لسانیات: نسلی تعصب کی وجہ


قوموں کی ترقی کا انحصار باہمی اتحاد ویگانگت پر ہے۔ جب عوام میں اتحاد ہو تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔ باہمی تعاون سے ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ مگر تعصب اور نا اتفاقی کی وجہ سے زوال شروع ہوتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ قومی اتحاد کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ لسانی بنیادوں پر تقسیم معاشرہ ہے۔ برصغیر میں مسلمان اور ہندو 712 سے اکٹھے رہ رہے تھے۔ مذہبی اختلافات کے باوجود ہزارہا سال اکٹھے گزر گئے مگر 1867 کا اردو ہندی تنازع دو قومی نظریے کی بنیاد بنا اور یوں متحدہ برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

یہ معاملہ یہاں تک ختم نہیں ہوا بلکہ 1971 میں اس نے ایک رخ بدلا اور ایک بار پھر مسلمان ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اختلافات کی وجہ دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ زبان کا ایک اہم مسئلہ تھا۔ چنانچہ اس مسئلے کو ختم کرنے کے لئے اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا گیا مگر یہ اختلافات کم نہ ہو سکے اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کے کمزور ہونے کی وجہ لسانیات ہی تھی۔

سلطنت عثمانیہ میں اکثریت ترکی، عربی اور انگریزی زبان بولنے والوں کی تھی اور باہمی اتحاد کی وجہ سے خلافت کا سورج جگمگاتا رہا اور تقریباً چھ سو سال تک خلافت مکمل آب و تاب سے چلتی رہی مگر جب ترکوں نے عربوں اور انگریزی ریاستوں کے ساتھ ناروا سلوک شروع کیا اور ان کو اعلیٰ عہدے نہ دیے تو اختلافات شروع ہوئے اور یوں خلافت عثمانیہ 37 ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ مگر صد افسوس ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور اس وجہ سے ہم آج بھی لسانی اختلافات کا شکار ہیں۔

کراچی کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ کراچی میں بدامنی کی وجہ لسانیات ہے اور مہاجر قومی موومنٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اسی اختلاف کی وجہ سے روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب چکا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبے لسانیات کی بنیاد پر تقسیم ہیں اور نفاق کا شکار ہیں۔ ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب مرکز مضبوط ہو لیکن اس وقت مرکز میں وفاق بہت کمزور نظر آتا ہے اور اس کی وجہ صوبوں کی آپس میں نا اتفاقی ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں اس وقت لسانی تعصب عروج پر ہے۔

بلوچستان یا پختون خواہ میں کسی نہتے آدمی کو اس لیے مار دیا جاتا ہے کہ وہ پنجابی ہے اور پنجاب میں بھی بلوچوں اور پختونوں کے خلاف نفرت موجود ہے۔ سندھ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سندھ میں پختون اور بلوچ سے نفرت کا مادہ نظر آتا ہے۔ صوبائی سطح پر بہت سی سیاسی جماعتوں کی بنیاد ہی لسانیات پر ہے۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ پنجاب میں پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبے کی تشکیل کا مطالبہ بھی لسانی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے صوبے کا مطالبہ عوامی مسائل اور جغرافیائی بنیاد پر کیا جاتا مگر اسے لسانی رنگ دیا گیا ہے اور صوبہ سرائیکستان کا مطالبہ کیا گیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ انتظامی امور کی بہتر کارکردگی کے لئے نئے صوبے بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر لسانی بنیادوں پر صوبے کا مطالبہ کرنا غلط ہے کیونکہ اس کی وجہ سے قومی اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور لسانی تعصب کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

جس طرح دہشت گردی اور انتہاپسندی کی حوصلہ شکنی کے لئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا ہے اسی طرح لسانی تعصب کی حوصلہ کے لئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے ۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اندرونی خلفشار کو ختم کیا جا سکے اور قومی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں اس لسانی تعصب سے چھٹکارہ پانا ہو گا اور سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھان کے بجائے ایک پاکستانی قوم کے طور پر متعارف کروانا ہوگا۔ اس طرح ہم باہمی تعاون اور اتحاد سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments