ ہی انہوں نے اس پہ کوئی اعتراضات جتائے بلکہ خود ہی بتا دیا کہ اپوزیشن فیٹف کے حوالے سے حکومت کا ساتھ دے گی کیونکہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اپوزیشن کمیٹی کے ممبر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں یہ سب تفصیلات بتانے والے تھے مگر سپیکر نے ان کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فیٹف کے حوالے سے جب بل پیش کیے گئے تو ان کی تجویز کردہ ترامیم ان میں شامل نہیں تھیں اور آخر کار وہی ہوا جس کا ڈر تھا نیب کمیٹی نے ان ترامیم کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے ہیں جن کو دور کیے بنا ان بلز کی افادیت ہی نہیں ہے۔

عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ حکومت اپوزیشن دشمنی میں اس حد تک جا سکتی ہے کہ قومی سلامتی کے اک ایسے مسئلے جس پہ اپوزیشن خود تعاون پہ تیار ہے جس کی وجہ سے ملک بلیک لسٹ ہو سکتا ہے کو سیاسی وار کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اور فیٹف کے نام کو استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو اٹھانے کا بل پاس کروانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اور انفارمل کمیٹی میں اعتماد کے اخلاقی فرض کو بھول کر اک ممبر کی تحاویز کو اپوزیشن کا نیب بل بنا کر سیاسی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کر سکتی ہے جب کہ اپوزیشن نے باور بھی کرایا تھا کہ یہ مسودہ یا بل نہیں بس اک ممبر کی تجاویز ہیں۔ اور سب سے بڑی حیرانی کی بات یہ ہے کہ خارجہ و قانون جیسے اہم کابینہ ممبرز پہ مشتمل کمیٹی عوامی سطح پہ جھوٹ بھی گھڑ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments