یورو 5 کے معیار کا ایندھن ہے کیا؟ اور تیل کمپنیوں کو صاف تیل بیچنے سے مسئلہ کیا ہے؟


پیٹرول

پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں کام کرنے والی تیل کمپنیوں کو یکم ستمبر 2020 سے ایسا پٹرول اور یکم جنوری 2021 سے ایسا ڈیزل درآمد کرنے کا کہا ہے جو یورو 5 کے معیار پر پورا اترتا ہو۔

پاکستان میں تیل کے شعبے سے وابستہ کمپنیاں جنہیں آئل مارکیٹنگ کپمنیز کہا جاتا ہے وہ حکومت کے اس فیصلے کی پابندی کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یاد رہے ان کمپنیوں میں پاکستان سٹیٹ آئل شامل نہیں ہے جو حکومتی نگرانی میں تیل کے شعبے میں کام کرنے والا ادارہ ہے۔

فیصلے پر عمل کرنے سے کترانے والی ان آئل کمپنیوں کے مطابق یورو 5 معیار کا پٹرول اور ڈیزل درآمد کرنے سے ملک میں ان دونوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور ملک میں چلنے والی گاڑیاں خاص کر پرانی کاریں، ٹرک اور موٹر سائیکلیں یورو 5 پٹرول اور ڈیزل پر چلنے کے قابل نہیں ہیں۔

دوسری جانب توانائی کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق یورو 5 پٹرول اور ڈیزل ماحول کے لیے بہت بہترین ایندھن ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ کمی آئی گی تو دوسری جانب انھوں نے یورو5 پٹرول اور ڈیزل کی درآمد سے ان کی قمیتوں میں نمایاں اضافے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’سیاہ سونا‘ دنیا کی سب سے قیمتی شے کیسے بنا؟

الیکٹرک رکشہ: ’قیمت زیادہ ہو گی مگر سواری سستی‘

یورو5 پٹرول اور ڈیزل کیا ہے؟

یورو5 کی خصوصیت کا حامل پٹرول اور ڈیزل عمومی طور پر تیل کی ایسی مصنوعات ہیں جو ماحول دوست ہوتی ہیں اور اسے آسان زبان میں صاف تیل کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں توانائی کے امور کے ماہر اور سابقہ ممبر توانائی پلاننگ کمیشن آف پاکستان سید اختر علی نے اس سلسلے میں بتایا کہ یورو 5پٹرول اور ڈیزل میں ماحول کے لیے خطرناک مادے سلفر کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جس کے استعمال سے ماحول کو فضائی آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت یورو 2 ڈیزل اور پٹرول درآمد اور مقامی طور پر پیدا کیا جارہا ہے جن میں سلفر کی مقدار پانچ سو پی پی ایم ہے۔ حکومت کی جانب سے جس یورو 5 کے خصوصیت کے حامل پٹرول اور ڈیزل کے لیے تیل کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے اس میں سلفر کی مقدار دس پی پی ایم ہے جو نہ ہونے کے برابرہے۔

اختر علی نے بتایا کہ یورپ میں یورو 5 ڈیزل اور پٹرول ہی دستیاب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سری لنکا اور مشرق بعید کے ملکوں میں بھی یورو 5 پٹرول اور ڈیزل ملتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پٹرول اور ڈیزل میں سلفر کی زیادہ مقدار سے نہ صرف انسانی جان کو خطرات لاحق ہیں بلکہ یہ زراعت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔

ان کے مطابق فضا میں گاڑیوں کے دھوئیں میں سلفر کے اخراج سے انسانوں کے جہاں پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں تو دوسری جانب یہ زمین کے زرخیزی کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔

پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد میر نے اس سلسلے میں کہا کہ پہلے پاکستان میں 5000 پی پی ایم کا حامل ڈیزل اور پٹرول درآمد کیا جاتا تھا جس میں سلفر کی بہت زیادہ مقدار ہوتی تھی۔ پھر حکومت نے یورو2 معیار کا ڈیزل اور پٹرول درآمد کرنے کی اجازت دی اور مقامی ریفائنریوں کو بھی اس کی پیداوار کا کہا جس میں سلفر کی مقدار 500 پی پی ایم تھی۔ تیل کمپنیوں نے یورو2 ڈیزل اور پٹرول درآمد کرنا شروع کیا۔ تاہم پاکستان میں کام کرنے والی پانچ میں سے تین ریفائنریاں یورو2 معیار کا ڈیزل اور پٹرول صاف کرنے کے قابل ہوئیں اور باقی دو یہ کام کرنے سے قاصر رہیں اور حکومت کو جرمانہ ادا کر رہی ہیں۔

زاہد میر نے کہا اب حکومت نے یورو 5معیار کے ڈیزل اور پٹرول کی درآمد کے لیے تیل کمپنیوں کو پابند کیا ہے جو ماحول دوست ایندھن ہے۔

تیل کمپنیاں کی یورو 5 کے استعمال کیوں مخالف ہیں؟

وفاقی حکومت کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ جنرل آف آئل کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق تیل کمپنیاں ایسا ڈیزل اور پٹرول درآمد اور بیچنے کی پابند ہوں گی جس میں سلفر کی مقدار دس پی پی ایم سے زیادہ نہ ہو۔ پٹرول کے لیے اس پابندی کا اطلاق اس سال یکم ستمبر سے ہوگا جب کہ ڈیزل کے لیے اگلے سال یکم جنوری سے یہ حکم نافذ ہوگا۔

اس نوٹیفکیشن کے خلاف تیل کمپنیوں کی جانب سے مخالفت دیکھنے میں آرہی ہے اور ان کے نزدیک یہ فی الحال قابل عمل نہیں۔ تیل کے شعبے سے وابستہ افراد کے نزدیک یورو 5 معیار کا ڈیزل اور تیل اس وقت درآمد، بیچنا اور استعمال کرنا قابل عمل نہیں ہے۔ اس شبعے کے مطابق اس اقدام سے ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب ملک میں گاڑیاں خصوصاً پرانی کاریاں، ٹرک اور موٹو سائیکلیں اس قابل نہیں کہ وہ اس ایندھن پر چل سکیں۔ ان کے بقول مقامی ریفائنریوں میں بھی یورو 5 کی معیار کے تیل کے صاف کرنے کی صلاحیت نہیں جو ملک میں ان مصنوعات کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔

تیل، پاکستان، پٹرول، قیمتیں

یورو 5 سے کیا واقعی تیل کی قیمت بڑھے گی

تیل کے خرید و فروخت کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یورو5پٹرول اور ڈیزل کی درآمد سے ان مصنوعات کی قیمتوں میں سات سے آٹھ فی لیٹر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی درآمد کے لیے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سے اضافی ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے۔

پاکستان میں کام کرنے والی تیل کپنی حیسکول کے سابق سربراہ ممتاز حسن خان نے کہا یورو 5 معیار کے ڈیزل اور پٹرول کی درآمد سے ان کی قیمتوں سے ساٹ سے آٹھ روپے کا اضافہ ہو گا۔ انھوں نے کہا اس کے ساتھ اس کی درآمد کے لیے اضافی ڈالر کی بھی ضرورت ہو گی۔

دوسری جانب زاہد میر کے مطابق یہ بنیادی طور پر ایک کمرشل ایشو ہے ۔ یورو 5 کی درآمدی قیمت حکومتی کمپنی کی جانب سے ملک میں درآمد کیے جانے والے تیل یر قیمت پر فکس کی جائے گی۔ میر کے مطابق اصل مسئلہ ڈیزل کی درآمد کا ہے۔ پی ایس او تو مشرق وسطیٰ سے یہ ڈیزل درآمد کر لے گی لیکن دوسری آئل کمپنیوں کو خطے کی ریفائنریوں سے یہ ڈیزل نہیں مل پائے گا جس کی وجہ سے انہیں یورپ کی ریفائنریوں سے اسے درآمد کرنا پڑے گا۔

میر کے مطابق یورو 5 کی درآمد سے سات سے آٹھ روپے تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اضافہ دو یا تین روپے ہو سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔

سید اختر علی نے بھی سات سے آٹھ روپے کے اضافے کو تیل کمپنیوں کی مبالغہ آرائی قرار دیا اور کہا یہ اضافہ بمشکل دو روپے تک ہو سکتا ہے۔

ملک کے زیادہ زرمبادلہ ذخائر خرچ ہونے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ قیمت اس نقصان سے بہت کم ہے جو سالانہ پاکستانیوں کو پٹرول اور ڈیزل میں سلفر کی زیادہ مقدار کی وجہ سے صحت پڑ خرچ کرنی پڑتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ماحول کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

آئل ٹینکرز

’پرانی گاڑیاں یورو 5 پر چل تو سکتی ہیں لیکن اس کا ماحول کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ نئے انجن میں وہ ٹیکنالوجی ہوتی ہے جو کم سے کم گیسوں کے اخراج کو ممکن بناتی ہے‘

یورو 5 کیا پرانی گاڑیوں کے لیے سود مند نہیں ہے؟

تیل کمپنیوں کی جانب سے یورو 5 کو ملک میں چلنے والی پرانی کاروں، ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے سود مند قرار نہیں دیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت سے کہا گیا کہ مرحلہ وار انداز یورو 5 پٹرول اور ڈیزل کو ملک میں متعارف کرایا جائے۔

اس سلسلے میں ممتاز حسن نے کہا کہ ماحول کے لیے یورو 5 بہت بہتر ہے تاہم ہمارے زمینی حقائق یورپ سے مختلف ہیں جن کی مثال دی جاتی ہے۔ یورو 5 کے استعمال کے لیے حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق پاکستان میں چلنے والی پرانی گاڑیوں کے لیے یہ ایندھن کارمند نہیں ہے۔

شیل پاکستان کے ایکسٹرنل ریلیشنز کے کنٹری ہیڈ حبیب حیدر نے بتایا کہ پرانی گاڑیاں یورو 5 پر چل تو سکتی ہیں لیکن اس کا ماحول کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس میں گیسوں کا اخراج تو ویسے ہی ہوتا رہے گا۔ ان کے مطابق نئے انجن میں وہ ٹیکنالوجی ہوتی ہے جو کم سے کم گیسوں کے اخراج کو ممکن بناتی ہے۔

زاہد میر نے اس تاثر کی نفی کی کہ پرانی گاڑیاں اس فیول پر نہیں چل سکتی ہے۔ ان جکے بقول ’سوائے کچھ بہت پرانی موٹر سائیکلوں کے یورو پاکستان میں چلنے والی تمام گاڑیوں کے لیے کارآمد ہے اور اس میں سلفر کی کم مقدار اسے ماحول دوست ایندھن بناتی ہے۔‘

سید اختر علی کے مطابق یورو 5 پر پرانی گاڑیوں کے نہ چلنے میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور ان کے مطابق ویتنام، ملائشیا، سری لنکا اور ہندوستان اس پر تیزی سے شفٹ ہو رہے ہیں اور ہمیں بھی اس جانب تیزی سے بڑھنا ہوگا تاکہ ہم اپنے ماحول کو فضائی آلودگی سے محفوظ رکھ سکیں۔

تیل صاف کرنے کی مقامی ریفائنریاں

پاکستان میں استعمال ہونے والے ڈیزل کا ساٹھ فیصد حصہ مقامی ریفائنریاں صاف کرتی ہیں تو باقی چالیس فیصد درآمد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پٹرول کا تیس سے چالیس فیصد مقامی ریفائنریاں صاف کرتی ہیں تو باقی درآمد کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں جب یورو 2 معیار کا ڈیزل اور پٹرول استعمال کرنے کا حکم آیا تو تین ریفائنریاں ہی اسے صاف کرنے کے قابل ہو سکیں جب کہ باقی دو کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے جو ابھی تک سلفر کی زیادہ مقدار والا ڈیزل اور پٹرول صاف کر رہی ہیں۔

پاکستان ریفائنری کے زاہد میر کے مطابق یورو 5 معیار کا ڈیزل اور پٹرول صاف کرنے کے لیے درکار ٹیکنالوجی اور مشینری کے لیے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے جو حکومت کی مالی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ریفائنریاں کا مجموعی کاروبار نقصان میں چل رہا ہے۔ حکومت کو ماحول دوست ایندھن تیار کرانے کے لیے ریفائنریوں کی مدد کرنی پڑے گی۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp