بلوچستان کے مڈل کلاس طلبہ جو پاکستان میں آزادی کی خاطر لڑ رہے ہیں


ثنا بلوچ

ثنا بلوچ لاک ڈاؤن کے دوران گھر واپس آئے اور اس کے بعد سے اب تک لاپتہ ہیں

ثنا بلوچ کو لاپتہ ہوئے تقریباً تین ماہ ہو گئے ہیں۔

بہت سے طلبہ کی طرح وہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اپنے گھر لوٹ چکے تھے۔ بہت سے طلبہ کی طرح انھیں نہیں پتا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔

وہ پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک میں پوسٹ گریجیوٹ طالب علم تھے۔ ان کا آبائی علاقہ خاران بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے سینکڑوں میل جنوب مغربی میں واقع ہے۔ 11 مئی کو وہ خاران کے مضافات سے ہی لاپتہ ہوئے تھے۔

ثنا بلوچ کا معاملہ کوئی خاص منفرد نہیں ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال مگر انتہائی غریب صوبے بلوچستان میں ایسے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں جہاں پاکستانی فوج پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ صوبائی خودمختاری کی کوششوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستانی فوج اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں بلوچستان میں کنٹونمنٹ کے علاقوں میں ‘تشدد کے مراکز‘ بننے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انھیں ایسے مراکز قرار دیا ہے جہاں لوگوں کو غیر قانونی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان سے تفتیش کی جاتی ہے۔ کارکنان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں ہزاروں لوگ لاپتہ کیے گئے ہیں۔

ثنا بلوچ کے معاملات سے واقف مختلف ذرائع نے بی بی سی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ثنا بلوچ کو خاران میں ایک ایسے ہی حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔

ان کے خاندان والوں کی معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں، یا پھر وہ بتاتے نہیں۔ نہ ہی انھوں نے عدالت سے رابطہ کیا ہے یا حکام سے کہا ہے کہ ثنا بلوچ کو ڈھونڈا جائے۔ مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پریشان نہیں ہیں۔

‘جب آپ بلوچستان میں رہتے ہیں تو آپ ایسا نہیں کرتے (حکام کے پاس جانا)۔ آپ بس خاموشی سے انتظار کرتے ہیں اور بہتری کی امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ بالکل شاہداد ممتاز کے والدین کی طرح۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں انسانی حقوق کی پوشیدہ خلاف ورزیاں

لاپتہ افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم رہا

ادریس خٹک ملٹری انٹیلیجنس کی تحویل میں، سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ

’موجودہ دور حکومت میں بلوچستان سے تقریباً 1500 جبری گمشدگیاں ہوئیں‘

پاکستان، بلوچستان، بغاوت

پاکستان کے سکیورٹی ادارے کئی مسلح بغاوت کا مقابلہ کر رہے ہیں

شاہداد ممتاز بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم تھے۔ وہ 2015 میں لاپتہ ہوئے تاہم ان کی فیملی خاموش رہی اور چند ماہ بعد وہ لوٹ آئے۔

مگر آخر میں ان کے ساتھ جو ہوا، اس میں سب کے لیے سبق ہے۔ یکم مئی 2020 کو، ثنا بلوچ کے لاپتہ ہونے سے دس روز قبل شاہداد بلوچ فوج کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ ان کو جاننے والے بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ بلوچ لبریشن آرمی، ایک مسلح علیحدگی پسند تنظیم، نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کے رکن تھے۔

شاہداد

شاہداد ممتاز آخر میں فوج سے مسلح جھڑپ کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے تھے

کیا شاہداد ممتاز ہمیشہ سے ہی عسکریت پسند بننے کا ارادہ رکھتے تھے اور اس ارادے کو اپنے خاندان، دوستوں، اساتذہ سب سے چھپائے پھرتے تھے؟ اور اگر ایسا تھا تو انھیں پھر رہا کیوں کیا گیا؟

اور کیا ثنا بلوچ بھی اب اسی راہ پر چل پڑے ہیں؟

ان سوالوں کے جوابات کئی دہائیوں سے جاری بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی اور اس تاریخ کے خطے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر اثرات میں چھپے ہیں۔

اسلام اباد اور بلوچستان کے درمیان اس تناؤ کی وجہ صرف صوبے کے وسیع قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ بلوچستان علاقے کے اعتباد سے پاکستان کا چوالیس فیصد ہے مگر آبادی کے لحاظ سے صرف پانچ اعشاریہ نو فیصد۔

وہاں کے قدرتی وسائل کا تخمینہ ایک ٹریلین ڈالر ہے۔ مگر کشیدگی کی ایک وجہ بلوچستان کی جنوبی افغانستان سے متحصل سرحد ہے جہاں کئی دہائیوں سے جنگ جاری ہے۔

یہی وہ دنیا ہے جس میں شاہداد ممتاز اور ثنا بلوچ جیسے لوگ اپنی آنکھ کھولتے ہیں۔

تعلیم یافتہ اور سماجی طور پر متحرک شاہداد ممتاز اپنے آبائی شہر تربت کے ایک معروف گرامر سکول میں پڑھے اور ایچ آر سی پی کے علاقائی کورڈینیٹر تھے۔ وہ اکثر لاپتہ ہونے والے افراد کی اطلاعات دیتے۔

2015 میں وہ خود لاپتہ ہوئے۔ ایک مقامی تجزیہ کار کے مطابق وہ ’ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنے اغوا کاروں کو یہ یقین دلا دیا کہ اب وہ تبدیل ہو چکے ہیں اور ان کی قوم پرستی ایک غلطی تھی۔‘

2016 میں رہائی کے بعد شاہداد ممتاز نے اسلام اباد میں قائداعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں ایک ساتھی بلوچ طالب علم کو انھوں نے اپنے زیرِ حراست رہنے کے دنوں کے بارے میں بتایا۔

شاہداد

شاہداد ممتاز طلبہ سیاست کا حصہ رہے اس لیے یہ حیران کن تھا جب انھوں نے ہتھیار اٹھا لیے

ان کے اس ساتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس نے مجھے بتایا کہ پیغام بنیادی طور پر سیاسی سرگرمیوں کے نقصانات کے بارے میں تھا۔ وہ کہتے تھے اسے ختم کر دو۔ تعلیم میں دلچسپی رکھو، نوکری ڈھونڈو۔ تم نعرے مار کر وقت کیوں ضائع کرتے ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پیغام تشدد اور گالیوں کے ذریعے دیا جاتا تھا۔ وہ اسے لاتیں اور ڈنڈے مارتے تھے، موت کی دھمکیاں دیتے، اور کئی کئی دن تک سونے نہیں دیتے۔ کھانے کے لیے صرف دالیں دی جاتی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ شاہداد کو دالوں سے نفرت ہوگئی تھی۔ ’وہ اسے حراست کے دن یاد کراتی تھیں۔‘

مگر شاہداد کی قوم پرستی مری نہیں اور وہ یونیورسٹی میں ان کی سرگرمیوں میں نظر آنے لگی تھی۔

انھوں نے یونیورسٹی کی طلبہ کونسل میں شمولیت اختیار کی اور قدامت پسند مذہبی طلبہ کے ساتھ ایک لڑائی میں وہ زخمی بھی ہوئے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف ایک مظاہرے کے بعد وہ گرفتار ہوگئے تھے۔

شاہداد

ایک جھڑپ میں شاہداد زخمی ہوگئے تھے

ایک دوست کا کہنا ہے کہ شاہداد بلوچ حقوق کے بارے میں جیسے تبلیغ کرتا تھا اور اس کے لیے اطالوی مارکسسٹ آنتونیو گرامشی کی کتاب ’پریزن نوٹ بکس‘ (جو قید خانے میں لکھی گئی تھی) اہم ترین کتاب کا درجہ رکھتی تھی۔

’طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ لمبی لمبی بحث کے دوران وہ اس کتاب کے مرکزی خیال کہ کیسے ایک طاقتور تہذیب قابض ہوتی ہے، کی مدد سے کہتا تھا کہ کیسے ریاست بلوچوں کی خودساختہ سوچ ختم کر رہی ہے۔‘

ایسے خیالات بلوچستان میں عام طور پر پائے جاتے ہیں اور یہ 1947 میں پاکستان کی آزادی سے ایسے ہی ہے۔ جب برطانیہ نے برصغیر کی آزادی کا اعلان کیا تو خطے میں بہت ساری ریاستوں کو کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ بن جائیں یا انڈیا کا، یا پھر آزاد رہیں۔

ریاستِ کلات جو کہ موجودہ بلوچستان کا بیشتر حصہ تھی، نے آزادی کا فیصلہ کیا تاہم نو ماہ بعد پاکستان نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کی وجہ سے بلوچستان میں بلوچ حقوق کے لیے ایک تحریک شروع ہوئی جو کہ بائیں بازو کی قوم پرستی کی جانب زیادہ بڑھتی گئی۔

تب ہی سے ایک تنازع کھڑا ہوا اور اس میں بلوچوں کا مطالبہ ہے کہ انھیں صوبے کے وسیع تر قدرتی وسائل میں زیادہ حصہ دیا جائے، خاص کر سوئی کے علاقے سے نکلنے والی گیس میں۔

حالیہ کشیدگی 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہوئی جب فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

یہ معاملہ اس وقت پر تشدد ہوا جب مبینہ طور پر ایک فوجی نے ایک ڈاکٹر کا ریپ کر دیا۔ کسی کو سزا نہ ہوئی اور ہزاروں فوجیوں کو بھیجا گیا کہ مظاہرین پر قابو پایا جائے۔

تب سے اب تک فوج نے صوبے میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا ہے، نئی چھاؤنیاں بنائی ہیں، اور اطلاعات کے مطابق جاسوسوں کے نیٹ ورک بنائے ہیں جو کہ اصل اور مبینہ قوم پرستوں کو پکڑتے ہیں۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ فوج ایسے لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے لاپتہ کر دیتی ہے۔

فوج پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ اسلامی شدت پسندوں کا استعمال کر کے ہمسایہ افغانستان اور بلوچستان کے علاقوں میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ان پر مقامی جرائم پیشہ عناصر کی مدد سے ’ڈیتھ سکواڈ‘ چلانے کا الزام ہے جو کہ فوج کو معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ وہ بلوچ قوم پرستوں کو جا کر مار سکیں۔

ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے مطابق 20000 بلوچوں کو اٹھایا جا چکا ہے اور ان میں 7000 مارے جا چکے ہیں۔

پاکستانی حکام ان الزامات کی کئی مرتبہ تردید کر چکے ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے بی بی سی نے آرمی کے ترجمان اور پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری سے رابطہ کیا تاہم کوئی جواب نہ ملا۔ ماضی میں فوج نے تشدد کے مراکز کے حوالے سے اطلاعات پر بیان دینے سے اجتناب کیا ہے۔

صوبے میں سویلین حکومت نے ماضی میں سیاسی کارکنان کی گمشدگی کو بلوچ عسکریت پسندوں کے درمیان آپسی لڑائی کی نظر ہونے کا عندیہ دیا ہے۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی سال سے جاری عوام کو دبانے کی پالیسی اور ریاست کے دیگر اداروں جیسے کہ پارلیمان اور عدلیہ کی فوج کو چیک کرنے میں ناکامی کی وجہ سے قوم پرست گروہ انتہا پسندی کی طرف جا رہے ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک کارنگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق ’پاکستانی فوج کے نشانے پر اس وقت متوسط طبقہ ہے تاکہ بلوچ قوم پرستی کو ہر انداز میں ختم کیا جائے۔‘

شاہداد ممتاز جیسے لوگ ہی وہ تعلیم یافتہ شہری متوسط طبقہ ہیں۔

مگر جو طلبہ انھیں جانتے تھے انھیں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ہتھیار اٹھائیں گے۔ بلکہ انھوں نے اپنا ماسٹرز کیا اور ایم فل میں داخلہ لیا۔ وہ ایک دوست کے ساتھ سی ایس ایس کی تیاری کرنے کے لیے لاہور بھی گئے۔

مگر ان کا ایک دوست یہ بھی کہتا ہے کہ کبھی کبھی وہ ٹوٹ جاتے تھے۔ جب کبھی کسی کی مسخ شدہ لاش ملتی یا کوئی صحافی یا استاد مارا جاتا تو وہ کہتا کہ اس ریاست کو صرف بندوق کی زبان سمجھ آتی ہے۔

گذشتہ جنوری میں وہ دوستوں سے آخری مرتبہ ملے۔ اس کے بعد وہ لاہور گئے سی ایس ایس کی تیاری کے لیے۔ اور پھر ایک رات بلوچستان کے سورپارود علاقے میں اس کی جان چلی گئئ۔

ثنا بلوچ کا کیس کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی ایک قوم پرست ہیں، اور بی این پی ایم پارٹی کے رکن ہیں۔ وہ بھی ایک قابل طالبہ علم ہیں اور انھوں نے بلوچی ادب میں ماسٹرز کیا ہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کر رہے ہیں۔

ثنا بلوچ

ثنا بلوچ مئی سے لاپتہ ہیں

ان کے ایک استاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں اپنا ایم فل کا تھیسزز تقریباً مکمل کر لیا تھا اور مئی کے آخر میں جمع کروانا تھا مگر کورونا وائرس کی وجہ سے انھیں اپنے گھر لوٹنا پڑا۔

کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ایک رہنما نے بتایا کہ خاران میں ثنا بلوچ نے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس میں ’قومی شناختی کارڈ کے لیے دستاویزات بنانے میں مقامی افراد کی مدد، مقامی پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ ان کے مسائل کا حل وغیرہ شامل ہے۔‘

اب ان کے ساتھ کیا ہوا ہے، یہ غیر واضح ہے۔

کیا اب ان کی لاش کسی کوڑے کے ڈھیر سے ملے گی؟ کیا وہ اپنے ساتھیوں کی مخبری کریں گے؟ یا وہ شاہداد کی طرح لوٹیں گے کچھ دیر نظروں سے اوجھل رہیں گے اور پھر ہتھیار اٹھا لیں گے۔۔۔

یہ تو اب وقت ہی بتائے گا۔ اتنی دیر ان کے خاندان کو صبر کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp