حکومتی نظام



اس مہینے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے لاہور کا دورہ کیا، قائداعظم اکنامک زون کا افتتاح کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے اس موقعہ پر فرمایا کہ سرخ فیتہ ترقی میں رکاوٹ ہے، ایسا نظام بن چکا ہے کہ کسی کو آسانی سے کام نہیں کرنے دیتا۔ اس نظام کو تبدیل کرنے ہی تو آپ آئے تھے یا مبینہ طور پر لائے گئے تھے جناب۔

اس پر اقبال کا شعر یاد آ گیا
کوئی قابل تو ہو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

حکومتی نظام کا سب سے اہم رکن بیوروکریسی ہے، اینگلو سیکسن قانون جس کو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے تمام نوآبادیاتی ممالک نے اپنایا ہوا ہے، وہاں یہ نظام کلرک، سیکشن افسر ، سیکرٹری اور وزیر جیسے بنیادی ارکان پر مشتمل ہے۔ سیکریٹریز کے خاندان کا سربراہ چیف سیکرٹری ہوتا ہے، جو حکومتی سربراہ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ ان بنیادی ارکان میں سے کوئی تین بھی کام کر رہے ہوں تو نظام اپنی کارکردگی دکھاتا رہتا ہے۔ نئے زمانے میں اس نظام کے احتساب کے لئے مصنوعی ذہانت اور معلومات تک رسائی کے ذریعے اس نظام کے کارکردگی کے اشاریہ ماپے جاتے ہیں۔

شہباز شریف دور جسے بہت سے لوگ شہباز سپیڈ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس دور میں ہم نے دیکھا ہے، کہ نظام حکومت کو من پسند افسران کے ذریعے چلانے کا جو تجربہ کیا گیا اور مختلف کمپنیاں بنائی گئیں۔ آج انھی کمپنیوں میں بے ضابطگیوں کے مختلف مقدمات میں شہباز شریف اور ان کے برخوردار مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہی بیوروکریٹ ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن رہے ہیں، یہ نظام بھی ڈلیوری میں ناکام رہا سوائے اس کے کہ شہباز صاحب نے تعمیرات کے چند ایک منصوبے مقررہ مدت میں مکمل کیے ، حالانکہ شہباز شریف نہایت تجربہ کار وزیراعلی تھے، وہ بھی ان بابو لوگوں کے ہاتھ میں اڑتی پتگ کی طرح لہلہاتے رہے، مگر نظام میں بنیادی اصلاحات و تبدیلی نا لا سکے۔

موجودہ وزیراعلی تو ویسے ہی زیر تعلیم و تربیت ہیں جس کا برملا اظہار وہ پریس کانفرنس میں کر چکے ہیں، کہ میں ابھی زیر تربیت ہوں۔ لیکن تبادلے کے عمل میں وہ نہایت تجربہ کار ہو گئے ہیں۔ آپ ان کے تجربے کا عالم ملاحظہ فرمائیں کہ پنجاب میں اب تک 5 آئی جی، 4 چیف سیکریٹری، 6 سیکریٹری تعلیم، 9 سیکریٹری ہائر ایجوکیشن، 5 سیکریٹری خوراک، اور 11 سیکریٹری اریگیشن تبدیل کیے جا چکے ہیں حالانکہ اگر ٹیم کی بجائے ٹیم کا کپتان تبدیل کر دیا جاتا تو کارکردگی بہتر ہو جاتی۔ ان تمام تجربات سے ایک بات واضح ہے کہ حکومتی مشین چلانے کے لئے جن آپریٹرز کی ضرورت تھی، آپ انھیں دو سال تک نہیں دریافت کر سکے۔ جہاں آپ کو سمجھ نہیں آتی وہاں ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی لگا کر خالی جگہ پر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

وفاق کی بات کریں تو الامان الحفیظ ہے، سکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے 3 چئیرمین، بورڈ آف انویسٹمنٹ کے 4، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے 4، 3 سیکریٹری خزانہ، 4 سیکریٹری داخلہ، اور 4 سیکریٹری صحت تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ ان سب تبادلوں میں سب سے اہم معیشت والے ہیں، جن کی حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔ یہ تمام معاملات اس بات کے عکاس ہیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا۔ خواب تھے جو دکھائے گئے تھے اور اب ایک کر کے توڑے جا رہے ہیں۔ وفاق میں بھی خالی جگی پر کرنے کے لئے عسکری ذرائع کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ وزرا، مشیران اور بیوروکریسی میں کوئی ربط قائم نہیں ہو رہا اور تقریباً 24 مہینے گزرنے کے بعد بھی ڈھاک کے وہی تین پات ہیں، دوسرے الفاظ میں کہانی جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پر موجود ہے۔

ہمارے عملی استاد ایک بہت خوبصورت بات کرتے تھے کہ اچھی ٹیم کے ساتھ تو ہر کوئی کارکردگی دکھا دیتا ہے، مزہ تو تب آتا ہے جب ٹیم کمزور ہو اور اچھا مینیجر یا کپتان اپنے کھلاڑیوں کی خوبیوں اور خامیوں کو جانتے ہوئے اچھی کارکردگی دکھائے۔ اس حکومت کا بنیادی مسئلہ ربط، کارکردگی، ٹیم اور فیصلہ سازی ہے، جس میں یہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔

ریاست جمود کا شکار لگ رہی ہے، اور خان صاحب کی ضد اور انا اس جمود کو طول دے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی ادارے کب تک صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ طرف تماشا یہ ہے کہ حزب اختلاف میں سے کوئی بھی لاڈلا بننے کو تیار نہیں۔ حالانکہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے حزب اختلاف کے رفقا کو بہت منانے کی کوشش کی ہے۔ مگر وہ سنگیت ہے ناں دل ہے کہ مانتا نہیں، ورنہ بساط کب کی لپیٹی جا چکی ہوتی کیونکہ حزب اختلاف اب صاف شفاف انتخابات کے علاوہ کسی اور چیز پر نہیں مانے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments