مجاہد بریلوی صاحب کی کتاب ”فسانہ رقم کریں“


معروف کالم نگار مجاہد بریلوی صاحب کی دوسری کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا، جو ”فسانہ رقم کریں“ کے عنوان سے لکھی گئی ہے اور باتوں، یادوں، ملاقاتوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اول حصہ سیاستدانوں کے نام، دو م صحافی و شاعر حضرات کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ سیاستدانوں کی فہرست میں شامل بینظیر بھٹو، پروفیسرغفوراحمد اور معراج محمد خان جیسی شخصیات کا تذکرہ تو اکثر مل جاتا ہے مگر اس کتاب میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نواب خیر بخش مری، شیر محمد مری اور سندھ کی فوزیہ وہاب جیسے لوگوں کا ذکر بھی موجود ہے جو باقی کتابوں میں نسبتاً کم پایا جاتا ہے۔

باعث تحریر آنکہ سیاسی شخصیات کو چھوڑ کر کتاب کے دوسرے حصے کاہلکا پھلکا تعارف کروانا ہے۔

سب سے پہلے جس شاعر کا ذکر ہے وہ ہیں حبیب جالب صاحب۔ ساری زندگی مظلوموں، محکوموں اور محنت کشوں کی ترجمانی کرنے والے حبیب جالب کے بارے میں بریلوی صاحب لکھتے ہیں : ایوب خان کی حکومت ختم ہوئی مگر یہ جاتے جاتے قوم پر جنرل یحییٰ خان کو مسلط کر گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی کے کٹر ک ہال میں نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کا جلسہ تھا۔ جالب صاحب مائک پر آئے تو خیال یہی تھا کہ وہ ایوب کے خلاف کوئی نظم سنائیں گے مگر انہوں نے اپنی گرج دار آواز میں کہا ”حضرات ایوب خان چلا گیا، اب اس کے خلاف کچھ پڑھنا میں بزدلی سمجھتا ہوں۔ آج میں نئے حکمران جنرل یحییٰ کے خلاف اپنے تازہ اشعار سنا ؤں گا“ ۔ پھر جالب صاحب نے وہ غزل سنائی جس نے بعد میں بڑی شہرت پائی:

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
چھوڑ نا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا

جالب صاحب نیشنل عوامی پارٹی میں رہے، اسی پاداش میں حیدرآباد سازش میں گرفتار ہوئے۔ جس دن انہیں سنت نگر کے مکان سے گرفتار کیا گیا اس دن ان کے بڑے بیٹے طاہر عباس کا سوئم تھا۔ بیوی اور بچیوں کو سوگوار چھوڑ کر جب وہ تھانے پہنچے تو ڈی۔ ایس۔ پی نے کہا ”آپ کے دیگر کامریڈوں سے بات ہو گئی ہے انہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے۔ اگر آپ بھی ولی خان کے خلاف بیان لکھ دیں تو ہم آپ کو بھی چھوڑ دیں گے ورنہ عمر بھر حیدرآباد جیل میں سڑتے رہیں گے۔ یہ ایسا کیس ہے جس میں آپ شاید ہی زندہ بچیں“ ۔ جالب نے ڈی۔ ایس۔ پی سے کہا کہ ”جیل میں تو میں شاید چند سال جی بھی لوں مگر معافی نامہ لکھ کر میں چند دن بھی زندہ نہیں رہ سکوں گا، بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی کارروائی کریں“ ۔ ڈی۔ ایس۔ پی نے غصے سے حوالدار سے کہا ”اس کو ہتھکڑی ڈالو۔ ۔ ۔“

مشرقی پاکستان میں فوج کشی شروع ہوئی تو جالب نے مال روڈ (لاہور) پر کھڑے ہوکر تاریخی قطعہ پڑھا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
بعد ازاں رومانیت سے انقلابیت کی طرف سفر کرنے والے احمد فراز کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔

لندن جیسا شہر چھوڑ کر پاکستان میں سندھی، بلوچی قوم پرستوں کے ساتھ آگے تک کا سفر کرنے والی فہمیدہ ریاض کا ذکر بھی خوبصورت الفاظ میں ہو ا ہے۔ بریلوی صاحب لکھتے ہیں فہمیدہ کے پاس اتنے پیسے تو تھے نہیں کہ یورپ کی جلاوطنی اختیار کرتیں۔ ایک شام خاموشی سے وہاں پلٹ گئیں جہاں سے ان کے آبا نے ہجرت کی تھی۔ بعد میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے نام ایک خط میں ایک نظم ملی اور ساتھ یہ اپیل بھی کی گئی تھی کہ اگر ضیاء کا مارشل لاء واقعی رخصت ہوگیا ہے تو مجھے وطن لوٹنے دیا جائے۔ جونیجو حکومت نے اپیل منظور کی، فہمیدہ نے دہلی میں جلا وطنی بڑی سبھاؤ سے کاٹی اور یہ کہہ کر واپس آ گئیں کہ:

تو سدا سہاگن ہو ناری
مجھے اپنی توڑ نبھانا ہے
ری دلی چھوڑ کر چرن تر ے
مجھے اپنی موڑ، مڑ جانا ہے

خالد علیگ کا بھی ذکر ہے، جنہوں نے لاہور کے شاہی قلعے میں مشہور کیمونسٹ رہنما حسن ناصر کو شہید کیے جانے پر نظم لکھی۔ ایک شعر کچھ یوں ہے،

شب تیرہ نومبر کی شب مرگ وفا ہے
دم مقتل زنداں میں کوئی توڑ چکا ہے

صحافیوں کے تذکرے میں سب سے پہلے پاکستان میں ما ؤزے تنگ کی طرح سرخ پرچم اٹھانے والوں کے سرخیل منہاج محمد خان برنا کا ذکر ملتا ہے، پھر روس نواز حسن عابدی کا نام آتا ہے، جنہوں نے اس زمانے میں صحافت کی جب صحافت اخباری دفتروں کی بجائے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر احتجاج کرتی نظر آتی تھی۔ حسن عابدی اکیس بائیس سال کی عمر میں لاہور کے شاہی قلعے سے ہو آئے تھے اور یہ مشہور زمانہ شعر بھی کہا تھا:

کچھ عجب بو ئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے

مصنف محمود شام صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں، جنرل ضیاء نے پہلا حملہ پی پی کے حامی اخبارات ”مساوات“ اور ”معیار“ پر کیا۔ مارشل لاء لگنے کے صرف تین ہفتے بعد ”معیار“ پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہو گیا، خود شام جی گرفتار ہوگئے۔ ”معیار“ بند ہوگیا، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نام سے نکلا تو ایک دن سارا ادارتی عملہ ہی جیل میں تھا۔ شام صاحب جیل سے باہر آئے تو صورتحال یہ تھی کہ گھر گروی تھا اور گاڑی بک چکی تھی۔ جن سے کچھ ملنے کی امید تھی وہ بھی جیلوں میں تھے۔

متاع لوح و قلم کے لئے مسلسل پانچ دہائیوں تک مصروف جہاد رہنے والے ضمیر نیازی کے بارے میں بریلوی صاحب لکھتے ہیں:

ضمیر نیازی کی کتابوں کو شامل نصاب کرنا ہوگا اور اخبارات کے دفتر اور چینل میں اس صحافی کا داخلہ تک ممنوع کرنا ہو گا جس نے ضمیر نیازی کی کتابوں کا ورق ورق نہ پڑھا ہو۔ ضمیر نیازی پاکستانی صحافت کے ضمیر تھے مگر کیا میں اور آپ اس ضمیر کو ان کے جانے کے بعد زندہ رکھ سکے ہیں؟ ہاں کہتے ہوئے میری آوازتھرا رہی ہے۔

اشرف شاد صاحب کا بھی تفصیلی ذکر موجود ہے، جنہوں نے پہلا ناول ”بے وطن“ دوسرا ”وزیر اعظم“ اور تیسرا ”صدر محترم“ کے نام سے لکھا۔ بریلوی صاحب لکھتے ہیں رواں سال کے آغاز میں کراچی آئے تو خبر دی کہ ”جج صاحب“ آخری مرحلے میں ہے۔ آزاد عدلیہ کے نام پر برادر ججوں اور باروں نے ادھر چند برسوں میں جو ستم ڈھائے ہیں اس پر ایک بھرپور ناول اشرف ہی لکھ سکتے ہیں۔ ایک مقامی معتبر سے خبر ملی کہ ”جج صاحب“ کے بعد آپ ایک اور ناول بھی لانا چاہتے ہیں۔

مجھ پر تو نام لینے سے پہلے ہی کپکپی طاری ہو رہی ہے کہ بھائی اشرف ”وزیر اعظم“ ۔ ۔ ۔ ”صدر محترم“ اور ”جج صاحب“ بھی سر آنکھوں پر۔ ۔ ۔ اس کے آگے ”سایہ خدائے ذوالجلال“ ۔ ۔ ۔ ”جنرل صاحب“ کو ناول کا موضوع نہ بنایئے گا کہ جن کے بوٹوں کے فیتے باندھنے کے لئے ہمارے وزراء اعظم اور صدور محترم دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور جس پر ”مہر ثبت“ کرنے کے لئے ”صاحب انصاف ودستار“ دوزانو ہو ئے جاتے ہیں۔

کتاب میں اے بی ایس، انور احسن صدیقی، مشتاق گزدر، بشیر مرزا، ا شفاق حسین، سعید امرت، ڈاکٹر عفان سلجوق، صائمہ بتول اور پروگریسو فرنٹ کی نجمہ بابر جیسی شخصیات پر بھی ایک، ایک مضمون موجودہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments