تبدیلی آپ کی جھولی میں


تبدیلی کے موضوع پر لکھتے ہوئے تھوڑا ’گھبرا۔‘ رہا ہوں۔ کچھ عرصہ سے یہ تصور خوش نما بدنام سا ہو گیا ہے۔ حلقۂ یاراں میں اس کا استعمال شجر ممنوعہ ہوتا جا رہا ہے۔ چند دن پہلے جب غیر ارادی طور پر یہ لفظ ادا ہوا تو ایک رفیق راہ کہنے لگا کہ۔ ”یہ دھوکہ بھی کھا رکھا ہے“ ۔ کچھ اہل حکمت یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بندہ بشر گھبرائے بنا نہیں رہ سکتا۔ آخر دل ہی تو ہے، کوئی سنگ و خشت تھوڑا ہے۔

یاران من کہتے ہیں کہ وطن عزیز اس دنیا پر ایک عجوبہ ہے۔ یہاں ہر دم معجزے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایک علمی و فکری معجزہ حال ہی میں رونما ہو ہے جس پر دنیا بھر کے دانش ور اور اہل علم انگشت بدنداں ہیں۔ ایک ایسا معجزہ جس نے پوری تاریخ انسانیت کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا اور اسے ایک نئے موڑ پر لا کے کھڑا کیا۔ یہ نیا چمتکا ر تبدیلی متعلق ہوا ہے جس نے تبدیلی کے مفہوم، نظریہ اور طریقۂ کار ہی بدل دیاہے۔ قدیم و جدید دنیا کے تبدیلی کے تمام تصورات یہاں آ کر دم توڑ گئے ہیں۔

اس جہاں میں صرف تغیر کو ثبات ہے۔ ا زل سے ابد تک دنیا میں تبدیلی کی گنجائش رہے گی جس کی شکل و صورت ہر معاشرے کے بنیادی ڈھانچے اور مسائل پر منحصر ہے۔ لیکن یہ معاشرتی تبدیلی کیا ہے؟ اس کے ذرائع کون سے ہوں گے؟ تبدیلی کا منبع و مبدا کون لوگ ہوں گے؟ اس بات پر آج تک کے دانشور اور فلسفیوں کے نظریات ملتے جلتے ہیں۔

عمومی طور پر معاشرتی تبدیلی سے مراد معاشرتی تعلقات اور معاشرتی ڈھانچے میں تغیر و تبدل ہے۔ ایسا تغیر جو معاشرتی تعلقات کی نوعیت بدل دے۔ مثال کے طور پر دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے ان کے پیچھے بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ معاشرتی تفریق کی ہر شکل کوختم کیا جائے اور تمام انسانوں کو زندگی گزارنے کا باعزت موقع میسر آسکے۔ مساوات، معاشری انصاف، بھائی چارہ، زندگی میں آگے بڑھنے کے برابرمواقع، معاشرے کے تمام افراد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل، آزادی اظہار، حکمرانوں کی جوابدہی، کمزوروں کی دلجوعی، معاملات میں شفافیت وغیرہ، یہ وہ نعرے تھے، ہیں، اور رہیں گے جن کی بنیاد پرمعاشری تبدیلی لائی جاتی رہی ہے یا اس کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

ارسطو نے کہا تھا کہ تبدیلی یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی صلاحتیں استعمال کرنے کا بہترین موقع میسر آئے ور وہ معاشرے کا کارآمد فرد بن کے زندگی گزارے۔ حضرت محمدﷺ نے جب آخری خطبہ دیا توہر طرح کی انسانی تمیز کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور آپ کے دور میں دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے غلاموں کو آزاد کرنے کا منظم اور سائنسی انداز میں آغاز ہوا۔ کالے گورے، امیر غریب، آقاؤ غلام کی تفریق کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ دنیا کے بہت سے ملک آج بھی نسلی امتیاز جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی طرح فرانس میں لوگوں نے تبدیلی کے لیے آزادی، مساوات اور بھائی چارے کا نعرہ لگایا۔

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ تبدیلی کون لاتا ہے۔ مقبول نظریہ یہ ہے کہ تبدیلی ہمیشہ معاشرے کا نچلا طبقہ لاتا ہے۔ اس میں مزدور، کسان، ہاری، کمزور، مظلوم، محنت کش وغیر ہ معاشرے کاکمزور طبقہ سب شامل ہیں۔ حضرت محمدﷺ کے ساتھ بھی اس وقت کا کمزور اور غلام طبقہ ساتھ تھا۔ ماؤزے تنگ نے اپنے ملک کے کسانوں کے ساتھ مل کر تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ روس میں بھی کم و بیش ایسا ہوا۔ روسی انقلاب کوتو کسانوں کا انقلاب کہا جاتا ہے۔ نیلسن منڈیلا خود بھی سیاہ فام تھا اور جنوبی افریقہ کے کمزور اور سیاہ فام غلاموں کو ساتھ ملا کر تبدیلی لایا۔ ایران میں بھی عوام ا لناس نے تبدیلی کی راہ ہموار کی۔ ایرانی انقلاب کے روح رواں ڈاکٹر علی شریعتی کے بقول قرآن کا موضوع بھی۔ ”الناس“ ہے۔ لہٰذا تبدیلی بھی صرف عوام الناس کے ذریعے ممکن ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ تبدیلی لانے والوں کا لیڈر کون ہوتا ہے؟ عموی طور پر انھی لوگوں میں سے ہوتا ہے جو اس وقت جواس معاشرتی ترتیب سے تنگ ہوتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اور ایک بکریاں چرانے والی عورت کے ہاں پرورش پائی۔ عام لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھا اور انھی کی آواز بن کے سامنے آئے۔ تصور کریں کہ اس وقت کے عرب معاشرے پر کتنی گہری چوٹ لگی ہوگی جب ٓپﷺ نے فرمایا کہ نجش کا کالا حبشی اور قریش کے سردار کا مقام برابر ہے۔ اسی طرح تمام انبیاء عام لوگوں کے گھر میں پیدا ہوئے اور عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کی تا کہ ان کے مسائل کو ان کی آنکھ سے دیکھا۔ جدید انقلابات کے بانی بھی عام لوگوں میں سے تھے اور معاشرے کے کمزور طبقے کی نمائندگی کرتے تھے۔

لیکن ہمارے ہاں ایک نئے سوچ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ایک ایسا ”علمی و فکری“ انقلاب کہ جس کی تاریخ عالم میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کارل مارکس نے کہا تھا کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے نظریات دراصل اس معاشرے کے حکمران طبقے کے نظریات ہوتے ہیں۔ انھی نظریات کی آڑ لے کر وہ اپنے اقتدار کو جواز بناتے ہیں اور اس کو مسلسل طوالت دیتے رہتے ہیں۔

ہمارے ہاں اب تبدیلی کے ”اشرافیائی نظریے“ نے جنم لیا ہے۔ اس نظریے کے خالق کہتے ہیں کہ اب تبدیلی کے لئے عوام الناس اور ان کے راہنماؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول عوامی تحریک معاشرے کی بقاء کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کو اپنے روز مرہ کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے اور تبدیلی والا ”نیک“ کام ان کے سپرد کر دیا جائے۔ اس اقدام سے ایک تو تبدیلی لانے میں آسانی ہوگی او رعوام کو اقتدار کے دروازے سے دور رکھنا بھی آسان ہو جائے گا۔

دنیا کی تین ہزارسالہ تاریخ کے برعکس اب ہماری عوام کے لیے تبدیلی اشرافیہ لائے گی۔ اپنے تمام ”مسائل“ حل کر لینے کے بعد اب ان کے دل میں لوگوں کے لیے درد اٹھ رہا ہے۔ ملک کے تمام ادارے اور بچے کھچے وسائل اپنے ہاتھ میں لے کر غریبوں، کسانوں، ہاریوں محنت کشوں اور مجبوروں پر نچھاور کریں گے۔ تبدیلی اب نچلے طبقے سے آنے کی بجائے ”اوپر“ سے آئے گی۔ اب گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھلے دن آنے والے ہیں۔ یہ ”اشرافیائی تبدیلی“ پکے ہوئے آم کی طرح عوام کی جھولی میں گرنے والی ہے۔ پھر ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ ہور کوئی ساڈے لائق؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments