ایمل ولی خان، عدالت میں ملزم کا قتل اور انتہا پسند بیانیہ


پشاور کے جوڈیشل کمپلیکس میں 28 جولائی 2020 کو ایک ملزم جس پر توہین رسالت کا مقدمہ چل رہا تھا کو عدالت کے اندر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مقدمہ کا فیصلہ ابھی ہونا تھا کہ ملزم کو مارا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے فوری طور پر اس پر تشدد واقعے پر پارٹی کا موقف دیتے ہوئے خود مدعی، خود وکیل اور خود جج بن کر قتل کرنے کے اس عمل کی مذمت کی اور آئین و قانون کی بالا دستی کی بات کی اور ساتھ عدالتی اصلاحات پر زور بھی دیا۔ اے این پی کے صوبائی صدر کے اس بیان پر کچھ مفاد پرست حلقوں اور کچھ جذباتی لوگوں کی طرف رد عمل سامنے آیا۔ مفاد پرست حلقوں نے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اس بیان کو ایک کاذب کی حمایت پر محمول کر دیا۔ اس واقعے کے چند ایک پہلو بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

اس واقعے کا ایک پہلو یہ ہے کہ پختونخوا میں پچھلی کئی دہائیوں سے پر تشدد انتہا پسندی کے بیانیے اور انفراسٹرکچر کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر نے نصاب، کتاب، میڈیا اور مختلف تنظیموں کے ذریعے انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی کا ایک خوفناک کا ماحول بنا دیا ہے۔ پرائویٹ ملیشیاؤں اور جنگی اقتصاد کا پورا ایک نظام ترتیب دیا گیا ہے جن کے ذریعے لا قانونیت، فرقہ پرستی اور شخصی قتل و غارتگری کیلئے سازگار ماحول بنا دیا گیا ہے۔ کنٹرولڈ انتشار کے اس ماحول نے پختونخوا اور پورے پاکستان اور افغانستان کے اندر عقل و خرد اور تخلیق و جمالیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ روشن فکری، برداشت اور تنوع کی قبولیت کو اس ماحول نے گھٹن کا شکار کردیا ہے۔ پشاور کی عدالت میں یہ قتل اس پورے ماحول کا نتیجہ بھی ہے اور مزید انتشار پیدا کرنے کیلئے ایک چنگاری بھی۔

عوامی نیشنل پارٹی چونکہ عدم تشدد، بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت اور سماجی انصاف پر یقین رکھتی ہے اس لئے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اس پورے پس منظر کا ادراک کرتے ہوئے اس پر تشدد واقعے کی مذمت کی۔ دوسرے لفظوں میں ایمل ولی خان نے انارکی اور دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا راستہ روک دیا۔ یہ اقدام روشن فکر اور ترقی پسند خدائی خدمتگار تحریک کی درست جان نشینی کا بر ملا اظہار تھا۔ یہ بیان مذہب کے مقدس نام پر خون کی ہولی کھیلنے والوں اور پیغمبر کے مقدس نام پر دھندہ کرنے والوں کے خلاف کھڑا ہونا تھا۔ یہ اس سرزمین اور اس دھرتی کو دہشت اور وحشت سے نجات دلانے کی ذمہ داری کا احساس تھا۔ ایمل خان کا یہ موقف عین اسلام دوستی بھی ہے، انسان دوستی بھی ہے اور وطن دوستی بھی۔

خوف کے اس ماحول نے بدقسمتی سے اکثر لوگوں کی زبانیں گنگ کردی ہیں۔ علمائے حق، دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت، سول سماج کی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایمل ولی خان اور عوامی نیشنل پارٹی کے موقف کے ساتھ آواز ملانا چاہئے تھا لیکن وہ بر وقت ایسا نہیں کرسکے۔ ان تمام لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ انتشار اور انارکی کنٹرول سے نکال گیا تو پھر کسی کا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ کہیں خدا نہ کرے کہ ہر گلی میں ایک مشال خان کی مسخ شدہ لاش پڑی مل جائے اور پختونخوا سمیت پورا پاکستان ایک مقتل بن جائے۔ ان تمام لوگوں کو عوامی نیشنل پارٹی اور ایمل ولی خان کی آواز میں آواز ملانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنا آگ بجھانے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس واقعے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مذہب و شریعت کی رو سے بغیر مقدمے کے شخصی طور پر قتل کرنے کی حیثیت کیا ہے؟ کیا مقدمہ عدالت چلائے گی یا پھر ہر کوئی قانون ہاتھ میں لیکر خود مدعی، خود وکیل اور خود منصف بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ مسلم دنیا میں ڈاکٹر ذاکر نائک سے لیکر جاوید احمد غامدی تک، مفتی تقی عثمانی سے لیکر مولانا طارق جمیل تک اور مفتی عمار یاسر سے لیکر مفتی اسماعیل تک سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ توہین رسالت کا مقدمہ صرف اور صرف عدالت چلا سکتی ہے (ان تمام علماء کے فتووں اور بیانات کے حوالے موجود ہیں۔ اس مضمون کے پڑھنے والے تمام دوستوں کو یہ حوالے مہیا کئے جا سکتے ہیں)۔ شخصی طور پر کسی کو مارنا قتل کے زمرے میں آئے گا۔ اب اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ چونکہ عدالتیں فیصلہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو اس لئے خود سے فیصلہ کرنا جائز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ڈاکٹر علاج کرنے میں ناکام ہوا تو خود سے آپریشن کرنا شروع کیا جائے تو یہ عمل ایک لا متناہی قتل عام پر منتج ہوگا۔ عدالتیں اگر نا اہل ہیں تو عدالتی اصلاحات کرنی پڑیں گی جو کہ ایک سیاسی عمل ہے۔ اس کا علاج خود مدعی، خود وکیل اور منصف بن کر نہیں ہوتا۔

اس ملک اور پختونخوا کے روشن فکر طبقات، علمائے حق، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی قیادت کو حق و انصاف اور سچائی اور صداقت کی بقا کی خاطر عوامی نیشنل پارٹی اور ایمل ولی خان کے موقف کا ساتھ دینا ہوگا ورنہ اس تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ مجھے ذاتی طور پر فخر ہے کہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور ایمل ولی خان کے موقف کا ساتھ دے رہا ہوں۔

حلقہ کیے بیٹھے رہو اِک شمع کو یارو

کچھ روشنی باقی تو ہے، ہر چند کہ کم ہے

ڈاکٹر خادم حسین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خادم حسین

(خادم حسین پانچ کتابوں کے مصنف ہیں اور @khadimHussain 4 پر ٹویٹ کرتے ہیں۔ )

khadim-hussain has 9 posts and counting.See all posts by khadim-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments